بھارتی برآمدات کو بڑا دھچکا، امریکہ کا 25 فیصد اضافی ٹیرف، برآمدات میں 30 فیصد تک کمی کا خدشہ
اشاعت کی تاریخ: 26th, August 2025 GMT
امریکا اور بھارت کے درمیان تجارتی تعلقات ایک نئی کشیدگی کا شکار ہو گئے ہیں، جب کہ امریکی محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی نے اعلان کیا ہے کہ بھارت سے درآمد ہونے والی اشیا پر 25 فیصد اضافی ٹیرف بدھ کی صبح (بھارتی وقت کے مطابق 9:30 بجے) سے نافذ العمل ہوگا۔ اس کے بعد مجموعی ٹیرف 50 فیصد تک پہنچ جائے گا۔
یہ ٹیرف ان تمام بھارتی مصنوعات پر لاگو ہوگا جو مذکورہ وقت کے بعد امریکی مارکیٹ میں رجسٹر ہوں گی یا گوداموں سے باہر نکالی جائیں گی۔
روسی تیل پر سزا یا تجارتی دباؤ؟
یہ اقدام امریکا کی جانب سے بھارت کی روس سے سستے داموں تیل کی بڑے پیمانے پر خریداری پر ردعمل کے طور پر سامنے آیا ہے۔ امریکی حکام کے مطابق بھارت روسی خام تیل خرید کر بالواسطہ طور پر یوکرین جنگ میں روس کی مالی مدد کر رہا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے تجارتی مشیر پیٹر نیوارو اور امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے کہا ہے کہ یہ روش بند ہونی چاہیے، کیونکہ روسی تیل کی خریداری جنگ سے پہلے ایک فیصد سے بھی کم تھی، لیکن اب یہ بھارت کی کل درآمدات کا 42 فیصد ہو چکی ہے۔
بھارتی روپیہ دباؤ میں، نئی دہلی کا ردعمل محتاط
ٹیرف کے اعلان کے بعد بھارتی روپیہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں 0.
بھارتی وزارت تجارت نے فی الحال سرکاری طور پر امریکی اقدام پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ تاہم، ایک اعلیٰ سرکاری افسر نے برطانوی خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کو بتایا کہ حکومت کو فوری طور پر کسی ریلیف یا مہلت کی امید نہیں ہے۔
برآمدات پر شدید اثرات، متبادل منڈیوں کی تلاش
ایکسپورٹرز کے اندازے کے مطابق بھارت کی امریکا کو ہونے والی 87 ارب ڈالر کی سالانہ برآمدات میں سے تقریباً 55 فیصد اس اضافی ٹیرف سے متاثر ہو سکتی ہیں۔ اس سے ویتنام، بنگلہ دیش اور چین جیسے ممالک کو فائدہ پہنچنے کا امکان ہے، جو پہلے ہی عالمی مارکیٹ میں بھارت کے بڑے حریف ہیں۔
انجینئرنگ ایکسپورٹس پروموشن کونسل کے صدر، پنکج چھدھا نے خبردار کیا ہے کہ ستمبر سے بھارتی برآمدات میں 20 سے 30 فیصد تک کمی آ سکتی ہے، کیونکہ امریکی خریدار پہلے ہی نئے آرڈرز روک چکے ہیں۔
حکومت کی کوششیں اور چیلنجز
بھارتی حکومت نے برآمدکنندگان کو مالی امداد دینے، بینک قرضوں پر سبسڈی بڑھانے اور متبادل منڈیوں تک رسائی میں مدد دینے کا وعدہ کیا ہے۔ تقریباً 50 ممالک کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں بھارتی مصنوعات جیسے ٹیکسٹائل، فوڈ پروسیسنگ، چمڑے اور سمندری اشیا کی برآمدات کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔
تاہم، پنکج چھدھا کا کہنا ہے کہ فوری طور پر متبادل منڈیوں میں قدم جمانا آسان نہیں ہوگا، اور گھریلو مارکیٹ بھی محدود گنجائش رکھتی ہے۔
ہیرے کی صنعت کو دہرا دھچکا
