اسرائیلی فوج کا غزہ کی بلند عمارتوں پر حملوں کا آغاز، شہریوں میں خوف کی لہر
اشاعت کی تاریخ: 5th, September 2025 GMT
غزہ شہر ایک بار پھر شدید خوف اور بے یقینی کی فضا میں ڈوبا ہوا ہے۔ اسرائیلی فوج نے باقاعدہ اعلان کیا ہے کہ وہ ان تمام بلند و بالا عمارتوں کو نشانہ بنائے گی جو مبینہ طور پر حماس کے زیرِ استعمال ہیں۔ اس اعلان کے کچھ ہی دیر بعد غزہ کی ایک بلند عمارت کو فضائی حملے میں تباہ کر دیا گیا، جس کے بارے میں اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ وہاں سے اس کے فوجیوں پر حملوں کی منصوبہ بندی ہو رہی تھی۔
اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ غزہ شہر میں کئی ایسی بلند عمارتیں موجود ہیں جو اب “دہشت گردی کی تنصیبات” میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ ان میں کمانڈ اینڈ کنٹرول مراکز، سنائپرز کی پوزیشنز، نگرانی کے کیمرے، اور اینٹی ٹینک ہتھیاروں کے اڈے شامل ہیں۔
فوج کے مطابق ان عمارتوں کو نشانہ بنانے سے پہلے شہریوں کو انتباہی پیغامات دیے گئے تاکہ جانی نقصان کم سے کم ہو، تاہم زمینی حقائق کچھ اور کہانی بیان کر رہے ہیں۔
غزہ کے 45 سالہ رہائشی احمد ابو وفا نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے فون پر گفتگو میں کہا:
ٹاورز اور اپارٹمنٹس پر بمباری کی خبریں انتہائی خوفناک ہیں، ہر طرف خوف کا عالم ہے اور کسی کو نہیں معلوم کہ جائے پناہ کہاں ہے۔
غزہ کی شہری دفاعی ایجنسی کے مطابق، جمعے کے روز اسرائیلی فضائی حملوں میں غزہ شہر اور اطراف کے علاقوں میں کم از کم 19 فلسطینی شہری جاں بحق ہوئے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق غزہ شہر میں اس وقت تقریباً 10 لاکھ افراد آباد ہیں، جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔
یہ کارروائیاں ایسے وقت میں کی جا رہی ہیں جب اسرائیل نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ وہ غزہ کے سب سے بڑے شہری مرکز پر مکمل قبضے کا ارادہ رکھتا ہے۔ تقریباً دو سال سے جاری اس جنگ میں اسرائیلی حملے اب ایک نئی شدت کے ساتھ سامنے آ رہے ہیں، جس کے باعث انسانی بحران مزید سنگین ہوتا جا رہا ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
ماہرین نے فضائی آلودگی اور اسموگ میں کمی کا حل بتا دیا
لاہور:جیسے ہی سردیاں شروع ہوئیں، لاہور ایک بار پھر خطرناک فضائی آلودگی اور اسموگ کی لپیٹ میں آ گیا ہے۔ مگر ماہرین ماحولیات کے مطابق اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے قدرتی حل خود فطرت میں موجود ہے، درخت اور پودے، جو فضا کے لیے قدرتی فلٹر کا کردار ادا کرتے ہیں۔
باغِ جناح لاہور کے ڈائریکٹر جلیل احمد کے مطابق چوڑے پتوں والے درخت جیسے برگد، جامن ، پیپل، نیم، شیشم، املتاس اور اریٹا گرد و غبار اور کاربن کے ذرات کو مؤثر انداز میں جذب کرتے ہیں، جس سے فضا صاف اور آکسیجن کی مقدار متوازن رہتی ہے۔ درخت نہ صرف آکسیجن پیدا کرتے ہیں بلکہ مٹی اور کاربن کے ذرات کو روک کر فضا کو صاف رکھتے ہیں۔
لاہور میں بڑھتی تعمیرات اور کم ہوتے سبزے کے باعث شہری جنگلات (اربن فاریسٹری) اور چھتوں پر باغبانی (روف ٹاپ گارڈننگ) کا رجحان تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔
پارکس اینڈ ہارٹیکلچر اتھارٹی (پی ایچ اے) کے مطابق شہر کی 500 سے زائد عمارتوں پر روف ٹاپ گارڈنز قائم کیے جا چکے ہیں جن میں پھل دار پودے، سبزیاں اور گھاس شامل ہیں۔ یہ گارڈنز نہ صرف نقصان دہ گیسوں کو جذب کرتے ہیں بلکہ درجہ حرارت کو اوسطاً 2 سے 5 ڈگری سینٹی گریڈ تک کم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
پی ایچ اے کے ڈائریکٹر جنرل راجہ منصور احمد کے مطابق لنگز آف لاہور منصوبہ شہر میں فضائی آلودگی کے تدارک کے لیے ایک ماڈل کے طور پر تیار کیا جا رہا ہے۔ منصوبے کے تحت 48 لاکھ سے زائد پودے لگائے جائیں گے، جو 112 کلومیٹر طویل اور 1711 ایکڑ پر محیط جنگلاتی پٹی (رِنگ فاریسٹیشن) کا حصہ ہوں گے۔ اس منصوبے سے دو کروڑ سے زائد شہری براہِ راست فائدہ اٹھائیں گے۔
ماہر ماحولیات نسیم الرحمن کہتے ہیں کہ فضائی آلودگی اور اسموگ میں کمی کے لیے جہاں فیکٹریوں، کارخانوں اور گاڑیوں سے خارج ہونے والی آلودگی کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے وہیں شہری علاقوں میں اربن فاریسٹری اور روف ٹاپ گارڈننگ کا فروغ بھی ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اربن فاریسٹری اور روف ٹاپ گارڈننگ شہری درجہ حرارت کم کرنے کے ساتھ بارش کے پانی کے مؤثر استعمال کا ذریعہ بھی ہے۔ یہ شہری ماحولیاتی دباؤ کم کرنے کا ایک پائیدار حل ہے۔
ماہر جنگلات بدر منیر کے مطابق دنیا بھر میں فضائی آلودگی کے خلاف سب سے مؤثر حیاتیاتی ہتھیار درخت ہیں۔ محکمے کی رپورٹ کے مطابق برگد کو فضائی آلودگی صاف کرنے کے لحاظ سے سب سے مؤثر درخت قرار دیا گیا ہے، اس کے بعد ارجن اور جامن کے درخت فضا سے مضر ذرات جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ درختوں کی بقا اور مؤثریت کا انحصار ان کی دیکھ بھال پر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خشک یا بیمار درخت اپنی افادیت کھو دیتے ہیں اور بعض اوقات خود کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرنے لگتے ہیں۔ انہوں نے تجویز دی کہ شہروں میں مقامی درختوں کو ترجیح دی جائے اور شہریوں میں ان کی دیکھ بھال کا شعور پیدا کیا جائے۔
ماہرین متفق ہیں کہ اگر شہری سطح پر مقامی درختوں کی شجرکاری، روف ٹاپ گارڈننگ اور مناسب دیکھ بھال کے اقدامات مستقل بنیادوں پر کیے جائیں تو لاہور جیسے شہروں میں اسموگ اور فضائی آلودگی کے اثرات میں نمایاں کمی ممکن ہے۔