دنیا میں ہرسال کتنے افراد اپنی جان لے لیتے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 26th, August 2025 GMT
ہر سال دنیا بھر میں لاکھوں افراد خودکشی کر کے اپنی جان لے لیتے ہیں۔ اگرچہ گزشتہ 3 دہائیوں کے دوران عالمی سطح پر خودکشی کی شرح میں واضح کمی آئی ہے ماہرین کے مطابق یہ تعداد اب بھی تشویش ناک ہے۔ صرف جرمنی میں 2023 کے دوران 10 ہزار سے زائد افراد نے خودکشی کی۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت میں طلبہ کی خودکشیوں میں اضافہ: اصل وجہ کیا ہے؟
جرمن خبر رساں ادارے ڈی ڈبلیو کی رپورٹ کے مطابق سنہ 1990 سے سنہ 2021 کے درمیان دنیا کے 102 ممالک میں خودکشی کی شرح میں اوسطاً 30 فیصد کمی ہوئی۔ جریدے ’نیچر مینٹل ہیلتھ‘ میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق یہ کمی خاص طور پر زیادہ آمدنی والے ممالک میں زیادہ نمایاں رہی۔
یہ تحقیق عالمی ادارہ صحت کے ڈیٹا پر مبنی تھی جسے 5 براعظموں کے ممالک سے جمع کیا گیا۔ جنوبی کوریا کی کیونگ ہی یونیورسٹی کے سون کم اور سیلن وو کی سربراہی میں بین الاقوامی محققین نے اس ڈیٹا کا تجزیہ کیا۔
سنہ 1990 میں خودکشی کی شرح فی ایک لاکھ افراد 10.
امیر ممالک میں یہ شرح 12.68 سے گھٹ کر 8.61 تک آئی یعنی 32.1 فیصد کمی۔
کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں شرح 7.88 سے کم ہو کر 5.73 ہوئی یعنی 27.3 فیصد کمی سامنے آئی۔
مزید پڑھیے: چترال میں 2 دنوں کے دوران خودکشی کے 4 واقعات، نو بیاہتا دلہا اور 3 خواتین جان سے گئے
تحقیق میں بتایا گیا کہ یورپ میں خودکشی کی شرح میں کمی کی ایک بڑی وجہ میڈیا کی ذمے دارانہ رپورٹنگ اور نوجوانوں کی سماجی و جذباتی صلاحیتوں کو فروغ دینا ہے۔
برلن میں شماریاتی دفتر کے ماہر ہولگر لیئرہوف کے مطابق بہتر نفسیاتی و سماجی سہولیات، ذہنی صحت سے متعلق بدنامی میں کمی اور خودکشی کی روک تھام کے پروگرام بھی اس کمی میں مؤثر رہے۔
رکاوٹیں اور چیلنجزمحققین کا کہنا ہے کہ مختلف ممالک میں خودکشی کی تعریف اور رپورٹنگ کا طریقہ مختلف ہوتا ہے جو اعداد و شمار پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔ خاص طور پر کم آمدنی والے ممالک میں بدنامی، مذہبی و قانونی رکاوٹوں کی وجہ سے خودکشی کے کیسز اکثر رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔
مطالعے کے مطابق اگر موجودہ رجحانات برقرار رہے تو 2050 تک خودکشی کی شرح مزید کم ہو کر 6.49 فی ایک لاکھ افراد تک پہنچ سکتی ہے۔ تاہم محققین نے خبردار کیا کہ کچھ ممالک اور مخصوص گروہ اب بھی زیادہ خطرے میں رہیں گے اس لیے مؤثر اور عالمی سطح کی حکمت عملیوں کی ضرورت باقی رہے گی۔
ماہرین کی آراشماریات دان ہولگر لیئرہوف نے اس تحقیق کو مضبوط اور پیش گوئی کے ماڈل کو قابلِ اعتبار قرار دیا مگر خبردار کیا کہ طویل المدتی پیش گوئیاں ہمیشہ کچھ حد تک غیر یقینی ہوتی ہیں کیونکہ ان میں وبائیں، معاشی بحران یا دیگر ہنگامی حالات شامل نہیں ہوتے۔
فرائی برگ یونیورسٹی کے ماہر لاسے زانڈر کے مطابق خودکشی کی شرح میں کمی خوش آئند ہے مگر موجودہ اعداد و شمار اب بھی بہت زیادہ ہیں۔ ان کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال تقریباً 7 لاکھ افراد خودکشی کرتے ہیں۔ یہ تعداد ٹریفک حادثات، ایڈز، غیر قانونی منشیات اور پرتشدد واقعات سے ہونے والی اموات سے بھی زیادہ ہے۔
زانڈر نے زور دیا کہ زیادہ تر خودکشی کی کوششیں وقتی یا قابل علاج مسائل کی وجہ سے کی جاتی ہیں، اور ایسے افراد کو پیشہ ورانہ مدد دی جا سکتی ہے۔ مقامی کلینکس، معالجین اور ہیلپ لائنز کے ذریعے مدد حاصل کی جا سکتی ہے، اور والدین، نوجوانوں یا خاندانی مشکلات کا سامنا کرنے والوں کے لیے خصوصی سروسز بھی دستیاب ہیں۔
مزید پڑھیں: غزہ کے محاذ سے لوٹنے والے اسرائیلی فوجی کی خودکشی، فوج میں بحرانی کیفیت
زانڈر کا کہنا ہے کہ اگر آپ کسی شخص کے بارے میں فکرمند ہیں تو اس سے خودکشی کے خیالات کے بارے میں براہ راست بات کریں اور پیشہ ورانہ مدد لینے میں اس کی رہنمائی کریں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
