پاکستان کے صوبہ پنجاب سے سیلاب کا پانی تیزی سے صوبہ سندھ کی جانب بڑھ رہا ہے۔ کون سے دریا کی اس وقت کیا صورت حال ہے اور کس مقام پر سب سے زیادہ پانی کون سے سال گزرا تھا، پانی کی پیمائش کیوسک میں کی گئی ہے جبکہ ایک کیوسک میں 28 لیٹر سے کچھ زیادہ پانی ہوتا ہے۔ اس وقت پاکستان میں موجود 6 دریاؤں، دریائے سندھ، کابل، جہلم، چناب، راوی اور ستلج دریاؤں کے 5 مقامات پر انتہائی نچلے درجے کا سیلاب ہے، 4 مقامات پر نچلے درجے کا، 7 مقامات پر نچلے یا درمیانے درجے کا سیلاب ہے، دو مقامات پر اونچے جبکہ 3 مقامات پر انتہائی اونچے درجے کا سیلاب ریکارڈ کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سیلابی تباہ کاریوں کے باعث شرح نمو صفر کے قریب گرنے کا خدشہ، سابق وزیر خزانہ نے خبردار کردیا

پروونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے شعبہ ری ہیبیلیٹیشن کے مطابق پاکستان کے 6 دریاؤں پر قائم مختلف مقامات ہیں جہاں پانی کا بہاؤ ریکارڈ کیا جاتا ہے۔ بات کی جائے انڈس کی تو اس پر قائم ہیں تربیلا ڈیم، کالا باغ، چشمہ، تونسہ، گڈو، سکھر اور کوٹری۔ تربیلا ڈیم میں اس وقت اسٹوریج مکمل ہو چکی ہے، مطلب مزید پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ اس کی ڈیزائن کیپیسٹی 15 لاکھ کیوسک پانی کی ہے۔ پی ڈی ایم اے سندھ کے مطابق 2010 میں تربیلا ڈیم میں ریکارڈ 8 لاکھ 32 ہزار کیوسک پانی آیا جبکہ 2025 میں ابتک 4 لاکھ 60 ہزار کیوسک پانی آچکا ہے۔

کالا باغ کی بات کی جائے تو اس کی گنجائش 9 لاکھ 50 ہزار کیوسک کی ہے۔ 1942 میں یہاں سے 9 لاکھ 50 ہزار کیوسک سیلابی پانی کو ریکارڈ کیا گیا جبکہ اس سال ابتک 4 لاکھ 72 ہزار کیوسک پانی ریکارڈ کیا گیا۔ چشمہ بیراج کی گنجائش 9 لاکھ 50 ہزار کیوسک کی ہے۔ سال 2010 میں 10 لاکھ 39 ہزار کیوسک پانی دیکھ چکا ہے جبکہ سال 2025 میں ابتک یہاں سے 5 لاکھ 12 ہزار کیوسک پانی آچکا ہے۔

تونسہ کی گنجائش 10 لاکھ کیوسک کی ہے۔ سال 2010 میں 9 لاکھ 60 ہزار کیوسک پانی داخل ہوا جبکہ اس سال ابتک 5 لاکھ 1 ہزار کیوسک پانی ریکارڈ کیا گیا ہے۔ گڈو بیراج کی گنجائش 12 لاکھ کیوسک کی ہے۔ 1976 میں یہاں 12 لاکھ کیوسک پانی داخل ہوا تھا جبکہ اس سال ابتک 5 لاکھ 47 ہزار کیوسک پانی ریکارڈ کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کے ہیڈ کوچ مائیک ہیسن نے سہ ملکی سیریز میں فتوحات سیلاب متاثرین کے نام کردیں

سکھر بیراج کی بات کی جائے تو اس کی گنجائش 9 لاکھ کیوسک پانی کی ہے۔ سال 1986 میں یہاں پر 11 لاکھ 66 ہزار کیوسک پانی کا سیلاب ریکارڈ کیا گیا جبکہ سال 2025 میں ابتک یہاں 8 لاکھ 81 ہزار کیوسک پانی ریکارڈ کیا گیا ہے۔ کوٹری بیراج کی گنجائش 8 لاکھ 75 ہزار کیوسک کی ہے۔ سال 1956 میں 9 لاکھ 80 ہزار کیوسک پانی گزرنے کا ریکارڈ بنایا جبکہ اس سال ابتک 2 لاکھ 73 ہزار کیوسک پانی ریکارڈ کیا گیا ہے۔ یہ وہ مقامات ہیں جنہوں نے دو روز بعد سیلاب کو سہنا ہے۔

دریائے کابل کی اگر بات کی جائے تو نوشہرہ کے مقام پر اس نے سال 1990 میں 3 لاکھ 91 ہزار کیوسک پانی کو گزرنے کا ریکارڈ بنایا جبکہ اس سال ابتک یہاں سے 1 لاکھ 9 ہزار کیوسک پانی گزر چکا ہے۔

