مصیبت ہمیشہ غریبوں پر ہی کیوں آتی ہے؟ آخر پورا پنجاب سیلاب کی نذر کیوں ہو گیا؟ طبقہ امراء مزے سے اپنے گھروں میں بیٹھے ٹی وی پر سیلاب کے مناظر دیکھ رہے ہیں، لیکن توبہ پھر بھی نہیں کرتے، سیلابی ریلوں نے بستیوں کی بستیاں اجاڑ دیں، آبی گزرگاہوں پر سوسائٹیز اور تعمیرات کی وجہ سے پانی کی نکاسی کا کوئی متبادل انتظام نہیں ۔ خواجہ آصف کہہ رہے ہیں کہ ’’ چھوٹے ڈیم بنائے جائیں، کہیں بڑے ڈیم کے انتظار میں سب کچھ نہ لٹ جائے۔‘‘ فصلیں تباہ ہو گئیں، لوگ بے گھر ہو گئے، جانور بہہ گئے، انسان لاپتہ ہو گئے، سکھر بیراج میں بھی ناقص میٹریل کے استعمال کا پتا چلا ہے جس سے سکھر بیراج کے متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔
سندھ میں بھی سپر فلڈ کا خطرہ ہے۔ ملک سیلابی صورت حال سے گزر رہا ہے اور ہمارے حکمران بیرون ملک دوروں میں مصروف ہیں۔ میں جب ٹیلی وژن پر سیلابی ریلوں سے بستیاں اجڑتے دیکھتی ہوں تو مجھ سے برداشت نہیں ہوتا، میں چینل بدل دیتی ہوں اور سوچتی ہوں کہ جب میں یہ عذاب ناک نظارہ برداشت نہیں کرسکتی تو جو لوگ اس سیلاب میں بے گھر ہوئے ہیں ان پر کیا بیت رہی ہوگی۔ وہ کون ہیں۔
جنھوں نے راوی پر بستیاں بنا ڈالیں، خود تو کما کر گھروں میں بیٹھ گئے اور وہ جنھوں نے بے سوچے سمجھے وہاں رہائش شروع کر دی، انھوں نے کیوں نہیں سوچا کہ اگر دریا بپھر گیا تو کیا ہوگا، وہ کون ہیں جنھوں نے راوی کی زمین پر بستیاں بنانے کی اجازت دے دی؟ اس ملک میں پیسہ دے کر سب کچھ ہو جاتا ہے، خواہ پنجاب ہو، کے پی ہو یا کراچی۔ نالوں پر فلیٹ اور مکان بن گئے ہیں، کراچی تو ویسے بھی ساحل سمندر سے نیچے ہے، کئی بار ایسا ہوا ہے کہ ہولناک بارشوں میں لوگوں نے اپنے اپنے گھر چھوڑ دیے۔ سمندر اور دریاؤں کے کنارے ہوٹل بن گئے، ریزورٹ بن گئے، کوئی پوچھنے والا نہیں،کوئی سزاوار نہیں، پیسہ پھینک تماشا دیکھ والا معاملہ ہے۔
دریائے ستلج اور راوی پھر بے قابو ہوگئے، آبی ریلا بستیوں میں داخل ہو رہا ہے۔ ستمبر میں اونچے درجے کے سیلاب کی خبریں آ رہی ہیں۔ ملتان، مظفر گڑھ، قصور، اوکاڑہ ہر جگہ پانی ہی پانی ہے۔ شور و غوغا بہت ہو رہا ہے، اخبارات میں تصویریں بھی چھپ رہی ہیں، لیکن غریبوں کو ویسی امداد نہیں مل رہی جس کے وہ مستحق ہیں، میرا پیارا پنجاب ڈوب رہا ہے، حکمرانوں کے غیر ملکی دورے ختم نہیں ہو رہے، ہر سال سیلاب آتا ہے، بستیاں ڈوبتی ہیں، لوگ مرتے ہیں، بے گھر ہوتے ہیں، جو ایک بار اجڑ گیا وہ پھر نہ بسا، پنجاب کا زیادہ تر علاقہ زرعی ہے، سیلاب نے فصلیں تباہ کر دی ہیں، مہنگائی کا طوفان برسوں سے
آیا ہوا ہے، لیکن اس بار جو فصلیں تباہ ہوئی ہیں اس کے بعد مہنگائی کا ایک اور طوفان اس ملک کو اپنی لپیٹ میں لینے والا ہے۔
جن مناظر کو ہم آنکھیں کھول کے دیکھ نہیں سکتے، ہماری آنکھیں بھیگ جاتی ہیں، تو وہ جو اس عذاب سے دوچار ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں ان کے دکھ اور مصیبت پر صرف رونا آ رہا ہے، ہر شخص یہ مناظر دیکھ کر دعا گو ہے کہ اے پروردگار تُو اپنے بندوں پر رحم فرما، دریاؤں کو بپھرنے سے روک دے، قحط سالی کا خطرہ الگ ہے۔ کرنا کرانا کچھ نہیں بس اپنی غلطیوں کا تدارک کرنے کے بجائے سارا ملبہ بھارت پر ڈال دو۔
سیلاب سے وہاں بھی لوگ مرے ہیں لیکن انھوں نے اپنی غلطیوں کو سدھارا ہے، 19 اگست کو جب پورے ملک میں قیامت خیز بارش ہوئی تھی تو ممبئی میں بھی طوفان باد و باراں سے ہلاکتیں ہوئیں، لیکن ممبئی کی انتظامیہ نے گزشتہ سالوں کی بارش سے سبق سیکھا اور آبی گزرگاہیں کھول دیں، لیکن ہمارے ہاں صرف بیان بازی ہوتی ہے، اگر کہیں بھارت میں پٹاخہ پھٹے گا تو ذمے دار پاکستان، یہی حال ہمارا ہے۔ ہم نے اپنی نااہلی چھپائی، ڈیمز نہیں بنائے، منگلا ڈیم اور تربیلا ڈیم کی صفائی نہیں ہوتی کہ معاملہ کمیشن کا ہے۔ کمیشن کے بغیر اب ہمیں قبریں بھی نہیں ملتیں، لیکن سارے سیلاب کا ذمے دار بھارت کو قرار دے دیا کہ بھارت نے ڈیموں میں پانی چھوڑ دیا اس لیے سیلاب آگیا، بہت خوب!
