اک اور سیلاب کا سامنا ہے منیر مجھ کو
اشاعت کی تاریخ: 14th, September 2025 GMT
پانی کا سیلاب تو اپنی جگہ۔اور جن کو ان سیلابوں کا شکار ہونا تھا، ہوگئے اور ہوتے رہیں گے کہ ’’نشیبوں‘‘ میں رہنے والے ہمیشہ سیلابوں کی زد میں رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں پشتو کا ایک گیت بھی ہے کہ
نرے باران دے پاس پہ لوڑو ئے وروینہ
ژورے’’ کرمے‘‘ تہ نصیب راوڑے یمہ
ترجمہ(بارشیں اوپر پہاڑوں پر برس رہی ہیں لیکن میرا نصیب مجھے گہرے نشیب’’کرمہ‘‘ میں لایا ہے)کرم کرمہ پاڑہ چینار کا مقامی نام ہے جو نشیب میں ہے اور ہمیشہ پہاڑوں سے آنے والوں کی زد میں رہتا ہے۔
اب اس مسئلے کا حل یا سوال کا جواب کسی کے پاس بھی نہیں ہے کہ کچھ لوگ’’نشیب‘‘ میں کیوں رہتے ہیں یا رہنے پر مجبور ہیں یا ہوتے ہیں۔ ایک بڑا مشہور اور خوب صورت شعر فارسی کا یوں ہے۔
درمیان قعر دریا تختہ بندم کردہ ای
باز می گوئی کہ دامن تر مکن ہوشیار باش
ترجمہ(دریا کے بیچ میں تم نے مجھ کو تختے کے ساتھ باندھ لیا ہے اور پھر کہتے ہو کہ خبردار دامن تر نہ ہونے پائے۔)خیر یہ تو بہت ہی پرانا قصہ ہے کہ کچھ لوگ نشیب میں کیوں ہوتے ہیں اور کچھ فراز میں کیوں؟ یہ اونچ نیچ تو ہمیشہ سے ہے اور رہے گی۔
جب شہر کے لوگ نہ رستہ دیں کیوں بن میں نہ جابسرام کریں
دیوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانہ کیا؟
لیکن یہ جو سیلاب کے ساتھ ایک اور’’سیلاب‘‘ آیا ہے۔یا جو آسمانی سیلاب کے ساتھ انسانی بلکہ بیانی اور زبانی سیلاب آیا ہے، اسے کون روکے گا۔اصل سیلاب تو ایک روز چند روز کی آفت ہے اور کچھ علاقوں تک محدود ہے لیکن یہ انسانی،بیانی یا زبانی سیلاب نہ جانے کب تک چلے گا۔
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
اس انسانی بیانی اور زبانی سیلاب کی شدت اور ہمہ گیری کا اندازہ اس سے لگائیں کہ وزیر،مشیر،معاون،ترجمان وغیرہ یعنی سارے بیان دے چکے ہیں، یکجہتی کا اظہار کرچکے ہیں، عام لوگ بھی اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں، چشم گل چشم نے بھی سیلاب زدگان کے ساتھ یکجہتی کا اعلان کیا ہے۔
علامہ بریانی نے تو سیلاب زدگان کی امداد کے لیے چندے کی مہم بھی لانچ کردی ہے۔ اس انسانی، بیانی، زبانی سیلاب کی شدت کا پتہ اس سے چل جاتا ہے کہ ’’انھوں‘‘ نے بھی’’مشکل گھڑی‘‘ میں قوم سے متحد ہونے کی اپیل کی ہے۔ اب ہمیں یہ معلوم نہیں کہ یہ’’قوم‘‘ کون ہے اور’’متحد‘‘ کیسے ہوگی لیکن جذبہ بے اختیار شوق دیکھا چاہیے۔
چندے، ہمدردی، یکجہتی کا یہ سیلاب اخباروں میں کچھ اس شدت سے آیا ہے کہ ہر طرف جل تھل ہوگیا ہے۔ بیان یہ بیان ،بیان،بیان، حساب کتاب اور ناپ تول کا علم ہمیں نہیں آتا ورنہ بتادیتے۔
کہ کہاں کہاں پر نچلے درجے کا ، کہاں کہاں پر درمیانے درجے کا اور کہاں پر بلند ترین درجے کا سیلاب ہے ۔ان تمام بیانات کے سیلاب اس شدت سے بہہ رہے ہیں کہ ہمیں ڈر ہے کہ کہیں اخبارات کے بقیہ صفحات تک اس میں غرق نہ ہوجائیں۔
ایسے تیراک بھی دیکھے ہیں مظفر ہم نے
غرق ہونے کے لیے بھی جو سہارا چاہیں
یک جہتی اور ساتھ ہونے کے علاوہ جو خبر سب سے زیادہ’’بہہ‘‘ رہی ہے، وہ سیلاب زدگان کی بجالی اور امداد ہے۔ان بیانوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈوبنے والوں کی ابھی لاشیں بھی نہیں نکالی گئی ہیں کہ امدادی چیک ان کے ہاتھوں میں پکڑائے گئے۔
یہاں پر ایک لطیفہ دُم ہلانے لگا ہے۔کہتے ہیں کہ امریکا میں کسی جگہ بیمہ کمپنیوں کے ایجنٹ بیٹھے اپنی اپنی کمپنیوں کی تعریف کررہے تھے کہ ہم کتنی تیزی سے متاثرین کا کلیم دا کرتے ہیں، سب نے اپنی اپنی سنائی تو ایک ایجنٹ نے کہا کہ ہماری کمپنی اتنی تیز ہے کہ گزشتہ دنوں ہمارا ایک کلائنٹ بلڈنگ کی پندرویں منزل سے گرا تو پانچویں منزل پر ہماری کمپنی نے جب وہ کھڑکی سے گزر رہا تھا کلیم کا چیک اس کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔
ہمارے بیانات کے سیلاب نے بھی کہا ہے کہ بعض مقامات پر سیلاب ابھی پہنچا بھی تھا کہ ہماری صوبائی حکومت نے معاوضے کے چیک ان کے لواحقین کے حوالے کردیے، ساتھ ہی پلاسٹک کے تھیلوں میں دوسرے سامان کے ساتھ یک جہتی کے تھیلے بھی تقسیم کیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: زبانی سیلاب سیلاب ا کے ساتھ ہیں کہ ہے اور
پڑھیں:
اسرائیل کو عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی تنہائی کا سامنا ہے .نیتن یاہو کا اعتراف
بیت المقدس(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔16 ستمبر ۔2025 )اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے اعتراف کیا کہ اسرائیل کو عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی تنہائی کا سامنا ہے اور اسے آنے والے سالوں میں مزید خود انحصار بننا پڑے گا” ٹائمز آف اسرائیل“ کے مطابق بیت المقدس میں اسرائیلی وزارت خزانہ کے اکاﺅنٹنٹ جنرل کی ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نتن یاہو نے تسلیم کیا کہ اسرائیل ایک طرح سے تنہائی کا شکار ہے.(جاری ہے)
نیتن یاہو نے کہا کہ غزہ پر حملوں کے بعد سے اسرائیل کو دو نئے خطرات کا سامنا ہے جن میں مسلم اکثریتی ممالک سے ہجرت کے نتیجے میں یورپ میں آبادیاتی تبدیلیاں اور نئی ٹیکنالوجیز کی مدد سے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر اسرائیل کے مخالفین کا اثر و رسوخ میں اضافہ شامل ہیں ان کے خیال میں یہ چیلنجز طویل عرصے سے کار فرما تھے، لیکن سات اکتوبر 2023 کو جنوبی اسرائیل میں حماس کے حملوں سے شروع ہونے والی جاری جنگ کے دوران سامنے آئے. نتن یاہو نے یورپ میں آبادیاتی تبدیلیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہاں لامحدود ہجرت کے نتیجے میں مسلمان ایک اہم اقلیت اورپر اثر آواز رکھنے والے بہت زیادہ جارحانہ رویہ اختیار کرنے والے بن گئے ہیں. انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان ممالک کے مسلمان شہری یورپی حکومتوں پر اسرائیل مخالف پالیسیاں اپنانے کے لیے دباﺅ ڈال رہے ہیں اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا کہ مسلمانوں کا مرکز غزہ نہیں بلکہ یہ عام طور پر صہیونیت کی مخالفت کر رہے ہیں اور بعض اوقات ایک اسلام پسند ایجنڈا ہے جو ان ریاستوں کو چیلنج کرتا ہے . ان کا کہنا تھا کہ یہ اسرائیل پر پابندیاں اور ہر طرح کی پابندیاں پیدا کر رہا ہے یہ ہو رہا ہے یہ ایک ایسا عمل ہے جو گذشتہ 30 سالوں سے کام کر رہا ہے اور خاص طور پر پچھلی دہائی میں اور اس سے اسرائیل کی بین الاقوامی صورتحال بدل رہی ہے. ‘نتن یاہو نے متنبہ کیا کہ صورت حال ہتھیاروں پر پابندیوں کا باعث بن سکتی ہے حالانکہ یہ ابھی کے لیے صرف خدشات ہیں، معاشی پابندیوں کا آغاز بھی ہو سکتا ہے نتن یاہو کے مطابق دوسرا چیلنج اسرائیل کے حریفوں، جن میں این جی اوز اور قطر اور چین جیسی ریاستوں کی سرمایہ کاری ہے انہوں نے کہا کہ بوٹس، مصنوعی ذہانت اور اشتہارات کا استعمال کرتے ہوئے مغربی میڈیا کو اسرائیل مخالف ایجنڈے سے متاثر کیا جا رہا ہے اس سلسلے میں انہوں نے ٹک ٹاک کی مثال دی. یادرہے کہ سات ستمبر 2023 سے غزہ میں شروع ہونے والی اسرائیلی جارحیت کے دوران اسرائیل فلسطینی علاقے کے کئی حصوں پر فضائی اور زمینی حملے کر چکا ہے، جن میں 64 ہزار سے زیادہ اموات ہوئی ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کے محاصرے کی وجہ سے وہاں جلد ہی قحط جیسی صورت حال کا سامنا ہو سکتا ہے اسرائیلی جارحیت کی وجہ سے بعض یورپی ممالک نے نہ صرف تل ابیب کے حملوں کی مذمت کی ہے بلکہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا بھی اعلان کیا ہے.