خودکشی خودکشیوں پر تحقیق دنیا میں خودکشیوں کی شرحذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: خودکشیوں پر تحقیق دنیا میں خودکشیوں کی شرح خودکشی کی شرح میں میں خودکشی کی ممالک میں کے مطابق فیصد کمی
پڑھیں:
قدرت سے جڑے ہوئے ممالک میں نیپال نمبر ون، پاکستان فہرست سے خارج
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
برطانوی اخبار دی گارڈین نے ایک نئی عالمی تحقیق کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ دنیا کے وہ ممالک جو فطرت اور قدرت سے سب سے زیادہ قریبی تعلق رکھتے ہیں، ان میں نیپال سرفہرست ہے جب کہ پاکستان اس فہرست میں شامل نہیں۔
یہ تحقیق بین الاقوامی جریدے ایمبیو (AMBIO) میں شائع ہوئی ہے، جس کی تیاری میں برطانیہ اور آسٹریا کے ماہرین نے حصہ لیا ہے۔ اس تحقیق نے دنیا بھر میں انسانی رویوں اور فطرت کے درمیان تعلق کے بارے میں دلچسپ پہلو اجاگر کیے ہیں۔
تحقیق کرنے والی ٹیم میں برطانیہ کی یونیورسٹی آف ڈربی کے معروف ماہر پروفیسر مائلز رچرڈسن شامل تھے، جو قدرت سے وابستگی پر اپنے کام کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ تحقیق اس بات کو سمجھنے کے لیے کی گئی کہ مختلف سماجی، معاشی، ثقافتی اور جغرافیائی پس منظر رکھنے والے لوگ قدرت کے ساتھ کس قدر گہرا ربط محسوس کرتے ہیں اور اس احساس پر روحانیت، مذہب اور طرزِ زندگی کا کتنا اثر ہوتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سروے میں دنیا کے 61 ممالک کے 57 ہزار افراد سے رائے لی گئی۔ نتائج نے حیران کن طور پر یہ ظاہر کیا کہ فطرت سے وابستگی کا سب سے گہرا تعلق مذہبی عقائد اور روحانیت سے ہے، یعنی وہ لوگ جو مذہب یا روحانی نظامِ فکر کے قریب ہیں، وہ قدرت کے ساتھ زیادہ ہم آہنگ زندگی گزارتے ہیں۔
فہرست کے مطابق نیپال کو دنیا کا سب سے زیادہ قدرت سے جڑا ہوا ملک قرار دیا گیا۔ نیپال کے بعد دوسرے نمبر پر ایران ہے، جب کہ جنوبی افریقا، بنگلادیش اور نائیجیریا بالترتیب تیسرے، چوتھے اور پانچویں نمبر پر آئے۔
جنوبی امریکا کا ملک چلی چھٹے نمبر پر رہا۔ سرفہرست 10 ممالک میں یورپ کے صرف 2 ملک شامل ہیں ، کروشیا ساتویں اور بلغاریہ نویں نمبر پر ہے۔ اسی طرح آٹھویں نمبر پر افریقی ملک گھانا اور دسویں پر شمالی افریقا کا ملک تیونس ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مغربی ممالک جنہیں عام طور پر ماحولیاتی آگہی میں نمایاں سمجھا جاتا ہے، وہ قدرت سے وابستگی کے لحاظ سے نچلے درجے پر ہیں۔ فرانس فہرست میں 19ویں نمبر پر ہے، جب کہ برطانیہ 55ویں نمبر پر پایا گیا۔
اسی طرح نیدرلینڈز، کینیڈا، جرمنی، اسرائیل اور جاپان جیسے ترقی یافتہ ممالک بھی آخری نمبروں میں شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 61 ممالک کی فہرست میں اسپین سب سے آخری یعنی 61ویں نمبر پر ہے۔
تحقیق میں ایک اور دلچسپ نکتہ یہ سامنے آیا کہ کاروبار میں آسانی یا معاشی سرگرمیوں کے فروغ سے قدرت سے وابستگی میں کمی آتی ہے۔ یعنی جہاں معاشی نظام زیادہ مضبوط اور مارکیٹ زیادہ متحرک ہوتی ہے، وہاں انسان فطرت سے نسبتاً دور ہوتا جاتا ہے۔
پروفیسر مائلز رچرڈسن کے مطابق صنعتی ترقی اور شہری مصروفیات نے جدید انسان کو قدرتی ماحول سے جدا کر دیا ہے، جس سے اس کے ذہنی سکون، تخلیقی صلاحیت اور مجموعی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ مذہبی یا روحانی رجحان رکھنے والے معاشروں میں لوگ فطرت کو ایک مقدس امانت سمجھتے ہیں، جب کہ مادی معاشروں میں اسے صرف وسائل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یہی فرق ان معاشروں میں قدرت سے تعلق کے معیار کو متعین کرتا ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ تحقیق عالمی پالیسی سازوں کے لیے ایک انتباہ ہے کہ ترقی کی دوڑ میں فطرت سے رشتہ کمزور ہونا انسانی بقا کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ نیپال، ایران اور افریقا کے کچھ ممالک کی مثالیں ظاہر کرتی ہیں کہ سادگی، روحانیت اور قدرت سے قرب نہ صرف ثقافتی طور پر اہم ہیں بلکہ پائیدار طرزِ زندگی کے لیے بھی ناگزیر ہیں۔