Express News:
2025-11-02@20:58:33 GMT

بھارت کی آبی جارحیت

اشاعت کی تاریخ: 29th, August 2025 GMT

وزیراعظم شہباز شریف نے پنجاب کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا۔ فضائی سفر کے دوران چیئرمین این ڈی ایم اے نے وزیراعظم کو بریفنگ دی ۔

شدید بارشوں، بھارتی آبی جارحیت کے نتیجے میں سیلابی ریلوں نے پنجاب میں تباہی مچا دی ہے، درجنوں دیہات راستے، عمارات ڈوب گئی ہیں، لاہور سے سیالکوٹ کے لیے ٹرین سروس بند کردی گئی ہے، مزید پانچ اضلاع میں فوج طلب کر لی گئی۔ دوسری جانب اقوام متحدہ نے پاکستان میں مون سون بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے 6 لاکھ امریکی ڈالر کی ہنگامی امداد جاری کردی۔

 جب بھی پاکستان میں مون سون کی بارشوں کا موسم آتا ہے تو بھارت ہمیشہ کی طرح اپنی منافقانہ دشمن سوچ کے تحت اوپر سے دوستی اور ہمدردی جتاتا ہوا نظر آتا ہے، اندر سے دشمن کی طرح موقع کی تلاش میں کوئی وار خالی نہیں جانے دیتا اور بارشوں کے اس موسم میں وہ اپنے ڈیموں سے اضافی پانی چھوڑ دیتا ہے جس سے دریاؤں میں پانی کی حدِ تناسب خطرناک حد تک بڑھ جاتی ہے جس سے سیلاب کی صورت میں تباہی پھیلتی ہے، شہری اور دیہی علاقے اس لیے متاثر ہوتے ہیں کہ ایک دریا کے ہیڈ میں پانی کے گزرنے کی گنجائش 4.

5لاکھ کیوسک ہے اور اگر اس میں پانی کی حد 9لاکھ یا دس لاکھ کیوسک فٹ آجائے تو پھر اس ہیڈ و دریا کو محفوظ رکھنے کے لیے کم آبادی والے علاقوں میں دریاؤں اور بندوں پر شگاف ڈال دیا جاتا ہے تاکہ پانی کے اخراج اور خطرناک حدِ تناسب کو کم کیا جائے۔

 اس شگاف سے اخراج شدہ پانی اور اُس کی زد میں آنے والے علاقوں، بستیوں اور فصلوں کو شدید نقصان پہنچتا ہے، یہی کچھ اس بار بھی ہوا ہے، گو مون سون موسم میں طوفانی بارشوں بھی ہوئی ہیں لیکن بھارت کے اپنے ڈیموں سے اچانک سیلابی ریلوں کی صورت میں پانی کے اخراج کی وجہ سے جو تباہی پاکستان میں آئی ہے، اس کی مثال شاید ہی دنیا کے کسی حصے میں دیکھنے کو نہ ملے۔ بھارت نے ہمارے حق پر ڈاکہ ڈالنے کی پاداش میں لا تعداد ڈیم قانونی اور غیر قانونی بنا ڈالے، OICاور عالمی اداروں کی خاموشی پاکستان کے لیے خاموش پیغام ہے کہ اپنے وسائل بروئے کار لا کر اس’’ واٹر وار‘‘ کا سامنا کرنا ہوگا۔

پنجاب کے زرخیز میدان، جو برسوں سے اناج، سبزہ، ثقافت اور انسانی ہمدردی کی پہچان رہے ہیں، آج پانی کے ایک بے رحم بہاؤ کی گرفت میں ہیں۔ دریاؤں کی سرزمین اب ایک آفت کی زمین بنتی جا رہی ہے، جہاں قدرت سے بغاوت اور انسانی کوتاہی نے مل کر تباہی کا ایسا باب رقم کیا ہے جو محض وقتی حادثہ نہیں بلکہ ایک دیرپا انتباہ ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان 1960 کا سندھ طاس معاہدہ اسی نظم و ضبط کے لیے طے پایا تھا تاکہ دونوں ممالک قدرتی وسائل کو امن، ترقی، اور بقا کے لیے استعمال کریں، مگر جب بھارت نے یکطرفہ طور پر اس معاہدے کو معطل کیا اور معلومات کی فراہمی بند کی، تو درحقیقت یہ صرف قانونی یا سفارتی مسئلہ نہیں رہا، بلکہ انسانی بحران بن گیا۔ جب اطلاعات بروقت نہیں ملتیں، جب پانی اچانک کھولا جاتا ہے، اور جب ہزاروں لوگ خطرے میں پڑتے ہیں، تو اس کا تعلق صرف دو ممالک کے بیچ سیاسی تعلقات سے نہیں رہتا، بلکہ یہ ایک انسانی فریضے کی ناکامی بن جاتا ہے۔ بھارت کی یہ روش، چاہے کسی بھی سیکیورٹی واقعے کا ردعمل ہو، بین الاقوامی معیارات کی خلاف ورزی ہے اور اس کے نتائج انسانی جانوں کی صورت میں ادا کیے جا رہے ہیں۔