دریائے جہلم پر واقع منگلا ڈیم کی گنجائش 10 لاکھ 60 ہزار کیوسک ہے۔ سال 1992 میں ریکارڈ 10 لاکھ 90 ہزار کیوسک پانی ریکارڈ کیا گیا۔ دریائے جہلم پر ہی واقع رسول 8 لاکھ 50 ہزار کیوسک کی گنجائش رکھتا ہے۔ سال 1992 میں 9 لاکھ 52 ہزار کیوسک پانی کو گزرتے دیکھا جبکہ اس سال ابتک 1 لاکھ 36 ہزار کیوسک پانی گزر چکا ہے۔

بات کرتے ہیں دریائے چناب کی جہاں مرالہ کی گنجائش 11 لاکھ کیوسک پانی کی ہے۔ یہاں سے سال 1957 میں سب سے زیادہ 11 لاکھ کیوسک پانی گزر چکا ہے جبکہ اس سال ابتک یہاں سے 9 لاکھ 2 ہزار کیوسک پانی گزرا ہے۔ خانکی کی گنجائش بھی 11 لاکھ کیوسک پانی کی ہے جبکہ سال 1959 میں یہاں سے سب سے زیادہ 10 لاکھ 85 ہزار کیوسک پانی گزرا تھا جبکہ اس سال ابتک یہاں سے 10 لاکھ 85 ہزار کیوسک پانی گزر چکا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب میں تاریخ ساز سیلاب، 20 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے، مریم اورنگزیب

قادر آباد کی بات کی جائے تو اس مقام کی گنجائش 8 لاکھ 7 ہزار کیوسک پانی کی ہے۔ یہاں کا ریکارڈ اسی سال بنا اور یہاں سے ابتک 10 لاکھ 78 ہزار کیوسک پانی کا گزر ہو چکا ہے۔ جنیوٹ برج کی گنجائش بھی 8 لاکھ 7 ہزار کیوسک پانی کی ہے جبکہ اسی سال یہاں سے تاریخ کا سب سے زیادہ پانی 8 لاکھ 55 ہزار کیوسک پانی گزر چکا ہے۔

ٹریمو کی گنجائش 6 لاکھ 45 ہزار کیوسک کی ہے۔ سال 1928 میں یہاں سے سب سے زیادہ 9 لاکھ 44 ہزار کیوسک پانی گزر چکا ہے جبکہ سال 2025 میں ابتک 4 لاکھ 93 ہزار کیوسک پانی گزرا ہے۔ پنجند کی بات کی جائے تو اس کی گنجائش 7 لاکھ کیوسک ہے۔ یہاں سے 1973 میں سب سے زیادہ 8 لاکھ 2 ہزار کیوسک پانی گزرا تھا۔ اس سال ابتک یہاں سے 1 لاکھ 33 ہزار کیوسک پانی گزر چکا ہے۔

اب ذکر کرتے ہیں دریائے راوی کے چار مقامات کا۔ سب سے پہلے بات کریں گے جسر کی جس کی گنجائش ہے 2 لاکھ 75 ہزار کیوسک پانی کی۔ سال 1955 میں یہاں سے ریکارڈ 6 لاکھ 80 ہزار کیوسک پانی کو ریکارڈ کیا گیا جبکہ اس برس ابتک 2 لاکھ 40 ہزار کیوسک پانی یہاں سے گزرا ہے۔ شاہدرہ کی گنجائش ہے 2 لاکھ 50 ہزار کیوسک پانی کی جبکہ یہاں کا ریکارڈ 1988 میں تب بنا جب 5 لاکھ 76 ہزار کیوسک پانی کا اس مقام سے گزر ہوا۔ اس سال ابتک 2 لاکھ 19 ہزار کیوسک پانی اس مقام پر ریکارڈ کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب میں سیلاب سے کتنے نقصانات ہوئے، پی ڈی ایم اے نے تفصیلات جاری کردیں

بلوکی کی گنجائش 3 لاکھ 80 ہزار کیوسک پانی کی ہے جبکہ 1988 میں یہاں سے 3 لاکھ 90 ہزار کیوسک پانی گزر چکا ہے۔ اس سال ابتک یہاں سے 2 لاکھ 23 ہزار کیوسک پانی گزرا ہے۔ سدھنائی کی گنجائش 1 لاکھ 50 ہزار کیوسک پانی کو برداشت کرنے کی ہے جبکہ سال 1988 میں یہاں سے 3 لاکھ 30 ہزار کیوسک پانی گزرا۔ اس سال تاحال 72 ہزار کیوسک پانی کا گزر ہو چکا ہے۔

دریائے ستلج پر تین مقامات پر پانی کے بہاؤ کی بات کی جائے تو سب سے پہلے جی ایس والا آتا ہے جس کی گنجائش کا ڈیٹا تاحال نہیں ہے لیکن سال 1955 میں یہاں سے 8 لاکھ 37 ہزار کیوسک پانی گزرا ہے جبکہ اس سال ابتک 3 لاکھ 85 ہزار کیوسک پانی ریکارڈ کیا گیا ہے۔

