’کاجل اگروال کی موت‘، حقیقت جان کر مداح حیران رہ گئے
اشاعت کی تاریخ: 6th, September 2025 GMT
بھارتی فلم انڈسٹری کی مشہور اداکارہ کاجل اگروال کے انتقال کی خبریں گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئیں۔
افواہوں میں دعویٰ کیا گیا کہ اداکارہ کسی حادثے کا شکار ہو گئی ہیں۔
Smile to die for ❤️ ❤️
Kajal Aggarwal is eternal beauty ????pic.twitter.com/AKdKwekG4F
— ???? ???? ???? ❤️???? (@Asthapromo) March 5, 2024
تاہم حقیقت بالکل برعکس نکلی۔ کاجل اگروال نہ صرف زندہ ہیں بلکہ اپنی زندگی کے خوشگوار لمحات سے لطف اندوز ہو رہی ہیں۔
انہوں نے سوشل میڈیا پر اپنی تازہ تصاویر شیئر کرکے مداحوں کو یقین دلایا کہ وہ بالکل خیریت سے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:سلمان خان کی فلم ’سکندر‘ تیسرے دن ہی سینما سے کیوں اتار دی گئی؟
ان جھوٹی خبروں نے ان کے پرستاروں کو سخت تشویش میں مبتلا کر دیا تھا، مگر اداکارہ کی جانب سے سامنے آنے والی تازہ پوسٹس نے تمام افواہوں کو یکسر مسترد کر دیا۔
کاجل اگروال کا شمار ان اداکاراؤں میں ہوتا ہے جنہوں نے جنوبی ہند اور بالی ووڈ دونوں میں اپنی پہچان بنائی ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کے حوالے سے کوئی بھی خبر لمحوں میں شہ سرخی بن جاتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بالی ووڈ بھارتی اداکارہ جنوبی ہند کاجل اگر وال کاجل موت.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بالی ووڈ بھارتی اداکارہ کاجل اگر وال کاجل موت کاجل اگروال
پڑھیں:
افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
مغربی فکر کا مقابلہ کیسے کریں؟
سب سے پہلا کام ہم یہ کرنا چاہتے ہیں کہ مغربی فکر اور مغربی فلسفۂ حیات کا جو طلسم بندھا ہوا ہے‘ اس کو توڑ ڈالا جائے۔ ایک معقول اور مدلل علمی تنقید کے ذریعے یہ بات ثابت کی جائے کہ مغربی علوم و فنون میں جتنے حقائق اور واقعات ہیں‘ وہ دراصل تمام دنیا کا مشترک علمی سرمایہ ہیں اور اس کے ساتھ کسی تعصب کا کوئی سوال نہیں ہے۔ لیکن ان معلومات و حقائق کو جمع کرکے جو فلسفۂ حیات اہلِ مغرب نے بنایا ہے‘ وہ قطعی باطل ہے۔ ان کو مرتب کرکے جو طرزِ فکر اور کائنات کے متعلق جو تصور اور انسان کے بارے میں جو تصور انہوں نے قائم کیا ہے اور جس کے اوپر اپنی پوری تہذیب کی عمارت انہوں نے اٹھائی ہے‘ وہ ساری کی ساری از اَوّل تا آخر باطل ہے۔ جو معاشرتی علوم (Social Sciences) انہوں نے مرتب کیے ہیں‘ جو معاشرتی فلسفہ (Social Philosophy) انہوں نے گھڑا ہے‘ وہ مُوجبِ فتنہ و فساد ہے‘ وہ انسان کی فلاح کے لیے نہیں بلکہ انسان کی تباہی کے لیے ہے اور خود ان کی اپنی تباہی کے لیے ہے۔ یہ پہلا ضروری کام ہے‘ جس کے ذریعے سے ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ مسلمانوں پر مغربی فکر و فلسفے کا جو سحر ہے‘ وہ ختم ہوجائے گا اور جس کے بغیر مسلمانوں کو اس ذہنی مرعوبیت اور ذہنی شکست خوردگی کی حالت سے نہیں نکالا جاسکتا جس میں وہ مبتلا ہیں۔ جب تک مسلمان اس ذہنی شکست خوردگی میں مبتلا ہیں‘ اس وقت تک آپ توقع نہیں کرسکتے کہ وہ دنیا کے ’’مقلد‘‘ کی زندگی چھوڑ کر ’’مجتہد‘‘ کی زندگی اختیار کریں گے۔ اس وقت تک تو ان کا کام آنکھیں بند کرکے اہلِ مغرب کے پیچھے چلنا ہے۔ اس حالت کو آپ نہیں بدل سکتے جب تک کہ اس سحر کو نہ توڑ دیں اور اس حقیقت کو واضح نہ کردیں کہ علمی حقائق اور چیز ہیں اور علمی حقائق کو ترتیب دے کر ایک فلسفۂ زندگی اور نظامِ حیات مرتب کرنا بالکل دوسری چیز ہے۔ حقائق اپنی جگہ بالکل صحیح ہوسکتے ہیں‘ لیکن فی الحقیقت ان کو مرتب کرکے مغرب میں جو فلسفۂ حیات بنایا گیا ہے‘ وہ بالکل غلط ہے!
٭—٭—٭
اس کے آگے جو دوسرا کام کرنا ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی نقطۂ نظر سے تمام علوم و فنون کو نئے اسلوب اور نئے طریقے پر مرتب کیا جائے تاکہ وہ ایک اسلامی تہذیب کی بنیاد بن سکیں۔ اسی طرح اسلام کے مطابق ہمیں ایک فلسفہ درکار ہے‘ جو انسان کے ذہن کی اس تلاش کو تسکین دے کہ حقیقت کیا ہے‘ مگر یہ تسکین اس عقیدے کے مطابق دے جو اسلام نے ہمیں دیا ہے۔ حقیقت کی تلاش اور اس کی تڑپ انسان کی فطرت میں ہے‘ وہ اس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مگر تلاشِ حقیقت کے مختلف راستوں میں سے صحیح راستہ ہمارے نزدیک وہ ہے جو انبیاء علیہم السلام کا تھا۔ اس راستے کے مطابق تلاشِ حقیقت‘ کائنات کی حقیقت‘ حیاتِ انسانی کی حقیقت‘ نیز اس کے مآل (انجام‘ نتائج) کو ایک فلسفے کی شکل میں مرتب کرنا تاکہ آدمی کو اس کے مطابق ڈھالا جائے۔ ظاہر ہے یہ اس کے بغیر نہیں ہوسکتا کہ ہم ایک فلسفہ اسلام کے نقطۂ نظر کے مطابق مرتب کریں۔ اس کام کو کیے بغیر یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ آپ کی یونیورسٹیوں اور آپ کے کالجوں میں جو فلسفہ پڑھایا جاتا ہے یا نفسیات کے جو علوم پڑھائے جاتے ہیں یا جن دوسرے فلسفیانہ علوم کی تعلیم دی جاتی ہے‘ ان کو تبدیل کردیا جائے اور ان کی جگہ کوئی دوسرا فلسفہ پڑھایا جائے (تہذیبی کشمکش میں علم و تحقیق کا کردار)۔