اسرائیل کا قطر میں فضائی حملہ، حماس کے سینیئر رہنما خلیل الحیہ کو نشانہ بنانے کا دعویٰ
اشاعت کی تاریخ: 9th, September 2025 GMT
اسرائیل نے قطر میں فضائی حملہ کر کے سینئر رہنما خلیل الحیہ کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق اسرائیلی میڈیا نے اعلیٰ اسرائیلی حکام کے حوالے سے بتایا کہ قطر میں حماس کی قیادت پر حملہ کیا گیا ہے، جن میں خلیل الحیہ اور جابرین شامل ہیں۔
اسرائیلی چینل 12 نے ایک اسرائیلی عہدیدار کے حوالے سے بتایا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قطر میں حماس کی قیادت پر حملے کی اجازت دی۔
حماس کے ایک ذرائع نے قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کو بتایا کہ حملے کا نشانہ حماس کی مذاکراتی ٹیم تھی۔
یہ حملہ اُس وقت ہوا جب حماس کے مذاکرات کار امریکا کی جانب سے پیش کی گئی تازہ ترین جنگ بندی کی تجویز پر غور کرنے کے لیے ملاقات کر رہے تھے۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اب تک کسی شہادت یا نقصانات کے حوالے سے معلوم نہیں ہو سکا۔
قطر کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ یہ مجرمانہ حملہ تمام بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے اور قطری شہریوں اور قطر میں مقیم افراد کی سلامتی و تحفظ کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔
ڈاکٹر ماجد الانصاری نے کہا کہ یہ حملہ ایک رہائشی عمارت پر کیا گیا، جہاں حماس کے سیاسی بیورو کے متعدد ارکان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مقیم ہیں۔
قبل ازیں، ’رائٹرز‘ نے عینی شاہدین کے حوالے سے بتایا کہ منگل (9 ستمبر) کو دوحہ میں کئی دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔
امریکی خبر رساں ادارے ایکسیوس کے رپورٹر باراک راوِد نے اسرائیلی حکام کے حوالے سے بتایا کہ دوحہ میں ہونے والا دھماکہ حماس کے عہدیداران پر کیا گیا، ایک عینی شاہد کے مطابق دارالحکومت کے کتارا ڈسٹرکٹ پر دھواں اٹھتے دیکھا گیا۔
اسرائیلی آرمی ریڈیو نے دعویٰ کیا کہ اسرائیل نے قطر میں حماس کے عہدیداران کو نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے۔
وائٹ ہاؤس کی ڈپٹی پریس سیکریٹری اینا کیلی نے الجزیرہ کو بتایا کہ دوحہ میں اسرائیلی حملوں پر امریکی انتظامیہ کی جانب سے کوئی تبصرہ نہیں کیا جا رہا، وہ واضح طور پر اس صورتحال کو دیکھ رہے ہیں کہ یہ کیسے آگے بڑھتی ہے۔
اینا کیلی کے مطابق امریکی صدر غالبا سب سے پہلے اپنے ٹروتھ سوشل پلیٹ فارم پر اس پر تبصرہ کریں گے، اس کے علاوہ، ساڑھے 3 گھنٹے بعد ہماری ایک پریس بریفنگ ہے، جہاں وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولین لیویٹ کو کئی سوالوں کے جوابات دینے کا موقع ملے گا۔
ڈپٹی پریس سیکریٹری نے مزید کہا کہ یہ بات کہ آیا امریکی کمانڈر اِن چیف نے قطر پر اس حملے کی منظوری دی تھی، جہاں امریکا کا فوجی اڈہ بھی موجود ہے، فی الحال قیاس آرائیوں پر مبنی ہے۔
ترجمان ایرانی وزیرِ خارجہ اسمٰعیل بقائی نے قطر پر اسرائیلی حملےکو مجرمانہ، نہایت خطرناک، بین الاقوامی قانون، قطر کی خودمختاری اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔
انہوں نے خبردار کیا کہ فلسطین اور مغربی ایشیا میں صہیونی حکومت کے جرائم پر عالمی برادری کی خاموشی سب کے لیے خطرہ ہے۔
متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے صدر کے سفارتی مشیر نے کہا کہ ہم قطر کے ساتھ کھڑے ہیں اور اس ’غدارانہ‘ اسرائیلی حملے کی پُر زور مذمت کرتے ہیں۔
خبر رساں ادارے ’الجزیرہ‘ کے مطابق دوحہ کو نشانہ بنانے والے اسرائیلی فوجی حملے اس بات کو اجاگر کرتے ہیں کہ خطے میں اسرائیل کی فوجی مہم کس قدر پھیل چکی ہے۔
گزشتہ ہفتوں کے دوران اسرائیل غزہ پر تو مسلسل بمباری کر ہی رہا ہے، ساتھ ہی باقاعدگی سے لبنان، شام اور یمن میں بھی حملے کیے گئے۔
8 ستمبر کو ایک مشتبہ اسرائیلی ڈرون نے تیونس میں لنگر انداز غزہ جانے والے امدادی جہاز کو بھی نشانہ بنایا۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
دوحا پر اسرائیلی حملہ: پاکستان اور کویت کی درخواست پر سلامتی کونسل کا غیر معمولی اجلاس آج
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نیویارک: قطر کے دارالحکومت دوحا پر اسرائیلی فضائی حملے نے عالمی سطح پر ایک نئے تنازع کو جنم دیا ہے اور اب اس معاملے پر اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل آج جنیوا میں ہنگامی اجلاس منعقد کر رہی ہے۔
یہ اجلاس پاکستان اور کویت کی مشترکہ درخواست پر بلایا گیا ہے تاکہ اسرائیلی جارحیت اور اس کے نتیجے میں انسانی جانوں کے ضیاع پر بحث کی جا سکے۔ یہ اقدام اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مسلم دنیا اسرائیل کی بڑھتی ہوئی جارحیت کے مقابلے میں سفارتی محاذ پر متحرک ہے۔
اجلاس میں دوحا پر کیے گئے حملے کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اسرائیل کی کارروائیوں اور جنگی جارحیت پر بحث کی جائے گی۔
دوسری جانب اسرائیل نے اس اجلاس کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے فیصلے عالمی انسانی حقوق کے ڈھانچے کو متاثر کریں گے۔۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی اسرائیل عالمی اداروں کے فیصلوں کو مسترد کرتا رہا ہے تاکہ اپنی جنگی پالیسیوں کو جاری رکھ سکے۔
یاد رہے کہ 9 ستمبر کو اسرائیل نے دوحا میں ایک خفیہ اجلاس کو نشانہ بنایا تھا، جہاں حماس کی قیادت غزہ میں ممکنہ جنگ بندی اور امریکی صدر کی تجویز پر غور کر رہی تھی۔
حملے کے نتیجے میں 6 افراد شہید ہوئے تاہم حماس کے مرکزی رہنما محفوظ رہے۔ فلسطینی ذرائع کے مطابق اس حملے کا مقصد صرف قیادت کو ختم کرنا نہیں بلکہ قطر جیسے ملک کو بھی دباؤ میں لانا تھا جو مسلسل فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔
پاکستان اور کویت کی جانب سے اٹھایا گیا یہ قدم اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلم ممالک اب اسرائیلی مظالم کو عالمی پلیٹ فارم پر بے نقاب کرنے کے لیے متحد ہو رہے ہیں۔ عرب دنیا کے کئی ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس حملے کی شدید مذمت کر چکی ہیں اور اسے نہ صرف قطر کی خودمختاری پر حملہ بلکہ فلسطینی عوام کے حق خودارادیت کے خلاف ایک کھلا وار قرار دے رہی ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ اجلاس عالمی ضمیر کا امتحان بھی ہے۔ اگر انسانی حقوق کونسل اسرائیلی جارحیت کے خلاف مؤثر مؤقف اختیار کرتی ہے تو یہ فلسطینی عوام کی حمایت کےلیے ایک بڑی اخلاقی جیت ہوگی۔ بصورت دیگر دنیا پر یہ تاثر مزید گہرا ہو جائے گا کہ بین الاقوامی ادارے طاقتور ریاستوں کے آگے بے بس ہیں۔
اس اجلاس کے فیصلے آئندہ خطے کی سیاسی صورتِ حال پر گہرے اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