انتقامی سیاست کا سلسلہ کب تک؟
اشاعت کی تاریخ: 11th, September 2025 GMT
1985میں جنرل ضیاء الحق نے ملک میں غیر جماعتی انتخابات کرائے تھے جس کا پیپلز پارٹی نے بائیکاٹ کیا تھا جب کہ پاکستان مسلم لیگ قائم کرا کر محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم منتخب کرایا گیا تھا، جس میں ملک کی اپوزیشن بھی مضبوط تھی۔
محمد خان جونیجو اوائلی مسلم لیگی تھے جن کا تعلق پیر پگاڑا کی مسلم لیگ سے تھا اور پیر صاحب نے ہی جنرل ضیا الحق کو الٰہی بخش سومرو کے بجائے محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم بنانے کا مشورہ دیا تھا جو اچھی شہرت کے مالک سینیٹر سیاستدان اور وزیر ریلوے رہے تھے اور پیرپگاڑو ان پر مکمل اعتماد رکھتے تھے جنھوں نے اپنی تقریباً ڈھائی سال کی حکومت میں کسی سے بھی سیاسی انتقام نہیں لیا تھا وہ جمہوری آدمی تھے اور ان کی ترجیح ملک کو مارشل لا سے نجات دلانا اور ملک میں جمہوریت کا فروغ تھا۔
جب 1986میں پی پی کی جلاوطن چیئرمین بے نظیر بھٹو نے ملک واپس آنے کا اعلان کیا تو پنجاب میں نواز شریف وزیر اعلیٰ تھے جو جنرل ضیا کے قریب تھے اور وزیر اعظم جونیجو نے بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی پر لاہور میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالنے کا فیصلہ کیا تھا اور پیپلز پارٹی کو اپنے رہنما کے استقبال کی تیاریوں کی مکمل آزادی دی تھی جس کے نتیجے میں لاہور میں بے نظیر بھٹو کا تاریخی استقبال ہوا تھا جس سے سنا گیا تھا کہ جنرل ضیا الحق خوش نہیں تھے اور بے نظیر نے اپنے لاہور میں تاریخی جلوس کے بعد ملک بھر میں جلسے جلوس کیے تھے اور وزیر اعظم کی ہدایت پر بے نظیر بھٹو کے ملک گیر جلسے جلوسوں پر کوئی حکومتی رکاوٹ نہیں ڈالی گئی تھی کیونکہ وزیر اعظم خود جمہوریت کے فروخت کے حامی تھے ان کا بے نظیر سے کوئی جھگڑا نہیں تھا۔ وہ حکومت کی مخالف ضرور تھیں اور وزیر اعظم بھی انھیں اپنا سیاسی مخالف سمجھتے تھے جن کے دل میں بے نظیر اور پیپلز پارٹی کے خلاف کسی بھی قسم کی سیاسی عداوت، بدلے یا انتقام کا کوئی عنصر نہیں تھا اسی وجہ سے انھوں نے بے نظیر بھٹو کو مکمل آزادی دی تھی۔
ملک میں پہلی بار بے نظیر بھٹو کی حکومت 1988 میں اور نواز شریف حکومت 1990 میں بنی اور دونوں نے 1999 تک دو، دو بار حکومتیں کیں اور احتساب اور سیاسی انتقام کے لیے دونوں نے سیاسی بدلوں،سیاسی انتقام ایک دوسرے کے خلاف جھوٹے مقدمات اور پارٹی رہنماؤں کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری رکھا اور ایک دوسرے کی حکومت ختم کرانے کے لیے جلسے جلوس کیے جس کی وجہ سے دونوں میں کوئی بھی حکومت مدت پوری نہ کر سکا اور دونوں نے 58-2/B کے اختیارات کے حامل صدور سے ایک دوسرے کی حکومتیں ختم کرائیں اور ایک دوسرے سے بدلے اور بھرپور سیاسی انتقام لیا اور مخالف حکومتیں ختم کرا کر خوشیاں منائیں جس سے جمہوریت کمزور اور سیاسی انتقام نے فروغ پایا۔
1999میں جنرل پرویز نے نواز شریف کو ہٹا کر اقتدار سنبھالا تو بے نظیر بھٹو نے برطرفی کا خیر مقدم کیا تھا مگر جنرل مشرف نے بے نظیر بھٹو کی سیاسی مدد لینے کے بجائے دونوں سابق وزرائے اعظم کو اپنے انتقام کا نشانہ بنانا شروع کیا دونوں پرکرپشن اور دیگر مقدمات بنوائے اور دونوں جلا وطن رہے اور اپنی سیاسی غلطیوں کا اعتراف کرکے لندن میں جنرل پرویز کے خلاف میثاق جمہوریت کرنے اور اقتدار ملنے کی صورت میں ایک دوسرے کی مخالفت، بدلے اور انتقام نہ لینے کا عہد کیا جس پر جنرل پرویز کے جانے پر عمل بھی کیا جس کے نتیجے میں 2008 میں پیپلز پارٹی اور 2013 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں نے پہلی بار اپنی اپنی 5 سالہ مدت اقتدار پوری کی۔
2008 سے 2018 تک صدر آصف زرداری اور وزیر اعظم نے بعض شکایات کے باوجود آپس میں پہلی بار اچھے تعلقات قائم رکھے اور پہلی بار صدر زرداری کی صدارت پوری ہونے پر ایوان وزیر اعظم میں صدر زرداری کو الوداعی ظہرانہ دے کر ایک اچھی روایت قائم کی گئی تھی۔