 بدقسمتی سے، ان حالات میں متاثرہ افراد کے لیے ریاستی امداد محدود ہوتی ہے۔ لاکھوں لوگ جنھیں اپنا سب کچھ چھوڑ کر عارضی کیمپوں میں پناہ لینی پڑتی ہے، ان کے لیے صرف خیمے، خشک راشن، اور ابتدائی طبی امداد کافی نہیں۔ ان کا نقصان صرف مادی نہیں بلکہ نفسیاتی، معاشی اور سماجی بھی ہوتا ہے۔ بچے تعلیم سے محروم ہو جاتے ہیں، خواتین بنیادی صحت کی سہولیات سے محروم رہتی ہیں، اور کسان اپنی ساری فصلیں اور مویشی کھو کر قرضوں تلے دب جاتے ہیں۔

ان کی زندگی برسوں پیچھے چلی جاتی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ روکا جا سکتا تھا؟ اگر دونوں ممالک میں مؤثر مواصلاتی نظام ہوتا، اگر بھارت پانی چھوڑنے سے پہلے بروقت اطلاع دیتا، اگر پاکستان میں قبل از وقت انخلا کے بہتر انتظامات ہوتے، اگر خطے میں موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے باہمی لائحہ عمل ہوتا، تو شاید اتنی تباہی نہ آتی۔ بدقسمتی سے، برصغیر کا جغرافیہ مشترک ہے، مگر سوچیں بٹی ہوئی ہیں۔

یہ مسئلہ اب صرف آبی انتظام یا ڈیزاسٹر مینجمنٹ کا نہیں رہا، یہ ایک مکمل قومی سلامتی کا مسئلہ ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی ایک خاموش جنگ ہے، جو نہ صرف زمین کو متاثر کر رہی ہے بلکہ خارجہ پالیسی، معاشی ترقی، خوراک کی حفاظت، اور انسانی وقار کو بھی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ اس کا مقابلہ صرف گولی یا اقوامِ متحدہ کی قراردادوں سے نہیں کیا جا سکتا، بلکہ اس کے لیے شفافیت، تحقیق، بین الاقوامی تعاون، اور طویل المدتی منصوبہ بندی درکار ہے۔ہماری بدقسمتی ہے کہ کالاباغ ڈیم کا منصوبہ بھی تاحال کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکا، مختلف سیاسی، لسانی، سماجی علاقائی اختلافات کی زد میں آکر یہ منصوبہ تعطل کا شکار ہے۔

درحقیقت بڑھتی ہوئی انسانی آبادی دنیا میں سارے مسائل کی جڑ ہے۔ انسان قدرتی ماحول میں تبدیلیاں لانے والے عناصر میں سرفہرست ہے اور وہ کرہ ارض کو اپنی ضروریات و خواہشات کے مطابق ڈھالنے کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتا ہے۔ جنگل کاٹے جاتے ہیں۔ کھیتی باڑی کے لیے سطح زمین ہموار کی جاتی ہے۔

شہر اور گاؤں بسائے جاتے ہیں۔ سڑکوں کے جال بچھتے ہیں۔ ضروریات زندگی کے حصول کی خاطر کارخانے لگائے جاتے ہیں۔ سفری سہولیات کے لیے مختلف قسم کی گاڑیاں اور جہاز استعمال ہوتے ہیں یعنی حضرت انسان ہما وقت کسی نہ کسی طرح سے نظام قدرت کے ساتھ نبرد آزما رہتا ہے یوں ان مذکورہ عوامل کی انجام دہی کے زیر اثر کرہ ارض کا درجہ حرارت وقت کے ساتھ ساتھ بڑھ رہا ہے۔ بطور ردعمل کاربن کے اخراج کی وجہ سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

پاکستان میں سیلابوں کی وجہ سے پیش آنے والی موجودہ غیر معمولی اور تباہ کن صورتحال کافی حد تک ہماری اپنی نااہلیوں کی پیدا کردہ ہے جس میں ڈیموں کی تعمیر کے سلسلے میں مجرمانہ کوتاہی، دریائی گزرگاہوں پر تعمیر شدہ ناجائز تجاوزات،ناقص حکمت عملی کے تحت پلوں کی تعمیر،آبی معاملات کے سلسلے میں انجینئر طبقے کی غفلت، دریاؤں سے متعلق مجوزہ قوانین کے ساتھ کھلواڑ، بے تحاشا کرپشن، احتیاطی تدابیر پر عمل نہ ہونا اور حکومتی سطح پر ہمارے سیاسی لیڈروں کی نااہلی اور ناعاقبت اندیشی شامل ہے۔