آخر یہ کب تک چلے گا؟ بربادی دونوں طرف عام آدمی کی ہے، اگر دونوں ممالک میں امن و آشتی قائم ہو جائے تو دونوں ملکوں میں تجارت بڑھے گی، روزگار بڑھے گا لیکن دونوں طرف کی حکومتوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جن کا حلوہ مانڈا دشمنی پر چلتا ہے۔
پاکستان میں آدھی سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے، البتہ گفتگو کا موضوع زیادہ تر غریب ہی ہوتے ہیں الیکشن کے زمانے میں بھی غریب ہی سے ووٹ مانگا جاتا ہے۔ جب کہ غریب تو ووٹ دینے کی پوزیشن میں ہوتا ہی نہیں ہے، وہاں تو جاگیردار، زمیندار، سرمایہ دار اور اشرافیہ کے کہنے پر کسی مخصوص نشان پر ٹھپہ لگانا ہوتا ہے۔ غریب جانتے ہیں کہ اگر انھوں نے وڈیروں کی بات نہ مانی تو ان کا حقہ پانی بند ہو جائے گا، یہی حال بھارت کا ہے۔دونوں ملکوں کو خدا جانے کیوں جنگ سے دلچسپی ہے۔ ملک و قوم کا کسی کو خیال نہیں۔ جنگوں سے کبھی ملکوں کو کچھ نہیں ملتا، اب وہ جنگیں نہیں ہوتیں لیکن اسلحہ بنانے والے ممالک چاہتے ہیں کہ جنگیں ہوں اور ان کا اسلحہ بکے۔
خدا کے لیے حکمرانوں اپنے ملک کی خیر لو، وطن کی فکر کرو، جنھوں نے راوی کنارے بستیاں آباد کیں انھیں سزا دو، جنھوں نے نالوں پر مکان بنوائے انھیں قانون کے مطابق سزا دو۔ آج تمام ملک خصوصاً پنجاب جس عذاب کا شکار ہے، اس سے کیونکر نکلا جائے گا؟ یہاں بس سب کو کرسی چاہیے، بیرونی دورے چاہئیں اور بس انسان مر رہے ہیں تو مرتے رہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جنھوں نے میں بھی رہے ہیں نہیں ہو رہا ہے
پڑھیں:
سیاسی مجبوریوں کے باعث اتحادیوں کو برداشت کر رہے ہیں، عظمیٰ بخاری
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250917-01-9
لاہور (آن لائن) وزیر اطلاعات و ثقافت پنجاب عظمیٰ بخاری نے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی پریس کانفرنس کو غیر سنجیدہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سیاسی بیروزگاری کا رونا رونے کے لیے پی ٹی آئی ہی کافی تھی، پیپلز پارٹی کو اس بیانیے میں شامل ہونے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔عظمیٰ بخاری نے کہا کہ پنجاب اس وقت ملکی تاریخ کے سب سے بڑے سیلاب کا سامنا کر رہا ہے، وزیر اعلیٰ مریم نواز اور پنجاب کی انتظامیہ دن رات سیلاب متاثرین کی بحالی اور ریلیف میں مصروف ہیں۔ الحمدللہ پنجاب حکومت اپنے وسائل سے متاثرین کی ہر ممکن مدد فراہم کر رہی ہے اور وفاق یا کسی دوسری تنظیم سے کسی قسم کی امداد کی طرف نہیں دیکھا۔انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمارا فوکس صرف عوامی خدمت ہے، اسی لیے ہم سیاسی تلخیوں کو اتحادی سمجھ کر برداشت کر رہے ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ پیپلز پارٹی کے جعلی فلسفے اور ناکام تھیوریاں سنیں۔وزیر اطلاعات پنجاب نے کہا کہ منظور چودھری اور حسن مرتضیٰ اپنے دکھ اور فلسفے بلاول اور مراد علی شاہ کو سنائیں۔ سندھ میں سیلاب سے کوئی بڑا جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا، اس کے باوجود پیپلز پارٹی وفاق کو بیرون ملک امداد لینے پر مجبور کر رہی ہے جو غیر سنجیدہ رویہ ہے۔