دونوں حکمران پارٹیوں کے تعلقات ختم کرانے کی منصوبہ بندی 2011 میں پی ٹی آئی کو متبادل کے طور پر شروع ہو گئی تھی۔ 2013 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت بنی تو چیئرمین پی ٹی آئی نے 2014 میں اس کے خلاف بالاتروں کی پشت پناہی سے اسلام آباد میں 126 دنوں کا دھرنا دے کر (ن) لیگی حکومت ختم کرانے کی سازش کی تھی جسے دونوں پارٹیوں نے متحد ہو کر ناکام بنایا تھا اور پہلی بار عدلیہ نے دونوں پارٹیوں کے وزرائے اعظم نااہل کیے تھے اور 2011 سے شروع ہونے والے نیا وزیر اعظم لانے کا تجربہ 2018 میں کامیاب بنا کر چیئرمین پی ٹی آئی کو اقتدار میں لایا گیا جس نے دونوں سابق حکمرانوں اور ان کی پارٹیوں کے خلاف نفرت اور انتقام کی سیاست عروج پر پہنچائی تھی اور سیاسی انتقام کا بدترین ریکارڈ قائم کیا تھا۔ 2022 میں (ن) لیگ اور پی پی نے آئینی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے چیئرمین پی ٹی آئی کا اقتدار ختم کرایا تھا۔
اب بانی اور ان کی پارٹی پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ دونوں حکمران پارٹیوں نے انھیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا ہوا ہے جس پر پی ٹی آئی مخالف کہہ رہے ہیں کہ یہ مکافات عمل ہے اور چیئرمین پی ٹی آئی حکومت نے جو بویا وہی کاٹ رہے ہیں جنھوں نے اپنے تمام سیاسی مخالفین کو جھوٹے مقدمات میں گرفتار کرایا تھا اور دونوں پارٹیوں کے رہنماؤں سے بدترین سیاسی انتقام لیا تھا تو اب پی ٹی آئی بھی برداشت کرے۔حکمران پارٹیوں کا کہنا ہے کہ ہم انتقام نہیں لے رہے انھیں ان کے جرائم پر سزائیں عدالتیں دے رہی ہیں حکومت نہیں ، پی ٹی آئی بھی اپنی حکومت میں یہی کچھ کر چکی ہے۔ بدلے اور انتقام کو تسلیم نہ کیا جائے مگر یہ سب کچھ ماضی میں بھی ہوا تھا اور اب بھی ہو رہا ہے اور مخالفین پر عرصہ حیات تنگ کرنے والی پی ٹی آئی اب وہی کچھ بھگت رہی ہے جو اس کے مخالفین نے بھگتا تو اب شور کیوں مچایا جا رہا ہے؟
سیاست میں انتقام عروج پر پہنچ چکا جس کا ملک کو فائدہ نہیں اب تینوں بڑی پارٹیوں کو آپس میں بیٹھ کر اس کا حل نکالنا ہوگا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: چیئرمین پی ٹی ا ئی اور وزیر اعظم سیاسی انتقام بے نظیر بھٹو پیپلز پارٹی پارٹیوں کے ایک دوسرے اور دونوں انتقام کا پی ٹی آئی کی حکومت مسلم لیگ پہلی بار کے خلاف تھا اور تھے اور کیا تھا اور پی اور ان
پڑھیں:
پاکستان، سعودی عرب اسٹریٹجک دفاعی معاہدہ خوش آئند ہے، احسن اقبال
اسلام آباد:وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی پروفیسر احسن اقبال نے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان طے پانے والے اسٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدے کو خوش آئند اور دونوں برادر ممالک کے مابین تعلقات میں ایک تاریخی پیش رفت قرار دیا ہے۔
انہوں نے وزیر اعظم محمد شہباز شریف اور سعودی قیادت کو اس اہم اور تاریخی معاہدے پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ دفاعی شراکت داری پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دیرینہ برادرانہ تعلقات کو نئی جہت دے گی۔
احسن اقبال نے کہا کہ پاک سعودی اسٹریٹجک دفاعی معاہدہ دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک نئے باب کا آغاز ہے۔ سعودی عرب ہمیشہ پاکستان کا مخلص دوست اور قابل اعتماد شراکت دار رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ معاہدہ نہ صرف دفاعی میدان میں دونوں ممالک کے درمیان تعاون کو فروغ دے گا بلکہ خطے کے امن، استحکام اور ترقی میں بھی کلیدی کردار ادا کرے گا۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے عوام کے دل ایک دوسرے کے لیے محبت اور احترام سے بھرے ہوئے ہیں، خاص طور پر پاکستانی قوم مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے لیے والہانہ عقیدت اور غیر متزلزل احترام رکھتی ہے۔
احسن اقبال نے کہا کہ پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے معرکۂ حق میں دشمن کو بدترین شکست دی۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ اسٹریٹجک معاہدہ نہ صرف عسکری میدان میں بلکہ معیشت، ٹیکنالوجی اور دیگر شعبہ جات میں بھی دوطرفہ تعاون کو وسعت دے گا۔