Express News:
2025-09-17@21:32:04 GMT

دریا اور آبی جارحیت

اشاعت کی تاریخ: 6th, September 2025 GMT

جب میں نے یہ منظر خبروں میں دیکھا کہ پاکستان تک پہنچتے پہنچتے یہ پانی کسی دریا کا نہیں بلکہ ہمالیہ سے نکلنے والا دھاڑتا ہوا چیختا ہوا شیرکا روپ اختیار کر لیتا ہے اور یہ سیلابی پانی ہمالیائی تیندوے کی طرح غریب کسانوں کے گھروں، چھتوں کو پھلانگتا ہوا آگے بڑھتا ہے تو سب کچھ ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے۔

میں یہ دیکھ رہا تھا کہ گھروں کو یہ جھنجھوڑتا ہے، بھنبھوڑتا ہے اور یوں اٹھا کر پٹختا ہے کہ سب کچھ ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے۔ یہ منظر دیکھ کر مال مویشی ڈرکے مارے خوفزدہ ہو کر رسی تڑا بیٹھتے ہیں اور دوڑ لگاتے لگاتے بھاگتے بھاگتے سیلابی پانی میں گھر جاتے ہیں اور پھر وہیں گر جاتے ہیں اور گر کر ڈھیر ہو جاتے ہیں یا پھر بہہ کر چلے جاتے ہیں اور کسان ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے۔

اپنا مال و اسباب بچاتے ہوئے ہزار سے زائد جانیں چلی گئیں۔ فی الحال صرف پنجاب میں 40 لاکھ سے زائد افراد کو امداد یا بچانے کی تگ و دو کر لی گئی۔ لاکھوں افراد بے گھر ہوگئے، سرکاری رپورٹوں کے مطابق سیلاب کے اعداد و شمار محض ہندسوں کی صورت میں لکھے جاتے ہیں مگر ان کے پیچھے کسان کا اجڑا ہوا گھر، ماؤں کے وہ لال جو پانی میں بہہ گئے، گھر والوں کا پورے سال کا راشن آٹا، چاول، دیسی گھی، گڑ، پہننے کے کپڑے، جوتے سب بہہ گئے اور غریب کسان کی جوان بچی کا زیور بھی بہہ کر چلا گیا جس کے لیے بوڑھی ماں دہائی دے رہی تھی کہ پیٹ کاٹ کر بچی کا جہیز جمع کیا تھا۔

وہ سب اچانک سیلاب اچک کر لے گیا۔اس سیلاب نے ہمیں جھنجھوڑ کر بتایا کہ ہم صنعتی دنیا کو کوس رہے ہیں کہ انھوں نے فطرت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی، موسموں کو بگاڑا، کاربن کا بوجھ آسمان پر لٹکا دیا اور جب وہ پاکستان میں آ کر کلاؤڈ برسٹ کی صورت میں برسا تو ہمیں کہیں پناہ نہ ملی اور پھر ہمارے اشرافیہ نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔ صوبہ کے پی کے میں دریاؤں کے ساتھ ساتھ ہوٹلز، بلڈنگز کھڑی کر دی گئیں اور دریاؤں کے کنارے پر مہنگی مہنگی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کو بنا کر دریا کا قدرتی راستہ روک لیا گیا۔ 

دراصل ہمالیہ کی چوٹی پر جب برف دھیرے دھیرے پگھلتی ہے تو پانی کی بوند بوند میں ایک سکون ہوتا ہے، یہ وہی سکون ہے جو لاکھوں سال سے دریا اپنی موجوں میں سنبھال کر لاتا ہے۔ زمینوں کو بخشتا ہے، اسی امن و سکون کو کہتے ہیں پانی زندگی کا نام ہے، لیکن بھارت موسمیاتی تبدیلی کی آڑ لے کر اس کی سرزمین پر اترنے والی ندیوں کے پانی کو اپنے ڈیموں کے قلعوں میں قید کر لیتا ہے۔ یہ پانی شانت، زندگی، امن، زرخیزی لاتا تھا۔

انجینئرنگ کن دیواروں کے پیچھے اندر بے چینی ارتعاش اور ہیجان کے ساتھ قید رہتا ہے اور پھر جب بھارت ایک ساتھ بلا اطلاع بارہ کے بارہ اسپیلز کھول دیتا ہے تو یہی پانی جو کبھی رحمت ہوتا تھا غصے سے دھاڑتا ہوا شیر کی طرح خونخوار ہو کر پاکستان کے پنجاب میں تباہی مچا دیتا ہے۔ اس طرح یہ ایک قدرتی آفت نہیں رہتی بلکہ ایک منظم آبی جارحیت کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔

پنجاب کے دریا پرامن تھے، بھارتی ڈیمز کی قید میں رہ کر بپھر گئے۔ حکومت کو ان ناجائز ڈیموں کے خلاف احتجاج کرنا ہوگا۔کسانوں کے لاکھوں مویشی بہہ جانے کے سبب آیندہ بقر عید تک ان جانوروں کی خدمت کر کے پال پوس کر قربانی کے لیے فروخت کرکے اچھی خاصی رقم کما لیا کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ قربانی کی معیشت کا حصہ 7 سے 8 سو ارب روپے ہوتا ہے۔ آخر میں جب تخمینہ لگایا جائے گا تو اصل رقم کا اندازہ ہو سکے گا۔

پھر کھڑی فصلوں کا نقصان وہ الگ، اس کے علاوہ گھروں میں خوراک کے ذخائر تلف ہو گئے۔ ملک کی جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ 24 فی صد سے قریب ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہو سکتا ہے کہ 12 فی صد فی الحال ملکی جی ڈی پی سے منہا ہو جائے لیکن حکومت چاہتی ہے کہ زراعت کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرے۔ دنیا میں کئی ممالک کی مثالیں موجود ہیں جہاں قدرتی آفات کے بعد حکومت نے کسانوں کو بھرپور سہارا دیا۔

