کیا مشرقی پاکستان کا احیا ممکن ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 31st, August 2025 GMT
آج سے صرف دو سال قبل بنگلہ دیش کی سرزمین پاکستانیوں کے لیے خطہ ممنوعہ بنی ہوئی تھی۔ بنگلہ دیش کے پاکستان سے ہر قسم کے تعلقات منقطع تھے۔ حسینہ واجد کو پاکستان سے اس قدر نفرت تھی کہ وہ دشمن نمبر ایک خیال کرتی تھی۔ یہ نفرت دراصل وہ زہر آلود آر ایس ایس کے بطن سے پیدا شدہ مسلم دشمنی میں ڈوبی ہوئی، بی جے پی حکومت کے حکم کی تعمیل میں کر رہی تھی مگر وہ خود بھی پاکستان اور پاکستانیوں سے نفرت میں انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔
اس کی حکومت کی اندرونی اور بیرونی پالیسیاں سرا سر پاکستان کے خلاف تھیں، کوئی علاقائی یا عالمی ایونٹ ہو ڈھاکہ سے پاکستان کی مخالفت اور بھارت کی موافقت میں بیان بازی کی جاتی تھی حتیٰ کہ حسینہ مسلہ کشمیر کو بھی بھارتی نقطہ نظر سے دیکھتی اور کشمیر کو بھارت کا اندرونی مسئلہ قرار دیتی تھی۔
حسینہ اور اس کی پارٹی عوامی لیگ پاکستان سے دشمنی میں جیسے جیسے ہر حد پار کر رہی تھی، بنگلہ دیشی عوام میں پاکستان اور پاکستانیوں سے ویسے ویسے محبت میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جا رہا تھا، اس لیے کہ وہ بنگلہ دیش کے قیام کو بھارت اور مجیب کی سازش کا شاہکار سمجھتے تھے اور جس کے وہ چشم دید گواہ بھی تھے۔
وہ جانتے تھے کہ بھارتی حکمران 1947 میں تو اپنے اکھنڈ بھارت کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے مگر 1971 میں مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنا کر مغربی حصے کو بھی توڑنے میں لگے ہوئے تھے تاکہ وہ اب اپنے پرانے مذموم منصوبے کو پایہ تکمیل کو پہنچا کر پورے برصغیر پر قابض ہو سکیں۔ بنگالی مسلمانوں نے بھارتی حکمرانوں کے اس خواب کو نہ صرف چکنا چور کر دیا بلکہ بنگلہ دیش میں قائم ان کی پٹھو حسینہ کی حکومت کو ہی اکھاڑ پھینکا۔
اب اس وقت وہاں عوامی امنگوں کے مطابق پاکستان نواز عبوری حکومت قائم ہے اور اگلے سال فروری میں عام انتخابات منعقد ہونے والے ہیں جن میں عوام اپنے نئے حکمرانوں کا انتخاب عمل میں لائیں گے۔ ویسے اس وقت کی حکومت کی پاکستان سے دوستی اس کی اولین ترجیح معلوم ہوتی ہے اور پاکستان سے تعلقات کو بحال کرنا اس کا اہم ہدف معلوم ہوتا ہے۔ اس وقت بنگلہ دیش میں پاکستانی سرکاری اور غیر سرکاری وفود کا جس والہانہ محبت سے استقبال کیا جا رہا ہے وہ قابل دید واقعہ ہے۔
قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں ایک ساتھ انگریزوں کی غلامی سے آزادی حاصل کرنے والے مشرقی پاکستان کو کیونکر علیحدگی کا کڑوا گھونٹ پینا پڑا۔ پاکستان بنانے میں بنگالی مسلمان پیش پیش تھے۔ قیام پاکستان کا فیصلہ 1947 سے 41 سال قبل یعنی 1906 میں مسلم لیگ کے ڈھاکہ میں قیام کے وقت ہی لے لیا گیا تھا۔
بنگالی مسلمان قیام پاکستان کی جدوجہد میں قائد اعظم محمد علی جناح کی رہنمائی میں پیش پیش رہے۔ بالآخر پاکستان کا قیام بنگالی مسلمانوں کی بہت بڑی کامیابی تھی۔ یہ قائد اعظم کی رہنمائی کا کمال تھا کہ جہاں مغربی خطے میں پاکستان بنا وہاں مسلم اکثریتی بنگال کے علاقے میں پاکستان کا مشرقی حصہ عالم وجود میں آگیا۔
بنگالی مسلمان آزاد تو ہو گئے مگر انتہا پسند ہندو اسے ناکام بنانے کے لیے سرگرم ہو گئے۔ بدقسمتی سے مشرقی پاکستان میں سیاسی کشمکش بہت زیادہ رہی اور شیخ مجیب الرحمن نے وہاں کے عوام کی محرومی کے نام پر علیحدگی کا پرچار شروع کردیا گوکہ 1971 کے عام انتخابات میں اس کی پارٹی جیت چکی تھی مگر پھر بھی علیحدگی کا پرچار جاری رکھا اور اسلام آباد کو مرکز ماننے سے انکارکر دیا پھر مشرقی پاکستان میں انارکی پھیلا دی۔
ادھر بھارت نے مکتی باہنی کے نام سے اپنے فوجیوں پر مشتمل نقلی بنگالی فورس تیار کی جس نے وہاں بنگالیوں کا قتل عام شروع کر دیا تاکہ بنگالیوں میں مغربی پاکستان سے نفرت پیدا کی جائے۔ حالات کی اس سنگینی سے فائدہ اٹھا کر بھارت نے باقاعدہ حملہ کر دیا اور پھر سقوط مشرقی پاکستان کا المیہ رونما ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی وہاں شیخ مجیب کی سرکردگی میں حکومت قائم کر دی گئی اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔
شیخ مجیب کے قتل کے بعد چند سال فوجی حکومتیں قائم رہیں پھر مجیب کی بیٹی حسینہ کی حکومت قائم ہو گئی جوکہ کہنے کو جمہوری تھی مگر وہ بھارت کی مدد سے قائم ہوئی تھی اور اسی کی مدد سے چلتی رہی۔ حسینہ پندرہ سال تک حکومت کرکے ایک ڈکٹیٹر بن چکی تھی اسے عوامی مشکلات اور جذبات سے کوئی سروکار نہیں تھا وہ تو بنگلہ دیش کو بھارت کی 29 ویں ریاست کی وزیراعلیٰ کے طور پر چلا رہی تھی مگر عوام اس تماشے کو مزید برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تھے اور بالآخر پچھلے سال اگست میں بنگالی نوجوانوں نے اس کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا اور اس کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔
اب اس وقت بنگلہ دیشیوں کی پاکستان سے محبت کا یہ عالم ہے کہ وہاں 14 اگست کو شان و شوکت سے یوم آزادی منایا گیا، اس سے قبل بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کا یوم ولادت اور وفات پر پرتپاک تقریبات منعقد ہو چکی ہیں۔ وہاں پاکستانی مصنوعات کھلے عام فروخت ہو رہی ہیں۔
اس وقت ڈھاکہ میں پاکستانی مصنوعات کی نمائش جاری ہے جہاں روز ہی میلے کا سماں ہوتا ہے پاکستانی مصنوعات کو لوگ سوغات کے طور پر خرید رہے ہیں۔ حال ہی میں نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کئی وزرا پر مشتمل ایک وفد کے ہمراہ ڈھاکہ کا دورہ کر چکے ہیں جہاں ان کا والہانہ استقبال ہوا ہے اور کئی سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں نے ملاقاتیں کی ہیں۔
اب لگتا ہے یہ تعلقات دن بہ دن بڑھتے ہی جائیں گے مگر ان میں بھارت کی جانب سے شب خون مارنے کا خدشہ ابھی موجود ہے۔ تاہم بنگالی مسلمان اب پاکستان کا دامن مضبوطی سے پکڑ چکے ہیں اور چین بھی پاک بنگلہ تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 1971 میں بنگالیوں کے قتل عام پر معافی کا معاملہ اور اثاثوں کی تقسیم کا مسئلہ اس دوستی میں رکاوٹ نہیں بن پائیں گے، اگر تعلقات اسی طرح آگے بڑھتے رہے تو آگے جا کر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دونوں بازو پھر ایک جسم کی شکل اختیار کر لیں اور پہلے کی طرح ایک ہو جائیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بنگالی مسلمان مشرقی پاکستان میں پاکستان پاکستان سے پاکستان کا بنگلہ دیش بھارت کی کی حکومت تھی مگر کر دیا اور اس
پڑھیں:
بنگلہ دیش میں عام انتخابات کے دوران سیکیورٹی انتظامات کی، ایک لاکھ کے قریب اہلکار تعینات ہوں گے
بنگلہ دیش کی نگران حکومت کے چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس نے 13ویں قومی پارلیمانی انتخابات کے لیے سیکیورٹی پلان کو حتمی شکل دینے کے سلسلے میں تینوں مسلح افواج کے سربراہان کو ہدایت جاری کی ہے، انتخابات فروری 2026 کے پہلے نصف میں متوقع ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: یورپی یونین کا بنگلہ دیش میں عام انتخابات کے لیے بڑی مبصر ٹیم بھیجنے کا اعلان
یہ اہم اجلاس ہفتہ کی شام اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس جمنہ میں منعقد ہوا، جس میں آرمی چیف جنرل وکری الزمان، نیوی چیف ایڈمرل محمد نذمول حسن اور ائیر فورس چیف ائیر چیف مارشل حسن محمود خان نے شرکت کی، جبکہ نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر ڈاکٹر خلیل الرحمن بھی موجود تھے۔
چیف ایڈوائزر نے گزشتہ 15 ماہ کے دوران امن و امان برقرار رکھنے میں مسلح افواج کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ عبوری حکومت پرامن، غیر جانبدار اور شفاف انتخابات یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش میں عام انتخابات فروری 2026 میں ہوں گے، محمد یونس کا اعلان
اجلاس کے دوران سروس چیفس نے انتخابی سیکیورٹی پلان پر بریفنگ دی، بریفنگ میں بتایا گیا کہ ملک بھر میں سیکیورٹی کے لیے 90 ہزار فوجی، 2 ہزار 500 نیوی اہلکار اور 1 ہزار 500 ائیر فورس اہلکار تعینات کیے جائیں گے، جبکہ ہر اپازلا میں ایک آرمی کمپنی ذمہ داری سنبھالے گی۔
مسلح افواج کے سربراہوں نے چیف ایڈوائزر کو 21 نومبر کو ہونے والی آرمڈ فورسز ڈے کی تقریب میں شرکت کی دعوت بھی دی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news انتخابات بنگلہ دیش چیف ایڈوائزر سیکیورٹی