 دراصل دریائی گزرگاہوں پر تجاوزات کی وجہ سے پانی کے بہاؤ میں رکاوٹیں پیدا ہونا سیلابی صورتحال کو جنم دیتا ہے۔ ہمارے ہاں دریاؤں کی حفاظت سے متعلق قوانین موجود ہوتے ہوئے اکثر دریاؤں کے کنارے اور بعض اوقات دریاؤں کے اندر بہاؤ والے علاقوں میں ہوٹل، رہائش گاہیں، جانوروں کے باڑے وغیرہ بنائے جاتے ہیں جس بنا پر رستہ تنگ ہونے سے پانی کی روانی میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے اور دریاؤں میں سے گزرنے والے پانی کی گہرائی بڑھ جاتی ہے، یوں زیادہ مقدار میں اکٹھا ہونے سے سیلابی صورت اختیار کرتا ہوا یہ پانی ہوٹل، رہائش گاہیں اور دوسرے اسٹرکچر کو بہا لے جاتا ہے۔

دریاؤں کے اوپر ایسی تجاوزات زیادہ تر آزاد کشمیر، بلتستان اور صوبہ سرحد کے پہاڑی علاقوں میں دیکھنے کو ملتی ہیں جس سے سیلابی صورتحال میں شدت آنے کے ساتھ مالی اور جانی نقصان ہونے کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے، غیر معمولی بارشوں کی صورت میں یہ رکاوٹیں سیلابی صورت حال میں شدت لانے کا باعث بنتی ہیں۔ پانی دریا کے دونوں اطراف موجود وسیع و عریض علاقے میں پھیلتے ہوئے اسے بری طرح متاثر کرتا ہے۔

سیلاب آنے کی صورت میں دریاؤں کی یہ گزر گاہیں پانی کو تقسیم کرتے ہوئے ان کے بہاؤ میں کمی لانے کا باعث بنتی ہیں، لیکن اگر ان پرانی گزرگاہوں پر کھیتی باڑی اور آبادکاری کی وجہ سے رکاوٹیں پیدا ہو جائیں تو پھر یہ بھی سیلاب کی شدت کو بڑھانے میں کردار ادا کرتے ہوئے زیادہ تباہی کا سبب بنتی ہیں۔ اس لیے بہت ضروری ہے کہ حکومتی سطح پر سیلابوں سے متعلق حفاظتی انتظامات کرتے ہوئے ان علاقوں میں آباد کاری اور کاشتکاری کو روکا جائے تاکہ سیلاب کے دنوں میں یہ پرانی دریائی گزرگاہیں سیلابی پانی کو تقسیم کرتے ہوئے اس کی شدت میں کمی لا کر علاقے کو محفوظ بنا سکیں۔ عام خیال ہے کہ پاکستان کے اکثر شہری علاقوں میں سیم نالوں کی ناقص صفائی اور کچھ کے بالکل بند ہوجانے کی وجہ سے سیلابوں نے بڑے علاقوں میں پھیل کر زیادہ تباہی مچائی ہے۔ اگر سیم نالوں کا نظام درست ہوتا تو سیلابی پانی کے اس طرح بڑے علاقے میں پھیلنے کا احتمال بہت کم تھا۔

خطے میں امن کے لیے ضروری ہے کہ بھارت پانی کو بطور ہتھیار نہیں بلکہ بطور وسیلہ امن کے طور پر دیکھے۔ یہ وقت محض الزام تراشی کا نہیں بلکہ شفاف مذاکرات، ہنگامی ردعمل، اور مستقبل کی منصوبہ بندی کا ہے۔ جس طرح یورپ نے مشترکہ دریاؤں پر تعاون کے ماڈل تیار کیے، ویسے ہی جنوبی ایشیا کو بھی اپنے وسائل کا اشتراک کرنا سیکھنا ہوگا، کیونکہ اگر قدرت نے ہمیں ایک جیسا موسم، ایک جیسا دریا، اور ایک جیسا درد دیا ہے، تو شفا بھی ہم سب کو مل کر ہی تلاش کرنی ہوگی۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان میں سیلابی صورت کی صورت میں علاقوں میں نہیں بلکہ کرتے ہوئے کی وجہ سے میں پانی جاتے ہیں سے سیلاب پانی کی جاتی ہے پانی کے کے ساتھ جاتا ہے ہے اور