سلیمانکی کی گنجائش 3 لاکھ 25 ہزار کیوسک ہے۔ سال 1955 میں یہاں پر کم و بیش 6 لاکھ کیوسک پانی ریکارڈ کیا گیا ہے جبکہ اس سال ابتک 1 لاکھ 54 ہزار کیوسک پانی ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اسلام کی گنجائش 3 لاکھ کیوسک ہے۔ سال 1955 میں یہاں کم و بیش 5 لاکھ کیوسک پانی ریکارڈ کیا گیا جبکہ اس سال ابتک 3 لاکھ کیوسک پانی ریکارڈ کیا گیا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news پاکستان پنجاب دریا سندھ سیلاب.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پاکستان دریا سیلاب ہزار کیوسک پانی گزرا ہے ریکارڈ کیا گیا جبکہ کی بات کی جائے تو اس ہزار کیوسک پانی کی ہزار کیوسک پانی کو ہزار کیوسک پانی کا لاکھ 50 ہزار کیوسک ہزار کیوسک کی ہے جبکہ اس سال ابتک سال 1955 میں یہاں یہ بھی پڑھیں میں یہاں سے ہے جبکہ سال سب سے زیادہ زیادہ پانی کی گنجائش 1 ہے جبکہ اس کی ہے جبکہ کا ریکارڈ مقامات پر کا سیلاب بیراج کی کیوسک ہے میں ابتک یہاں سے 1 درجے کا

پڑھیں:

3 سال میں، 28 لاکھ 94 ہزار پاکستانی بیرون ملک چلے گئے

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 17 ستمبر2025ء)ملک میں ایک طرف بڑھتی ہوئی مہنگائی، لاقانونیت اور بے روزگاری ہے تو دوسرا کاروبار شروع کرنے میں بھی طرح طرح کی مشکلات ہیں۔انہی حالات سے تنگ آئے 28 لاکھ 94 ہزار 645 پاکستانی گزشتہ تین سالوں کے دوران اپنے قریبی افراد کو چھوڑ کر بیرون ملک چلے گئے ہیں۔بیرون ملک جانے والوں میں خواتین کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر، انجینیئر، ائی ٹی ایکسپرٹ، اساتذہ، بینکرز، اکاؤنٹنٹ، آڈیٹر، ڈیزائنر، آرکیٹیکچر کے ساتھ ساتھ پلمبر، ڈرائیور، ویلڈر اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد ملک چھوڑ گئے ہیں۔ محکمہ پروٹیکٹر اینڈ امیگرانٹس سے ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق یہ 15ستمبر تک کا ڈیٹا ہے۔بیرون ملک جانے والے یہ افراد پروٹیکٹر کی فیس کی مد میں 26 ارب 62 کروڑ 48 لاکھ روپے کی بھاری رقم حکومت پاکستان کو ادا کرکے گئے۔

پروٹیکٹر اینڈ امیگرانٹس آفس آئے طلبہ، بزنس مینوں، ٹیچرز، اکاؤنٹنٹ، آرکیٹیکچر اور خواتین سے بات چیت کی گئی تو انہوں نے کہا یہاں پہ جتنی مہنگائی ہے اس حساب سے تنخواہ نہیں دی جاتی۔یہاں مراعات بھی نہیں ملتی ہیں۔ باہر کا رخ کرنے والے طالب علموں نے کہا یہاں پہ کچھ ادارے ہیں لیکن ان کی فیسیں بہت زیادہ ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • سندھ میں بیراجوں میں پانی کی آمد و اخراج کے تازہ ترین اعداد و شمار جاری
  • پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں میں’ شدید انسانی بحران’ ہے، عالمی برادری امداد فراہم کرے، اقوام متحدہ
  • 3 سال میں، 28 لاکھ 94 ہزار پاکستانی بیرون ملک چلے گئے
  • پنجاب کے دریاؤں میں پانی کی سطح میں کمی، دریائے سندھ میں اونچے درجے کا سیلاب
  • گدو اور سکھر بیراج کے مقام پر اونچے درجے جبکہ کوٹری پر نچلے درجے کا سیلاب ہے: شرجیل میمن
  • سیلاب کی تباہ کاریاں : پنجاب و سندھ کی سینکڑوں بستیاں اجڑ گئیں، فصلیں تباہ 
  • پنجاب کے دریاؤں میں پانی کی سطح بلند ,کئی مقامات پر نچلے درجے کا سیلاب
  • دریائے راوی میں مختلف مقامات پر پانی کا بہاؤ نارمل
  • دریاؤں میں پانی کے بہاؤ کی تازہ ترین صورتحال
  • مون سون کا 11 واں اسپیل: پنجاب میں شدید بارشوں کی پیشگوئی، ندی نالوں میں طغیانی کا خدشہ