وزن کی وجہ سے شدید ذہنی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا، سلینا گومز
اشاعت کی تاریخ: 11th, September 2025 GMT
معروف امریکی گلوکارہ اور اداکارہ سلینا گومز کا کہنا ہے کہ انہیں ساری زندگی وزن کے مسائل کا سامنا رہا ہے جس کی وجہ سے وہ ذہنی دباؤ میں بھی مبتلا رہی ہیں۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق ایک حالیہ انٹرویو میں 33 سالہ گلوکارہ سلینا گومز نے اعتراف کیا کہ ’میں نے اپنی زندگی میں وزن کے بہت سے مسائل کا سامنا کیا ہے، اور یہ وہ چیز ہے جس کے لیے میں بہت حساس ہوں‘۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ وہ کئی بیماریوں میں مبتلا رہی ہیں اور علاج کے دوران اکثر دواؤں کی وجہ سے ان کا وزن تیزی سے بڑھ جاتا ہے اور جب ان کا علاج ختم ہوتا ہے اور دوائیں بند ہوجاتی ہیں تو واپس وزن گھٹنے لگتا ہے۔
گلوکارہ کا کہنا تھا کہ جب کوئی انہیں باڈی شیمنگ کرتا تھا تو وہ بےحد افسردہ ہوجاتی تھیں کیونکہ وہ کئی سالوں سے اس مسئلے سے گزر رہی ہیں اور اس چیز کو لے کر بےحد حساس ہیں۔
2023 میں ایک ٹک ٹاک لائیو میں بھی سلینا نے بتایا تھا کہ انہیں 2014 میں لیوپس (ایک ایسی بیماری جس میں جسم کا مدافعتی نظام اپنے ہی ٹشوز اور اعضاء پر حملہ کرتا ہے) کی تشخیص ہوئی تھی اور بعد میں ان کی کیموتھراپی ہوئی جس دوران ان کا وزن بڑھا جبکہ ان کے گردے کی پیوند کاری بھی ہوئی اور انہیں ایک مرتبہ پھر وزن بڑھ جانے کی وجہ سے باڈی شیمنگ کا سامنا کرنا پڑا۔
یاد رہے کہ سلینا گومز نے 2022 میں باڈی شیمنگ سے تنگ آکر مداحوں کو یہ بھی یاد دلایا تھا کہ وہ ’ماڈل نہیں ہیں‘ اور یہ اعلان کیا تھا کہ وہ جیسی ہیں بلکل ٹھیک ہیں‘۔ سلینا گومز نے صحت کو ترجیح دینے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا، ’میری دوائیں اہم ہیں، اور مجھے یقین ہے کہ وہی میری مدد کرتی ہیں۔‘
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سلینا گومز کی وجہ سے کا سامنا تھا کہ
پڑھیں:
پاکستان میں ذہنی امراض بڑھ گئے، گزشتہ سال 1 ہزار افراد کی خودکشی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی(مانیٹرنگ ڈیسک)ذہنی امراض کے حوالے سے ہونے والی ایک کانفرنس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں 10 فی صد افراد منشیات کی لت میں مبتلا ہیں۔ گزشتہ سال مختلف ذہنی دباؤ کی وجہ سے تقریباً ایک ہزار افراد نے خودکشی کی۔کراچی میں ذہنی امراض کے حوالے سے 26ویں بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد ہوا۔کانفرنس کے سائنٹیفک کمیٹی کے چیئرمین پروفیسر محمد اقبال آفریدی نے بتایا کہ پاکستان میں ہر تین ہزار افراد (34 فی صد) میں سے ایک فرد جبکہ دنیا بھر میں 5 میں سے ایک فردکسی نہ کسی نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں خواتین میں ڈپریشن کے مسائل بہت زیادہ سامنے آرہے ہیں، اس کی بنیادی وجہ خواتین کو وہ مقام نہیں مل رہا جو انکو ملنا چاہیے۔ گھریلو چپقلش کی وجہ سے خواتین شدید ڈپریشن اور انزائیٹی کا شکار رہتی ہے جبکہ نوجوان نسل میں آئس جسے دیگر نشہ آور چیزوں کے استعمال کی وجہ سے ذہنی امراض میں اضافہ ہورہا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں تواتر کے ساتھ زلزے سیلابی صورتحال کی وجہ سے ہزاروں گھر بہہ جانے اور ملک میں دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے بھی عوام پر ذہنوں پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں جو نفسیاتی بیماریوں کے زمرے میں آتے ہیں۔پاکستان سائیکیٹری سوسائٹی کے صدر پروفیسر واجد علی اخوندزادہ نے بتایا کہ پاکستان میں ہر چار میں سے ایک نوجوان جبکہ ہر پانچ میں سے ایک بچہ کسی نہ کسی نفسیاتی بیماریکا شکار ہے۔ پاکستان میں ایک فی صد (25 لاکھ) افراد کسی نہ کسی ذہنی بیماری میں مبتلا ہے اور یہ 25 لاکھ خاندان ہیں وہ ہیں جو معاشی، سیاسی، سیلابی سمیت دیگر وجوہات کی وجہ سے نفسیاتی مسائل کا شکار ہوئے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں 10 فی صد افراد منشیات کی لت میں مبتلا ہیں اور گزشتہ سال مختلف ذہنی دباؤ کی وجہ سے تقریباًایک ہزار افراد نے خودکشی کی۔انہوں نے مزید بتایا کہ ملک میں نفسیاتی امراض پر کافی کام کرنے کی ضرورت ہے، ملک کی 24 کروڑ آبادی کے لیے صرف 90 نفسیاتی امراض کے ماہرین موجود ہیں جبکہ عالمی ادارے صحت کے مطابق 10 ہزار پر ایک نفسیاتی ڈاکٹر ہوناچاہیے۔ اس وقت ہمارے ملک میں تقریباً 5 لاکھ 500 مریض پر ایک نفسیاتی ڈاکٹر کی سہولت ہے جو ناکافی ہے۔کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر افضال جاوید سمیت دیگر ماہرین کا کہنا تھا کہ پاکستان معاشی ناہمواریوں، قدرتی آفات اور مختلف ڈیزاسٹر، بے روزگاری کا شکار ہیں جبکہ سرحدوں پر جنگی صورتحال نے بھی عوام کے ذہنوں میں مختلف نفسیاتی مسائل پیدا کررکھے ہیں خاص کر نوجوان نسل موجود صورتحال کی وجہ سے مایوس نظر آتی ہے۔ان ماہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے ان تمام صورتحال کا جائزہ لے کر موثر حکمت عملی اپنائی جائے تاکہ ملک کا نوجوان ان ذہنی مسائل سے نکل سکے۔