سیلاب کے پنجاب سے گزر کر سندھ میں داخل ہونے پر کیا ہوگا؟
اشاعت کی تاریخ: 29th, August 2025 GMT
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں لیکن یہ پانی ممکنہ طور پر 2 ستمبر کو سندھ میں داخل ہو جائے گا، پنجاب کی صورت حال دیکھ کر سندھ میں پریشانی پائی جاتی ہے کیوں کہ 2010 کا سیلاب ہو یا 2022 کا، اس نے نہ صرف سندھ میں تباہی مچائی تھی بلکہ اس کے متاثرین کی مکمل بحالی اب تک نہیں ہو پائی۔
ممکنہ سیلاب کے پیش نظر سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ایک بار پھر 2010 اور 2022 والی صورتحال پیدا ہوجائے گی یا پھر صورت حال اس سے بہتر یا بدتر ہوگی، سندھ میں سیلابی صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ماہرین حفاظتی انتظامات کو دیکھ کر اور سیلاب کا دریاؤں کے راستے سفر کرنے پر مطمئن دکھائی دے رہے ہیں لیکن پھر بھی اگر کوئی بند ٹوٹ جاتا ہے یا پانی دریا سے نکل کر زمین کا رخ کرتا ہے تو کیا اقدامات اٹھائے گئے ہیں؟
جیوگرافک انفارمیشن سسٹم اسپیشلسٹ عائشہ عزیز کا کہنا ہے کہ ہمارا کام سیلاب یا قدرتی آفات پر نظر رکھنا ہوتا ہے، اگر ہمیں کسی علاقے کے بارے میں سگنلز ملیں تو ہم اس علاقے میں فوری اقدامات اٹھاتے ہیں تا کہ نقصانات کم سے کم ہوں اس سارے معاملے میں دیگر ادارے حکومت کی سرپرستی میں آن بورڈ ہوتے ہیں۔
عائشہ عزیز کے مطابق اس وقت سندھ میں بارش کے امکانات نظر نہیں آرہے ہیں لیکن پنجاب میں بارشیں ہیں، بارشوں کی شدت اتنی نہیں لیکن سیلاب کی شدت زیادہ ہے ان کا کہنا ہے کہ 2 ستمبر تک یہ سیلاب گڈو بیراج تک پہنچ جائے گا جس کی ہم مکمل مانیٹرنگ کر رہے ہیں گڈو بیراج پر جب یہ سیلاب پہنچے گا اس سے ہم اندازہ لگا پائیں گے کہ اس سیلاب کی سندھ میں کیا شدت ہوگی۔
عائشہ عزیز کے مطابق اس وقت بھارت پر بارش کے بادل ہیں جس کی وجہ سے وہاں سیلابی صورت حال ہے اور وہی پانی وہاں سے پاکستان کے پنجاب میں داخل ہو رہا ہے۔
عائشہ عزیز کے مطابق اگر ہمیں سکرین پر کوئی ڈیویلپمنٹ نظر آتی ہے تو سب سے پہلے ہم مختلف چینلز استعمال کرتے ہیں جیسے کہ پی ٹی اے سے رابطہ کیا جاتا ہے جو ایس ایم ایس کے ذریعے متعلقہ علاقوں میں پیغامات پہنچا دیتا ہے، دوسرا ہم ڈسٹرک انتظامیہ سے رابطہ کرتے ہیں جو مساجد میں اعلانات کراتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اہم شاہراہیں چوں کہ سطح زمین سے بلند ہوتی ہیں تو وہاں پانی یا تو ہوتا نہیں اگر ہوتا بھی ہے تو اتنا ہوتا ہے جس سے گاڑی گزر سکے یہاں تک کہ 2010 کے سیلاب میں شہریوں نے شاہراہوں پر ہی پناہ لی تھی کیوں اس وقت زمین پانی کی لپیٹ میں تھی اور خشک جگہ صرف سڑکوں پر ملی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سیلاب کا راستہ دریا ہے اور دریائی گزرگاہوں میں 12 لاکھ کیوسک پانی گزارنے کی گنجائش موجود ہے جو اس سیلابی پانی سے کئی زیادہ ہے، 2022 میں ہم نے دیکھا تھا کہ بلوچستان میں ہونے والی شدید بارشوں نے سندھ کو اپنے لپیٹ میں لے کیا تھا لیکن ایسا اس بار نظر نہیں آرہا۔ اس وقت امکان یہی ہے کہ سیلابی ریلا دریاؤں سے ہوتا ہو سمندر میں داخل ہو جائے گا کیوں کہ بند مضبوط بھی ہیں اور اونچے بھی کردیے گئے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اربن فلڈنگ بارش پانی سندھ سیلاب.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اربن فلڈنگ پانی سیلاب میں داخل ہو صورت حال ہیں لیکن کا کہنا
پڑھیں:
سیاسی بیروزگاری کا رونا رونے کیلئے پی ٹی آئی ہی کافی تھی، پیپلزپارٹی کو شامل ہونے کی ضرورت نہیں تھی
لاہور ( اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 16 ستمبر 2025ء ) وزیر اطلاعات و ثقافت پنجاب عظمیٰ بخاری نے کہا ہےکہ سندھ میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، اس کے باوجود پیپلز پارٹی وفاق کو بیرون ممالک امداد مانگنے پر فورس کر رہی ہیں۔ عظمیٰ بخاری نے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی پریس کانفرنس کو غیر سنجیدہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سیاسی بیروزگاری کا رونا رونے کے لیے پی ٹی آئی ہی کافی تھی، پیپلز پارٹی کو اس بیانیے میں شامل ہونے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔عظمیٰ بخاری نے کہا کہ پنجاب اس وقت ملکی تاریخ کے سب سے بڑے سیلاب کا سامنا کر رہا ہے، وزیر اعلیٰ مریم نواز اور پنجاب کی انتظامیہ دن رات سیلاب متاثرین کی بحالی اور ریلیف میں مصروف ہیں۔ الحمدللہ پنجاب حکومت اپنے وسائل سے متاثرین کی ہر ممکن مدد فراہم کر رہی ہے اور وفاق یا کسی دوسری تنظیم سے کسی قسم کی امداد کی طرف نہیں دیکھا۔(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ مریم نواز نے تمام وسائل اور حکومتی مشینری کا رخ متاثرہ علاقوں کی طرف موڑ دیا ہے۔
اس وقت ہمارا فوکس صرف عوامی خدمت ہے، اسی لیے ہم سیاسی تلخیوں کو اتحادی سمجھ کر برداشت کر رہے ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ پیپلز پارٹی کے جعلی فلسفے اور ناکام تھیوریاں سنیں۔وزیر اطلاعات پنجاب نے کہا کہ منظور چوہدری اور حسن مرتضیٰ اپنے دکھ اور فلسفے بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ کو سنائیں۔ سندھ میں سیلاب سے کوئی بڑا جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا، اس کے باوجود پیپلز پارٹی وفاق کو بیرون ملک امداد لینے پر مجبور کر رہی ہے جو غیر سنجیدہ رویہ ہے۔عظمیٰ بخاری نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور اس کے ہارے ہوئے رہنماؤں کو پہلے سندھ کے عوام کے مسائل کی فکر کرنی چاہیے، جہاں 2022 کے سیلاب متاثرین آج تک امداد کے منتظر ہیں۔