نقد امداد دی گئی، گھروں کو تعمیر کر کے دیا گیا، اس سلسلے میں سندھ حکومت کی مثال دی جا سکتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل جب سندھ کی سرزمین میں سیلاب آیا اور گھر بار سب کچھ ملیا میٹ کر گیا تو ایسے میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ہزاروں متاثرہ خاندانوں کے لیے چھت فراہم کرنے کا عزم کیا۔

کیونکہ چھت انسان کے وجود کو معنی دیتی ہے اور انھوں نے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا۔ پنجاب حکومت بھی ان بے گھروں کو جلدازجلد چھت فراہم کرے، اسی طرح کے پی کے اور گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور بلوچستان کے بعض علاقوں میں ہر طرح کی مدد و امداد کی ضرورت ہے جس کے لیے ملک بھر کی انتظامیہ کو فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جاتے ہیں جاتا ہے ہیں اور ہے اور

پڑھیں:

لاہور میں زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے کم ہو نے لگی

لاہور میں تیزی کے ساتھ زمین سے پانی نکالے جانے کیوجہ سے خطے میں زیر زمین شدید پانی کی قلت ہوگئی ہے۔

تفصیلات کے مطابق محکمہ ایریگیشن رسرچ انسٹی ٹیوٹ نے کہا ہے کہ لاہور میں حالیہ بارشیں بھی زیر زمین پانی کی سطح کو قدرتی طور پر بلند کرنے میں ناکام ہوگئی ہیں۔

ایریگیشن رسرچ انسٹی ٹیوٹ کا کہنا ہے کہ زیر زمین پانی کی سطح کو بلند رکھنے کے لیے ہنگامی صورتحال کے تحت تمام چھوٹے بڑے نجی سرکاری اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں سمیت ہاؤسنگ سوسائٹی میں ری چارجنگ کنویں بنانا ہونگے۔ کیونکہ لاہور زیر زمین پانی کی سطح خطر ناک حد تک کم ہو رہی ہے۔

محکمہ ایریگیشن رسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ذاکر حسین سیال نے ایکسپریس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا زیر زمین پانی کی ری چارجنگ بہت کم ہوئی جس کی وجہ سے زیر زمین لاہور کے مختلف علاقوں میں ایک فٹ سے لے کر چار فٹ تک سالانہ پانی کی سطح کم ہونے لگی ہے۔

ریچارجنگ کر کے پانی کی سطح بلند کرنے کے لیے محکمہ ایریگیشن کے ریسرچ انسٹیٹیوشن نے 70 سے زائد ریچارج ویل لگا دیے ہیں۔ حالیہ بارشوں میں 10 سے پندرہ  ایکڑ فٹ کے بجائے صرف 15 لاکھ لیٹر پانی کو ریچارج کیا جا سکا ہے۔ اس کے علاوہ گلبرگ کے ایریا میں پانی کی سطح 125 سے 30 فٹ پر ہے۔

لاہور شہر کے دیگر علاقوں میں کھارے پانی کی سطح کم ہوتے ہوتے ڈیڑھ سو فٹ  تک چلی گئی ہے جبکہ پینے کا پانی سات سو فٹ تک پہنچ چکا ہے۔ 

لاہور میں پانی کی سپلائی زیادہ ہونے کے باعث ٹیوب ویل کی تعداد بھی سرکاری اور نجی ہاؤسنگ سوسائٹی میں بڑھنے لگی ہے۔

https://cdn.jwplayer.com/players/sl54dtPk-jBGrqoj9.html?fbclid=IwY2xjawM0pj5leHRuA2FlbQIxMABicmlkETFnN1dKajNuMHFKS0Z0dUd0AR72qgeLa0LXYPKvg4udCdkJJcE66i21GTCPqgDQOsyfyp7qLSyQaf-sC7dE0g_aem_iYGYuHLvWcaHP5WwmMjhWg

ایک سروے کے مطابق لاہور میں 1500 سے 1800 تک ٹیوب ویل لگے ہوئے ہیں جو 24 گھنٹے ہی چلتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح تیزی کے ساتھ گر رہی ہے۔

ریسرچ کے ڈائریکٹر ذاکر سیال نے بتایا کہ  لاہور میں جس تیزی کے ساتھ زمین سے پانی نکالا جا رہا ہے اس کے حساب سے ریچارجنگ نہ ہونے کے برابر ہے بڑے بڑے ڈیم بنانے کے ساتھ ساتھ انڈر گراؤنڈ ڈیمز کی بھی ضرورت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پانچ دریاؤں کی سرزمین ’’پنج آب‘‘ پانی کی نظر
  • بھارتی کرکٹرز پر پاکستانی نیٹ بولرز کے ساتھ تصاویر پر بھی پابندی عائد
  • مشرق وسطی میں اسرائیل کی جارحیت کو فوری طور پر روکا جانا چاہیے ،شہباز شریف
  • دریا کو بہنے دو، ملیر اور لیاری کی گواہی
  • پانی کی لائن ٹوٹنے سے یونیورسٹی روڈ دریا کا منظر پیش کرنے لگی
  • سیلابی ریلہ سندھ میں داخل ، گھر دریا کی بے رحم موجوں میں بہہ گئے
  • شہباز شریف کی ایرانی صدر سے ملاقات
  • کراچی؛ پانی کی لائن ٹوٹنے سے یونیورسٹی روڈ دریا کا منظر پیش کرنے لگی
  • پنجاب، دریا¶ں میں پانی کا بہا¶ معمول پر آگیا
  • لاہور میں زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے کم ہو نے لگی