Express News:
2025-09-18@20:43:45 GMT

چرواہا اور سخت ریاست

اشاعت کی تاریخ: 25th, August 2025 GMT

مون سون سیزن کا ایک اسپیل ختم ہو گیا جس نے کے پی کے، بلوچستان، آزاد کشمیر، گلگت  بلتستان اور پنجاب و سندھ کے بیشتر علاقوں کو سیلابی ریلوں میں ڈبو دیا۔

600 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے، مکانات کی چھتیں گرنے، کرنٹ لگنے، ملبے تلے دبنے، سیلابی پانی میں ڈوب جانے اور آسمانی بجلی گرنے سمیت مختلف حادثات میں اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی اموات سے نہ صرف متاثرہ خاندانوں کے دکھوں اور مسائل میں اضافہ ہوا بلکہ کئی گھرانے اپنے سرپرستوں کی محرومی سے مستقبل کے گہرے صدمات و خدشات اور وسوسوں کی دلدل میں اتر گئے ہیں۔ کراچی تا خیبر ہونے والی شدید بارشوں، سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ اور حادثات میں ہونے والے جانی و مالی نقصانات کی تلافی کے لیے وفاقی حکومت سے لے کر صوبائی حکومتوں نے جو بھی امداد فراہم کی اور چیک کی صورت میں متاثرین کو چند لاکھ کی جو امداد فراہم کی گئی وہ یقینی طور پر ان کے نقصانات کی مکمل تلافی نہیں کر سکتی ہے۔

بارش اور سیلاب کی تباہ کاریوں کی بازگشت بیرون ملک میں سنی گئی اور غیر ممالک کی جانب سے بھی امداد آ رہی ہے، کاش وہ پوری کی پوری امداد حق دار متاثرین اور مستحقین تک پہنچ جائے ورنہ ماضی کی تاریخ گواہ ہے کہ زلزلوں، سیلابوں اور بارشوں کی تباہی کے حوالے سے بیرون ملک سے آنے والی امداد میں بدعنوانی اور خورد برد کے قصے اخبارات کی زینت بنتے رہے ہیں۔

وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے کے پی کے متاثرین کو امدادی چیک تقسیم کرتے وقت بڑے دل دوز انداز میں بارشوں، سیلابوں اور لینڈ سلائیڈنگ کے اسباب و عوامل پر روشنی ڈالتے ہوئے جن انسانی غلطیوں، کوتاہیوں اور لغزشوں کا تذکرہ کیا ہے اور آیندہ ایسے سانحات کے سدباب کے لیے پاکستان کو ایک سخت ریاست بننے کا جو پیغام دیا ہے اس میں غور و فکر کا بڑا سامان موجود ہے۔

وزیر اعظم نے بالکل درست نشان دہی کی کہ آبی گزرگاہوں کے عین بیچ اور کناروں پر ہوٹل، مکانات اور دیگر تجاوزات قائم کرنے سے نقصانات کا دائرہ وسیع ہو گیا۔ لوگوں نے غیر قانونی طور پر ازخود اور تجاوزات کی حوصلہ افزائی کرنے والے سرکاری اہلکاروں اور مافیا کی سرپرستی میں دریاؤں کے اندر تعمیرات کر رکھی ہیں جو تفریح کے لیے ان خوب صورت مقامات پر آنے والوں سے ان کے لیے پیسہ کمانے کا ذریعہ بن گئی ہیں۔

المیہ یہ کہ کوئی متعلقہ حکومتی ادارہ ان تجاوزات کو روکنے کے لیے اقدامات کرتا اور ایسے لوگوں کی حوصلہ شکنی کی جاتی بلکہ رشوتوں کے طفیل ایسے مافیاز کی حوصلہ افزائی کی گئی جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے کہ لوگ اپنی جانوں سے بھی گئے اور مال و اسباب بھی تباہ ہو گیا۔ غیر قانونی کان کنی اور اسٹون کرشنگ کے پہلو بہ پہلو جنگلات کی کٹائی کرکے ٹمبر مافیا نے بھی اس تباہی میں اپنا حصہ ڈالا ہے اور وزیر اعظم نے اس جانب اشارہ کرتے ہوئے دو ٹوک لفظوں میں ماحولیاتی قانون سازی کی ضرورت کو اجاگر کرتے ہوئے شجرکاری کی ضرورت پر زور دیا ہے تاکہ آنے والے کل میں ہمیں آج جیسے خطرناک مسائل اور مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ چار روز بعد دوسرا اسپیل بھی شروع ہونے والا ہے۔ محکمہ موسمیات کی پیش گوئی کے مطابق بارشوں کا دوسرا اسپیل پہلے کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