پڑھیں:

بلوچستان میں12 ضلعے بارش کو ترس گئے، آئندہ کیا ہو گا؛ مفصل رپورٹ

سٹی42: کلائمیٹ کی غیر متوقع کروٹ کے بعد بلوچستان کے 12 اضلاع میں خشک سالی کی شدت بڑھنے کا امکان بتایا جا رہا ہے۔

 میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ نےصوبائی حکومت کو  شدید خشک سالی کے متعلق  انتباہ کر دیا ہے۔

محکمہ موسمیات نے مشورہ دیا ہے کہ خشک سالی سے متاثر ہو رہے  علاقوں میں "پیشگی اقدامات" یقینی بنائے جائیں۔ یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ میٹ ڈیپارٹمنٹ کی پہلے والی رپورٹوں کے مطابق بلوچستان کے کئی علاقوں میں خشک سالی عروج پر پہنچی ہوئی ہے۔ ان علاقوں میں اب کوئی "پیشگی" اقدام کرنے کا مشورہ عملاً بے معنی مشورہ ہے۔

بھارتی نژاد دنیا کی معروف کمپنی کو اربوں کا چونا لگا کر فرار

زراعت، مویشیوں اور عوامی روزگار پرخصوصی توجہ دی جائے۔

 بلوچستان بنیادی طور پر خشک اور نیم خشک خطہ ہے۔   صوبے کے جنوبی اور جنوب مغربی علاقے حالیہ خشک سالی سے خاص طور پر زیادہ متاثرہیں۔ جنوبی اورجنوب مغربی علاقے میں زمین میں نمی کا انحصار سردیوں کی بارشوں پر رہتا ہے۔  بلوچستان کے ان جنوبی اور جنوب مغربی علاقوں میں ہر سال اوسط  بارش 71 سے 231 ملی میٹر کے درمیان ہوتی ہے۔

پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان فیصلہ کن ٹی ٹونٹی میچ آج ہوگا  

میٹ ڈیپارٹمنٹ کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ مئی سے اکتوبر 2025 کے دوران بلوچستان کے جنوبی اور جنوب مغربی علاقوں میں معمول سے 79 فیصد کم بارش ہوئی۔

نومبرسے جنوری 2026 کے دوران بھی ان علاقوں میں بارش معمول سے کم اور درجہ حرارت معمول سے زیادہ رہنے کا امکان ہے۔  یہ صورتحال طویل خشک موسم کی نشاندہی کرتی ہے۔

 چاغی، گوادر، کیچ، خاران، مستونگ، نوشکی، پشین، پنجگور، قلعہ عبداللہ، کوئٹہ اور واشک  کے ضلعے خشک سالی سے زیادہ متاثر ہیں۔

نئے بھرتی کنٹریکٹ ملازمین کو ریگولر ہونے پر بھی پنشن نہیں ملے گی

موجودہ حالات سے زرعی علاقوں میں  بھی پانی کی کمی پیدا ہو سکتی ہے۔

ربیع  کے کاشت کے موسم کے دوران  آبپاشی کے محدود وسائل شدید دباؤ میں آ سکتے ہیں۔

Waseem Azmet

متعلقہ مضامین

  • غزہ میں ہمارے زیرِ قبضہ علاقوں میں حماس اب بھی موجود ہے: نیتن یاہو
  • سندھ طاس معاہدے کی معطلی سے پاکستان میں پانی کی شدید قلت کا خطرہ، بین الاقوامی رپورٹ میں انکشاف
  • شہرکے مختلف علاقوں میں پانی کی قلت کے باعث شہری دورسے پانی بھربے پرمجبورہے
  • بلوچستان میں12 ضلعے بارش کو ترس گئے، آئندہ کیا ہو گا؛ مفصل رپورٹ
  • دشمن کو رعایت دینے سے اسکی جارحیت کو روکا نہیں جا سکتا، حزب اللہ لبنان
  • پنجاب کے وسطی علاقوں میں فضائی آلودگی خطرناک حد تک بڑھ گئی
  • افغانستان سے دراندازی بندہونی چاہیے،وزیردفاع۔بیرونی جارحیت کا جواب سخت اور شدید ہوگا، پاک فوج
  • امریکی دھمکیوں اور اسرائیلی جارحیت کی حمایت سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، شیخ نعیم قاسم
  • امریکی دھمکیوں اور اسرائیلی جارحیت کی حمایت سے کچھ بدلے گا نہیں ہوگا، شیخ نعیم قاسم
  • اسرائیل کی جارحیت کا اصل حامی امریکہ ہے، شیخ نعیم قاسم