کوئٹہ: شاہوانی اسٹیڈیم دھماکے کا ایک اور زخمی چل بسا، تعداد 18 ہوگئی
اشاعت کی تاریخ: 8th, September 2025 GMT
کوئٹہ:
شاہوانی اسٹیڈیم دھماکے کا ایک اور زخمی چل بسا جس کے بعد دھماکے میں جاں بحق افراد کی تعداد 18 ہوگئی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق چند روز قبل بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے علاقے سریاب روڈ پر شاہوانی اسٹیڈیم میں بی این پی کا جلسہ ہورہا تھا، اسٹیڈیم کے باہر خودکش حملہ ہوا جس کے سبب 17 افراد جاں بحق اور 40 زخمی ہوگئے تھے۔
اسپتال ذرائع کے مطابق آج دھماکے کا ایک اور زخمی دوران علاج دم توڑ گیا جس کے بعد جاں بحق افراد کی تعداد 18 ہوگئی۔
واضح رہے کہ یہ دھماکا منگل کو اس وقت ہوا تھا جب بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے سربراہ سردار اختر مینگل اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنما محمود خان اچکزئی سردار عطاء اللہ مینگل کی چوتھی برسی کے موقع پر منعقدہ تقریب میں شریک تھے۔
جلسے کے اختتام کے بعد جب لوگ اسٹیڈیم سے سردار اختر مینگل اور محمود خان کے قافلے کے ساتھ سریاب روڈ کی جانب روانہ ہوئے تو اسی دوران ایک خودکش حملہ آور نے دھماکہ خیز مواد سے بھری ایک موٹر سائیکل کو قافلے کے قریب اڑادیا جس سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلی۔ دھماکے کا ہدف واضح طور پر سردار اختر مینگل اور محمود خان اچکزئی تھے، جو خوش قسمتی سے محفوظ رہے مگر متعدد کارکنوں اور عام شہریوں کی جانیں چلی گئیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: دھماکے کا
پڑھیں:
شائقین کی پھر مایوس واپسی
DUBAI:دبئی میں پاک بھارت میچز کور کرنے کا اب اتنا تجربہ ہو چکا کہ میں جانتا تھا میچ سے تین گھنٹے پہلے اسٹیڈیم پہنچنا آخری لمحات میں جانے سے بہتر ہے،رش میں پھنسنے سے اپنا ہی نقصان ہوتا ہے، لہذا اسی لیے کافی پہلے اسٹیڈیم روانہ ہو گیا۔
حسب توقع راستے کلیئر ملے، ٹیکسی سے اترتے ہی شدید گرمی کا احساس ہوا، باہر نظر دوڑائی تو روایتی پاک بھارت میچز والی گرم جوشی نظر نہ آئی، اس کی وجہ شاید میچ کے آغاز میں خاصا وقت باقی ہونا تھی۔
میڈیا سینٹر میں سینئر صحافیوں عبدالماجد بھٹی اور شاہد ہاشمی سے ملاقات ہوئی، کراچی سے یہی دونوں ایشیا کپ کی کوریج کیلیے آئے ہوئے ہیں،مرحوم صحافی سید محمد صوفی کے حوالے سے بھی گفتگو ہوئی،مجھے کرکٹ میگزین ’’اخبار وطن‘‘ سے ’’ایکسپریس‘‘ میں وہی لے کر آئے تھے، میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔
کچھ دیر میں لاہور کے سینئر صحافی چوہدری اشرف بھی میڈیا باکس میں داخل ہوئے، ان کے ساتھ بھی گپ شپ ہوئی، وسیم اکرم وقفے میں آئے تو ہم دونوں ساتھ نیچے چلے گئے جہاں انھیں دیکھتے ہی مداحوں کی بڑی تعداد آتی رہی۔
وسیم اکرم ایک ہاتھ میں کافی کا گلاس تھامے رہے لیکن سب سے مصافحہ کیا اور سیلفیز بھی بنوائیں، مجھ سے بات چیت کے دوران ان کا یہی کہنا تھا کہ ’’آج کا میچ پاکستان کو جیتنا چاہیے اور کھلاڑی ایسا کر بھی سکتے ہیں‘‘۔
آہستہ آہستہ اسٹیڈیم میں بھی شائقین کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی، دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارتیوں نے بائیکاٹ بائیکاٹ کا شور مچایا لیکن وہی بلو شرٹس پہن کر میچ دیکھنے بھی آئے، ویسے جب تک بھارتی ٹیم اسٹیڈیم نہیں پہنچی ایک غیریقینی سی فضا قائم رہی، سب کو خدشہ تھا کہ کہیں دباؤ میں آ کر آخری لمحات میں ہی بلو شرٹس میچ کھیلنے سے انکار نہ کر دیں، البتہ ایسا نہ ہوا۔
میچ سے قبل دونوں ٹیموں کو ایک ساتھ گراؤنڈ میں پریکٹس کرتے دیکھ کر شائقین نے بھی سکھ کا سانس لیا، دونوں ممالک کی کشیدگی کا کرکٹ پر بھی واضح اثر نظر آیا، چند روز قبل کپتانوں کی میڈیا کانفرنس میں بھارتی کپتان سوریا کمار یادو نے جب سلمان علی آغا اور محسن نقوی سے ہاتھ ملایا تو اپنے ملک میں وہ ولن بن گئے تھے۔
