اسرائیل کی اقوام متحدہ میں شکست
اشاعت کی تاریخ: 14th, September 2025 GMT
قطر پر اسرائیل کے حملے کی عالمی سطح پر مذمت کی جا رہی ہے، اسی دوران اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی اسرائیل کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے گزشتہ روز مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کی قرارداد بھاری اکثریت سے منظور کرلی ہے۔
یہ قرارداد 142 ووٹوں کی اکثریت کے ساتھ منظور کی گئی ہے، اسرائیل اور امریکا سمیت 10 ممالک نے اس قرارداد کی مخالفت میں ووٹ ڈالے جب کہ 12 ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ قرارداد میں حماس کی مذمت کی گئی ہے اور اس گروپ سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔
اس قرارداد کو نیو یارک ڈیکلریشن قرار دیا گیا ہے، یہ قرارداد اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دو ریاستی حل کو نئی زندگی دینے کی کوشش ہے، اس قرارداد کی ایک اہم بات یہ ہے کہ اس میں حماس کا کوئی کردار شامل نہیں ہوگا۔
قرارداد کے متن میں کہا گیا کہ حماس کو تمام یرغمالیوں کو آزاد کرنا ہوگا اور جنرل اسمبلی 7 اکتوبر کو عام شہریوں پر حماس کے حملوں کی مذمت کرتی ہے۔ غزہ جنگ کے خاتمے کے تناظر میں، حماس کو غزہ پر اپنی حکمرانی ختم اور ہتھیار فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرنے ہوں گے۔
مزید کہا گیا کہ غزہ جنگ کے خاتمے اور اسرائیل فلسطین تنازع کے منصفانہ، پرامن اور پائیدار حل کے لیے اجتماعی اقدام ناگزیر ہے، جو دو ریاستی حل کے مؤثر نفاذ پر مبنی ہو۔
اس اعلامیہ کی پہلے ہی عرب لیگ توثیق کرچکی ہے اور جولائی میں 17 رکن ممالک (جن میں کئی عرب ممالک بھی شامل ہیں) نے اس پر دستخط کیے تھے۔ نیو یارک ڈیکلریشن میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ غزہ کی تباہ حال صورتحال میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے مینڈیٹ کے تحت ایک عارضی بین الاقوامی استحکامی مشن تعینات کیا جائے تاکہ فلسطینی شہری آبادی کی مدد کی جا سکے اور سیکیورٹی کی ذمے داریاں فلسطینی اتھارٹی کو منتقل کی جا سکیں۔
یاد رہے کہ یہ ووٹنگ اقوامِ متحدہ کے آیندہ اجلاس سے پہلے ہوئی ہے جو 22 ستمبر کو سعودی عرب اور فرانس کی مشترکہ میزبانی میں نیویارک میں منعقد ہوگا، اس اجلاس کے فرانسیسی صدر سمیت کئی عالمی رہنما فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اپنے ارادے کا اعلان کرچکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے تقریبا تین چوتھائی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرچکے ہیں۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد اسرائیل کی شکست کے مترادف ہے۔ ادھر پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیل کو کرارا جواب دیتے ہوئے اسے غاصب ریاست اورقطر پر حملے کو غیر قانونی، بلا اشتعال اور خطے کے استحکام کے لیے خطرہ قرار دے دیا۔
پاکستان نے کہا ہے کہ قطر پر اسرائیل کا حملہ انسانی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ قطر پر اسرائیلی حملے پر بحث کے لیے بلائے گئے سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں اسرائیلی نمایندے کی طرف سے اسامہ بن لادن کے حوالے سے پاکستان کا ذکر کرنے پر فوری جواب دیتے ہوئے پاکستانی مستقل مندوب نے کہا کہ اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی ایکشن اور قطر پر اسرائیلی حملے کا موازنہ ناقابل قبول اور بے ہودہ ہے،اس عمل سے اسرائیل اپنی غیر قانونی کارروائیوں اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں سے توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اسرائیل غاصب ریاست ہے جو اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کا مسلسل خلاف ورزی کر رہا ہے جو عالمی برادری، انسانی حقوق کی تنظیموں اور خود اقوام متحدہ کو بھی دھمکاتا ہے اور یہ سب کچھ استثنیٰ کے ساتھ کرتا ہے۔
حملہ آور ہونے کے باوجود یہ خود کو مظلوم ظاہر کرتا ہے مگر آج یہ مکمل طور پر بے نقاب ہو چکا ہے۔ انھوں نے کہا پاکستان کے دہشت گردی کے خلاف کردارسے بین الاقوامی برادری بخوبی واقف ہے ، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔
القاعدہ بڑی حد تک پاکستان کی انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں کے باعث ختم ہوئی۔ انھوں نے اسرائیلی حملے کو اقوام متحدہ کے چارٹر بالخصوص آرٹیکل 2(4) کی خلاف ورزی بھی قرار دیا کسی ریاست کی علاقائی سالمیت یا سیاسی آزادی کے خلاف طاقت کے استعمال یا اس کی دھمکی کو ممنوع قرار دیتا ہے۔