صرف پاکستان نہیں بلکہ دنیا کے بیشتر ممالک میں بارشیں اور سیلاب اور گلیشیئر کا پگھلنا ایک معمول کا عمل ہے۔ دور اندیش حکمران آنے والے کل کے خطرات سے نمٹنے کے لیے پہلے ہی اقدامات اٹھا لیتے ہیں۔ بڑے بڑے سونامی سے بھی وہ آسانی سے گزر جاتے ہیں۔ بنگلہ دیش سے لے کر جاپان تک، ناروے اور سوئیڈن سے لے کر فن لینڈ اور کینیڈا تک اور امریکا و برطانیہ سے لے کر روس تک بارشیں، سیلاب، سونامی، آندھیاں اور طوفان سب اپنا رنگ دکھاتے ہیں۔

اس کے باوجود وہاں زندگی رواں دواں رہتی ہے۔ نہ اسکول بند ہوتے ہیں، نہ مارکیٹیں اور نہ ہی کارخانے اور ٹریفک، بلکہ سب چلتا رہتا ہے۔ نہ کہیں پانی کھڑا ہوتا ہے اور نہ سیکڑوں ہزاروں لوگ لقمہ اجل بنتے ہیں لیکن ہمارے وطن عزیز میں چند ملی میٹر بارش پورے شہر کو ڈبو دیتی ہے۔ ایک سیلابی ریلا گاؤں اور دیہاتوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیتا ہے۔ ہمارے ہاں نہ کوئی ٹھوس منصوبہ بندی ہے اور نہ ہی کوئی ایسا سسٹم اور نہ ہی کوئی ایسا ادارہ جو آنے والے خطرات سے قبل از وقت آگاہی دے سکے اور لوگ اپنی جان و مال کی حفاظت کا کوئی سامان کر سکیں۔

ابھی چار روز پیشتر گلگت  بلتستان کے ضلع غذر کے علاقے گوپی میں گلیشیئر پھٹنے سے آنے والے سیلابی ریلوں نے کئی دیہات کو ڈبو دیا، حسب سابق پاک فوج نے یہاں بھی بروقت امدادی کارروائیاں کرکے لوگوں کو محفوظ مقامات تک پہنچایا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق پہاڑ پر موجود ایک چرواہے نے ٹیلی فون پر گلیشیئر پھٹنے کی اطلاع گاؤں والوں کو دی جس کے بعد فوری طور پر لوگوں کو محفوظ مقامات تک پہنچا دیا گیا۔ ورنہ بڑا جانی نقصان ہو سکتا تھا۔

کیا ہم اس چرواہے سے بھی گئے گزرے ہیں، جو ملک میں ہر شعبہ زندگی میں کرپشن و بدعنوانی کو فروغ دینے کا سبب بن رہے ہیں؟ سخت ریاست بننے کے لیے چرواہے سے ہی کوئی سبق سیکھ لیں تو اس ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: آنے والے سے لے کر سے بھی اور نہ ہے اور

پڑھیں:

بےقاعدہ نیند سے جُڑے خطرناک مسائل

ایک نئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ بے قاعدہ نیند والے لوگوں میں ہارٹ اٹیک یا فالج کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔

حال ہی میں ہونے والی تحقیق کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ جو لوگ دن میں مختلف اوقات میں سوتے ہیں اور جاگتے ہیں ان میں ممکنہ طور پر دل سے متعلق مہلک بیماری کا خطرہ 26 فیصد بڑھ جاتا ہے۔

محققین نے پایا کہ یہ بلند خطرہ اس بات سے منسلک ہے کہ آیا ان لوگوں نے رات کی تجویز کردہ سات سے نو گھنٹے کی نیند لی یا نہیں۔

اونٹاریو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے چلڈرن ہسپتال کے ایک سینئر سائنسدان جین فلپ  کا کہنا تھا کہ ہمارے نتائج بتاتے ہیں کہ نیند کی باقاعدگی بڑے منفی قلبی عوارض کے خطرے میں اضافہ کرتی ہے۔

مطالعہ کے لیے محققین نے 72,000 سے زیادہ لوگوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا جنہوں نے یو کے بائیو بینک میں حصہ لیا ہے۔ یوکے بائیوبینک ایک بڑے پیمانے پر صحت کے تحقیقی منصوبے کا پراجیکٹ ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کلاسیکی غلاموں کی تشویش
  • بےقاعدہ نیند سے جُڑے خطرناک مسائل
  • 3 برس میں 30 لاکھ پاکستانی ملک چھوڑ کر چلے گئے
  • 3 برس میں 30 لاکھ پاکستانی نے ملک چھوڑ کر چلے گئے
  • ماں کے خلاف شکایت کرنے والے بیٹے کو معافی مانگنے کی ہدایت، صارفین کا ڈی پی او غلام محی الدین کے لیے انعام کا مطالبہ
  • زمین کے ستائے ہوئے لوگ
  • بھارت: کیرالا میں دماغ کھانے والے امیبا سے عوام میں دہشت
  • ریاست کے خلاف کوئی جہاد نہیں ہو سکتا، پیغام پاکستان اقلیتوں کے تحفظ کا ضامن ہے ،عطاء تارڑ
  • ’دہشت گردوں کو پناہ دینے والے ممالک کی کوئی خودمختاری نہیں‘ نیتن یاہو کی پاکستان اور افغانستان پر تنقید
  • مدد کے کلچر کا فقدان