افغانستان میں خوفناک زلزلہ، ہلاکتیں 1400 سے تجاوز کر گئیں
اشاعت کی تاریخ: 3rd, September 2025 GMT
کابل(انٹرنیشنل ڈیسک) افغانستان میں 6 شدت کے تباہ کن زلزلے نے بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان پہنچایا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد 1411 تک پہنچ گئی جبکہ 3251 افراد زخمی ہیں۔
افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بتایا کہ زلزلے سے ہزاروں افراد براہ راست متاثر ہوئے ہیں اور متاثرہ علاقوں میں ہنگامی امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔ افغان ہلال احمر کے مطابق آفت میں 8 ہزار سے زائد مکانات مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہو گئے ہیں۔
افغان سرکاری میڈیا کے مطابق سب سے زیادہ تباہی صوبہ کنڑ میں ہوئی ہے۔ امریکی جیولوجیکل سروے نے زلزلے کا مرکز ننگرہار کے شہر جلال آباد کے قریب 8 کلومیٹر کی گہرائی میں ریکارڈ کیا۔ زلزلہ مقامی وقت کے مطابق رات 11 بجکر 47 منٹ پر آیا، جس کے تقریباً 20 منٹ بعد 4.
ماہرین اور حکام نے اسے حالیہ برسوں میں افغانستان کی سب سے ہلاکت خیز قدرتی آفات میں شمار کیا ہے۔
Post Views: 3ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کے مطابق
پڑھیں:
ابوظبی کے سر بنی یاس جزیرے پر 1400 سال پرانی صلیب کی حیرت انگیز دریافت
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ابوظہبی کے تاریخی جزیرے سر بنی یاس پر ماہرینِ آثار قدیمہ نے ایک غیر معمولی دریافت کی ہے جس نے اس خطے کی قدیم تاریخ کو مزید اجاگر کر دیا ہے۔
حالیہ کھدائی کے دوران تقریباً 1400 سال پرانی ایک مسیحی صلیب برآمد ہوئی ہے جسے ماہرین ساتویں یا آٹھویں صدی کا قرار دے رہے ہیں۔ اس دریافت نے ثابت کیا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے ان علاقوں میں صدیوں پہلے مسیحی کمیونٹیز نہ صرف موجود تھیں بلکہ انہوں نے عبادت، خانقاہی زندگی اور مذہبی رسومات کو باقاعدگی سے اپنایا ہوا تھا۔
یہ کھدائی جنوری میں شروع کی گئی تھی اور تقریباً 3 دہائیوں بعد اس جزیرے پر آثار قدیمہ کی پہلی بڑی مہم ہے۔ صلیب پلاسٹر پر بنی ہوئی ہے اور اس کا سائز تقریباً 27 سینٹی میٹر لمبا، 17 سینٹی میٹر چوڑا اور 2 سینٹی میٹر موٹا ہے۔
اسے ایک ایسے مقام پر دریافت کیا گیا ہے جو ایک صحن نما مکانات کے قریب ہے، جنہیں خانقاہ یا دیر کے شمالی حصے میں بزرگ راہب اور تنہائی پسند عبادت گزار استعمال کرتے تھے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس صلیب کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ اس خطے میں ابتدائی مسیحی برادریاں خاص طور پر مشرقی مسیحیت سے تعلق رکھنے والی کمیونٹیاں آباد تھیں۔ وہ یہاں عبادت اور دینی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ اپنی الگ تھلگ خانقاہی طرزِ زندگی گزارتے تھے۔ اس دریافت کو خلیجی خطے کی مذہبی و ثقافتی تاریخ کا ایک اہم باب قرار دیا جا رہا ہے۔
آثار قدیمہ کے محققین کا خیال ہے کہ یہ دریافت مستقبل میں خطے کی قدیم تہذیب اور مختلف مذاہب کے درمیان روابط کو سمجھنے میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔
متحدہ عرب امارات اپنی تاریخی و ثقافتی وراثت کو محفوظ بنانے کے لیے پہلے ہی کئی اقدامات کر چکا ہے اور سر بنی یاس پر یہ نئی کھوج اس سمت میں ایک اور سنگ میل سمجھی جا رہی ہے۔