پاکستانی سفیر نے خبردار کیا کہ یہ حملہ اسرائیل کی اس پالیسی کا حصہ ہے جو غزہ، شام، لبنان، ایران اور یمن میں سرحد پار کارروائیوں کی ایک طویل تاریخ رکھتی ہے۔ انھوں نے یاد دہانی کرائی کہ سلامتی کونسل نے اسی روز ایک بیان میں دوحہ پر حملوں کی متفقہ مذمت کی تھی۔
پاکستانی مندوب نے قطر کے مصر اور امریکا کے ساتھ مل کر غزہ جنگ بندی کے مذاکرات میں کلیدی کردار کو بھی سراہا ۔ قطر کے وزیراعظم محمد بن عبدالرحمٰن بن جاسم الثانی نے اپنے خطاب میں دوحہ پر اسرائیلی حملے کی شدید مذمت کی اور کہا کہ یہ حملہ ان رہائشی کمپاؤنڈز پر کیا گیا۔
یہ اقوام متحدہ کے رکن ملک کی خودمختاری کی خلاف ورزی ہے۔ خون کے پیاسے انتہا پسندوں کے زیرقیادت اسرائیل نے ہر حد پار کر لی ہے۔ کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ کوئی ریاست اس طرح ثالث کو نشانہ بنائے؟۔ انھوں نے کہا امریکا نے کبھی دوحہ میں مذاکرات کرنے والے طالبان پر حملہ نہیں کیا۔
انھوں نے خبردار کیا کہ اسرائیل کی کارروائیاں خطے کو عدم استحکام کی طرف لے جا رہی ہیں۔ہم امن کے خواہاں ہیں، جنگ کے نہیں۔ ہم جنگ اور تباہی کے نعرے لگانے والوں سے مرعوب نہیں ہوں گے۔
اقوام متحدہ کی سیاسی و امن سازی کی انڈر سیکریٹری جنرل روزمیری ڈیکارلو نے کہا قطر سمیت امن کے قیام اور تنازعات کے حل میں اہم شراکت دارکا کردار اداکرنے والے کسی بھی ملک کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام ہونا چاہیے۔چین کے مندوب نے کہا کہ اسرائیلی حملے نے جاری سفارت کاری کو متاثر کیا ہے۔
خصوصاً جب امریکا نے 7 ستمبر کو جنگ بندی کی تجویز پیش کی تھی جسے اسرائیل نے قبول کیا۔ محض دو دن بعد اس تجویز پر بات چیت کرنے والی حماس کی ٹیم کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ بد نیتی، غیر ذمے داری اور دانستہ طور پر مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کا عمل ہے جو قابلِ مذمت ہے۔
امریکی مندوب ڈوروتھی شیا نے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ نے قطری وزیراعظم کویقین دلایا ہے کہ اسرائیلی حملے جیسا اقدام دوبارہ نہیں ہوگا۔ ٹرمپ غزہ سے تمام یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
قطر کے اندر یکطرفہ بمباری اسرائیل یا واشنگٹن کے مفاد میں نہیں ہے۔ فرانس نے اسرائیلی حملے کو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی قرار دیا۔ برطانیہ نے کہا کہ یہ حملہ امن اور اسرائیل کی طویل مدتی سلامتی کے خلاف ہے۔ الجزائر اور صومالیہ نے اسرائیل کی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا کہ وہ مزید عدم استحکام کو روکنے کے لیے اقدامات کرے۔
پاکستان کے ترجمان دفتر خارجہ نے ہفتہ وار بریفنگ میں کہا ہے کہ قطر پر اسرائیلی حملہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ پاکستانی قوم برادر ملک قطر کے ساتھ کھڑی ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا پاکستان غزہ میں اسرائیلی مظالم کی مذمت کرتا ہے۔
پاکستان تنازع فلسطین کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق چاہتا ہے۔ ترجمان نے کہا اسرائیل کی جانب سے ثالث ملک قطر کو نشانہ بنانا امن مذاکرات سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے۔ پاکستان اور قطر ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ ہر مشکل وقت میں کھڑے رہے ہیں۔
وزارت خارجہ کے ترجمان نے مزید کہا کہ خودمختار ریاستوں پر اسرائیل کے بار بار حملے تشویشناک ہیں اور اسی پس منظر میں عرب اسلامک سمٹ کا اجلاس دوحہ میں بلایا گیا ہے۔ پاکستان مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر کڑی نگاہ رکھے ہوئے ہے اور اپنے دفاع کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔
ادھر اسرائیلی فوج نے غزہ میں سفاکیت کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے ایک ہی خاندان کے14 افراد سمیت 59 فلسطینیوں کو شہید کر دیا۔ متحدہ عرب امارات میں اسرائیلی سفیر کو طلب کیا گیا اور قطر کی علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی پر احتجاج ریکارڈ کرایا۔ متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو دبئی ایئر شو میں شرکت سے بھی روک دیا۔
اسرائیل مسلسل دنیا کے آزاد اور خودمختار ممالک کے اقتدارِ اعلیٰ کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ اس حوالے سے امریکا کا کردار اس کے شایانِ شان نہیں رہا۔ امریکی انتظامیہ نے قطر پر حملے کے حوالے سے بھی انتہائی کمزور مؤقف پیش کیا ہے۔