اب دوبارہ ایسی صورتحال سے بچنے کیلیے کپتانوں میں مصافحہ ہی نہیں ہوا، کھیل اقوام کو قریب لاتے ہیں مگر بھارت نے ایسا ماحول بنا دیا ہے کہ اب کشیدگی کا واضح اثر کرکٹ فیلڈ میں ہی نظر آ رہا تھا۔
بھارتی صحافیوں کا رویہ بھی پاکستانی میڈیا کے ساتھ اکھڑا اکھڑا سا تھا، پہلے آپس میں بات چیت ہوتی تھی اس بار دوریاں واضح نظر آئیں، ڈنر کے موقع پر ایک بھارتی صحافی نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ’’پاکستانی ٹیم 40 رنز پر آؤٹ ہو جائے گی‘‘ پھر جب ابتدائی وکٹیں گریں تو وہ بھی عام شائقین کی طرح خوشیاں مناتے نظر آئے۔
دبئی اسٹیڈیم میں عموما میں دائیں جانب کی پہلی نشست پر بیٹھتا ہوں، وہاں ساتھ موجود انکلوڑر ہمیشہ کھچا کھچ بھرا ہوتا ہے مگر آج خاصی دیر تک وہ خالی نظر آیا البتہ تھوڑی دیر میں خاصی دیر تک بھر چکا تھا۔
شائقین نے بائیکاٹ کی باتیں کرنے والوں کا ہی بائیکاٹ کر دیا تھا، پاکستانی شائقین کی تعداد کم تھی لیکن جب بھی اسٹیڈیم میں ’’دل دل پاکستان‘‘ نغمہ بجایا جاتا تو نعروں کی گونج سنائی دیتی۔
میچ میں امپائر بھی دباؤ کا شکار نظر آئے، جیسے ہی کسی پاکستانی بیٹر کے پیڈ پر گیند لگتی وہ انگلی اٹھا دیتے، تین مرتبہ ایل بی ڈبلیو کے فیصلے ریویو پر تبدیل ہوئے ، ہر بار ری پلے سے گیند وکٹوں سے مس ہونے کا پتا چلا۔
صاحبزادہ فرحان کے سوا دیگر پاکستانی بیٹرز کی کارکردگی انتہائی مایوس کن تھی، صائم ایوب کے بارے میں چند روز قبل میں نے ٹویٹ بھی کی تھی کہ وہ ’’اوور ریٹڈ‘‘ کرکٹر ہیں، یقین نہ آئے تو ان کے ریکارڈز دیکھ لیں لیکن شائقین کو وہ سر ڈان بریڈمین لگتے ہیں، مسلسل دوسرے میچ میں انھوں نے پہلی گیند پر وکٹ گنوائی۔
بیٹرز آتے جاتے رہے لیکن صاحبزادہ نے ایک اینڈ محفوظ رکھا، ویسے تو شائقین کو زیادہ توقعات نہیں تھیں لیکن ٹاپ آرڈر بیٹرز جس انداز میں کھیل رہے تھے وہ دیکھنا خاصا مایوس کن تھا، شاید کم پاکستانیوں کے اسٹیڈیم آنے کی ایک وجہ ٹیم کی کارکردگی بھی تھی۔
بابر اعظم کے نہ ہونے سے بھی بہت سے لوگ ناراض ہیں، شاہین کے اختتامی اوورز میں 4 چھکوں نے اسکور بہتر مقام تک پہنچایا گر مضبوط بھارتی بیٹنگ کے سامنے 127 رنز کچھ نہ تھے، بولنگ میں شاید بھارتی شاہین کو نشانہ بنانے کا تہیہ کر کے آئے تھے، انھوں نے آغاز سے ہی جارحانہ انداز اپنایا اور پھر آسانی سے مقابلہ جیت لیا۔
بھارتی مداح اسٹیڈیم میں جشن مناتے رہے جبکہ پاکستانی سر جھکائے مایوسی سے واپس گئے، سب بیٹرز کو بْرا بھلا کہہ رہے تھے، بعض بلند آواز میں یہ کہتے بھی سنائی دیے کہ ’’بابر اعظم ہوتا تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا‘‘۔
اس پر میرے ساتھ موجود ایک صحافی نے کہا کہ ’’ بابر تھا تب کون سا بھارت کو ہرا دیا تھا‘‘ میں نے ان سے کہا کہ آہستہ بولیں ان لوگوں نے سن لیا تو ہار کا غصہ کہیں آپ پر نہ اتار دیں۔
گوکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان خاصے تناؤ کی صورتحال ہے لیکن دبئی میں میچ کا بہترین انداز میں انعقاد ہوا، ایک روز قبل ہی پولیس نے سخت وارننگ جاری کر دی تھی کہ اگر کسی نے قانون کو ہاتھ میں لیا تو جرمانے کے ساتھ سزا کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔
ویسے بھی یہاں قانون سب کیلیے برابر ہے، خلاف ورزی پر کسی کو نہیں چھوڑا جاتا اسی لیے یو اے ای کو دنیا کے محفوظ ترین ممالک میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، پاکستان کی طرح بڑی بڑی گنز تھامے جیسے سیکیورٹی اہلکار تو نظر نہیں آتے لیکن یہاں پولیس کا رعب اتنا ہے کہ کوئی کچھ غلط کرنے کا سوچتا بھی نہیں ہے۔
اسٹیڈیم سے واپس جاتے ہوئے میں یہی سوچ رہا تھا کہ اگر بیٹرز نے ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہوتا اور زیادہ رنز بنا لیتے تو شاید میچ دلچسپ رہتا، پھر یہ سوچ کر دل کو تسلی دی کہ یہ تو محض ایک کھیل تھا اصل فتح تو وہ ہے جو جنگ میں ہمیں حاصل ہوئی، اہمیت بھی اسی کی ہے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)