بھارت کی ہیرے اور زیورات کی صنعت، جو پہلے ہی چین میں کمزور طلب کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہے، اب امریکی منڈی میں ممکنہ رسائی کے خاتمے سے مزید بحران کا سامنا کر سکتی ہے۔ یہ صنعت امریکا کو تقریباً 28.5 ارب ڈالر کی برآمدات کرتی ہے، جو اس شعبے کی کل برآمدات کا ایک تہائی ہے۔
مودی حکومت کا موقف
وزیراعظم نریندر مودی پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ کسانوں کے مفادات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے، چاہے اس کی کتنی ہی بڑی قیمت کیوں نہ چکانی پڑے۔ ساتھ ہی، وہ چین کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور سات سال بعد رواں ماہ کے آخر میں بیجنگ کا دورہ بھی متوقع ہے۔ Post Views: 6
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: بھارت کی برا مدات پہلے ہی
پڑھیں:
امریکہ، حکومتی شٹ ڈاؤن کا سنگین اثر
رپورٹ کے مطابق ہفتے سے امریکی فوڈ امدادی پروگرام "سپلیمنٹل نیوٹریشن اسسٹنس پروگرام" (SNAP) کی فنڈنگ ختم ہونا شروع ہو جائے گی، جسے عام طور پر "فوڈ اسٹامپس" کہا جاتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امریکا میں جاری سرکاری شٹ ڈاؤن کے باعث تقریباً 4 کروڑ 20 لاکھ شہریوں کے خوراکی امدادی پروگرام سے محروم ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے، کیونکہ وفاقی حکومت کے پاس فنڈز تیزی سے ختم ہو رہے ہیں اور کانگریس میں ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز کے درمیان تعطل برقرار ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہفتے سے امریکی فوڈ امدادی پروگرام "سپلیمنٹل نیوٹریشن اسسٹنس پروگرام" (SNAP) کی فنڈنگ ختم ہونا شروع ہو جائے گی، جسے عام طور پر "فوڈ اسٹامپس" کہا جاتا ہے۔ امریکی محکمہ زراعت (USDA) نے اعلان کیا ہے کہ وہ ہنگامی فنڈز استعمال نہیں کرے گا، جس سے نومبر کے جزوی فوائد کی ادائیگی ممکن ہو سکتی تھی۔ ڈیموکریٹس نے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ محکمہ قانونی طور پر پابند ہے کہ تقریباً 5.5 ارب ڈالر کے Contingency Funds استعمال کرے تاکہ لاکھوں شہری بھوک سے محفوظ رہ سکیں۔ سینیٹر جین شاہین نے الزام عائد کیا کہ ٹرمپ انتظامیہ "بھوک کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے"، جبکہ ریپبلکن ارکان نے اس تعطل کا ذمہ دار ڈیموکریٹس کو ٹھہرایا ہے۔
ریپبلکن سینیٹر جان ہووین کا کہنا ہے کہ اگر ڈیموکریٹس حکومت کھولنے کے لیے Continuing Resolution Bill (CR) کے حق میں ووٹ دے دیں تو یہ بحران ختم ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب، امریکی کانگریس میں ایس این اے پی کی فنڈنگ پر تنازعہ بڑھ گیا ہے۔ کچھ ریپبلکن اراکین نے نومبر کے لیے امدادی پروگرام کی جزوی بحالی کا بل پیش کیا ہے، تاہم اس پر ووٹنگ تاحال نہیں ہو سکی۔ ماضی میں شٹ ڈاؤن کے دوران بھی ایس این اے پی کے فوائد تقسیم کیے جاتے رہے ہیں، لیکن اس بار محکمہ زراعت نے اپنے مؤقف میں یوٹرن لے لیا ہے اور ویب سائٹ سے سابقہ رہنمائی ہٹا دی ہے۔ یہ بحران امریکا کی ان ریاستوں کے لیے سب سے زیادہ تشویشناک ہے جہاں آبادی کا بڑا حصہ وفاقی خوراکی امداد پر انحصار کرتا ہے، جیسے لوزیانا، اوکلاہوما اور ویسٹ ورجینیا۔