یہ مؤقف ایسا ہے جو اسرائیل کی مذمت کم اور اس کی حوصلہ افزائی زیادہ کرتا ہے۔ اس وقت روس، چین اور یورپی یونین کو آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا ہو گا جب کہ مسلم ممالک کو بھی دوٹوک انداز میں آگے بڑھنا ہو گا تاکہ اسرائیل مزید اس قسم کی کارروائی کی ہمت نہ کر سکے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ کی قطر پر اسرائیل اسرائیلی حملے سلامتی کونسل بین الاقوامی کی خلاف ورزی پر اسرائیلی میں اسرائیل جنرل اسمبلی اسرائیل کی نے اسرائیل کہ اسرائیل نے کہا کہ متحدہ کے انھوں نے کے خلاف کرتا ہے مذمت کی کے ساتھ کی مذمت اور اس قطر کے گیا ہے کے لیے حملہ ا ہے اور
پڑھیں:
اقوام متحدہ، یورپی یونین، اوآئی سی سے کشمیری حریت رہنمائوں کی رہائی کو یقینی بنانے کا مطالبہ
کل جماعتی حریت کانفرنس کی آزاد جموں و کشمیر شاخ کے کنوینر غلام محمد صفی نے اسلام آباد سے جاری ایک بیان میں کہا کہ ان رہنمائوں کا واحد جرم اپنے لوگوں کے ناقابل تنسیخ اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حق خودارادیت کا مطالبہ ہے۔ اسلام ٹائمز۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کی آزاد جموں و کشمیر شاخ نے کئی دہائیوں سے بھارتی جیلوں میں کشمیری حریت رہنمائوں اور کارکنوں کی طویل اور غیر انسانی نظربندی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے غیر انسانی سلوک کو انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق کل جماعتی حریت کانفرنس کی آزاد جموں و کشمیر شاخ کے کنوینر غلام محمد صفی نے اسلام آباد سے جاری ایک بیان میں کہا کہ ان رہنمائوں کا واحد جرم اپنے لوگوں کے ناقابل تنسیخ اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حق خودارادیت کا مطالبہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت 77 سال قبل خود تنازعہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے گیا تھا اور عالمی برادری کے سامنے یہ وعدہ کیا تھا کہ جموں و کشمیر کے عوام کو آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کے ذریعے اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے سرینگر میں اعلان کیا تھا کہ علاقے میں بھارت کی فوجی موجودگی عارضی ہے اور امن بحال ہونے کے بعد یہ ختم ہو جائے گی جس کے بعد کشمیریوں کو استصواب رائے کے ذریعے اپنی تقدیر کا تعین کرنے کی اجازت ہو گی۔
غلام محمد صفی نے افسوس کا اظہار کیا کہ بھارت نہ صرف اپنے بین الاقوامی وعدوں سے منحرف ہو گیا بلکہ ان وعدوں کو یاد دلانے والے کشمیری رہنمائوں کو بھی من گھڑت الزامات کے تحت سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ تر نظربند رہنما سنگین بیماریوں میں مبتلا ہیں اور انہیں طبی علاج سے بھی محروم رکھا جا رہا ہے، یہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق چارٹر اور نیلسن منڈیلا رولز کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ، یورپی یونین، اسلامی تعاون تنظیم اور انسانی حقوق کی تمام بین الاقوامی تنظیموں پر زور دیا کہ وہ تمام نظربند حریت رہنمائوں اور کارکنوں کی رہائی اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں سیاسی جبر اور استحصال کے خاتمے کے لیے بھارت پر دبائو ڈالیں اور کشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت دلانے کے لئے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔
غلام محمد صفی نے کہا کہ اپنے حق کا مطالبہ کرنا کوئی جرم نہیں ہے، یہ ایک بنیادی حق ہے جس کی ضمانت اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی کنونشنز میں دی گئی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اقوام متحدہ اور بڑی طاقتوں کی مسلسل خاموشی سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں ظلم و جبر کو تیز کرنے کے لئے بھارت کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے جس سے جنوبی ایشیاء سمیت دنیا کے امن و استحکام کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر محض علاقائی تنازعہ نہیں بلکہ یہ حق خودارادیت، انصاف، انسانی وقار اور عالمی امن کا سوال ہے، دنیا کب تک خاموش تماشائی بنے گی؟ حریت رہنما نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ نظربند کشمیری رہنمائوں اور کارکنوں کی رہائی کے لیے فوری اقدامات کرے اور تنازعہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرانے میں اپنا کردار ادا کرے۔