مشرق وسطیٰ کی سلامتی اور اسرائیلی خطرات : پاکستان کی ایٹمی قوت کا نیا کردار
اشاعت کی تاریخ: 20th, September 2025 GMT
عالمی میڈیا کی ایک حالیہ رپورٹ نے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان طے پانے والے اسٹریٹجک دفاعی معاہدے کو غیر معمولی اہمیت کا حامل قرار دیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اگرچہ معاہدے کی باضابطہ دستاویزات میں براہِ راست ایٹمی ہتھیاروں کا ذکر نہیں کیا گیا، مگر اس کے اثرات کو دیکھتے ہوئے یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ ریاض نے اسلام آباد کے ساتھ مل کر ایک طرح کا “ایٹمی تحفظ” حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔
خطے میں اسرائیل کی بڑھتی ہوئی جارحیت اور ایران کے ایٹمی پروگرام کے خدشات کے پیشِ نظر یہ معاہدہ کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔
گزشتہ دنوں وزیراعظم شہباز شریف اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے ریاض میں جس دفاعی معاہدے پر دستخط کیے، اس کے تحت یہ طے پایا کہ کسی ایک ملک پر حملہ، دونوں پر حملہ تصور ہوگا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس شق نے خطے کے طاقت کے توازن کو تبدیل کردیا ہے۔ سعودی عرب کے مالی وسائل اور پاکستان کی عسکری صلاحیت بالخصوص اس کی ایٹمی حیثیت کو دیکھتے ہوئے یہ شراکت داری مشرق وسطیٰ میں نئی نوعیت کا دفاعی اتحاد بن سکتی ہے۔
دریں اثنا وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے وضاحت کی ہے کہ معاہدے میں ایٹمی ہتھیار شامل نہیں، تاہم اگر خطے کو خطرات لاحق ہوئے تو یہ معاہدہ پوری طرح فعال ہوگا۔
دوسری طرف سعودی حکام اس معاہدے کو جامع اور ہر قسم کی عسکری صلاحیت کا احاطہ کرنے والا قرار دیتے ہیں۔ یہی پہلو عالمی میڈیا کو اس نتیجے تک لے آیا کہ ریاض اس اتحاد کو ایک قسم کے “ایٹمی ڈھال” کے طور پر دیکھ رہا ہے۔
عرب دنیا میں اسرائیل کے حالیہ اقدامات خصوصاً قطر پر حملے کے بعد، عدم تحفظ کی فضا مزید بڑھ گئی ہے۔ سعودی عرب کھلے عام یہ خدشہ ظاہر کر چکا ہے کہ اگر ایران نے ایٹمی قوت حاصل کی تو وہ بھی خاموش نہیں بیٹھے گا۔ ایسے میں پاکستان، جو دنیا کا واحد مسلم ایٹمی ملک ہے، اس پورے منظرنامے میں مرکزی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔
واشنگٹن اور تل ابیب نے فی الحال اس پر کوئی باضابطہ ردعمل نہیں دیا، لیکن مبصرین کے مطابق یہ پیش رفت امریکا کی کمزور ہوتی ہوئی خطے میں موجودگی کو مزید نمایاں کرتی ہے۔
پاکستان ہمیشہ یہ مؤقف اختیار کرتا آیا ہے کہ اس کا ایٹمی پروگرام صرف بھارت کے خلاف دفاعی توازن کے لیے ہے، لیکن عالمی تجزیہ کار اس امکان کو رد نہیں کرتے کہ موجودہ اتحاد خطے میں ایٹمی پہلوؤں کو غیر اعلانیہ طور پر شامل کر سکتا ہے۔
اُدھر بھارت اور ایران میں بھی اس معاہدے پر تشویش پائی جاتی ہے۔ بھارت کے لیے یہ اتحاد نئی سفارتی مشکلات پیدا کر سکتا ہے جب کہ ایران اسے سعودی عرب کی طرف سے ایک نئی صف بندی کے طور پر دیکھ رہا ہے۔
یہ معاہدہ بلاشبہ خطے کے اسٹریٹجک منظرنامے کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مستقبل میں یہ اتحاد صرف عسکری تعاون تک محدود رہتا ہے یا ایٹمی تحفظ کا عملی ڈھانچہ اختیار کرتا ہے، اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا۔ فی الحال پاکستان اور سعودی عرب نے اپنے تعلقات کو ایک نئی سطح پر پہنچا دیا ہے جس کے اثرات مشرق وسطیٰ کی سلامتی، عالمی طاقتوں کے مفادات اور اسرائیلی عزائم پر گہرے پڑیں گے۔
.ذریعہ: Al Qamar Online
پڑھیں:
حماس نے غزہ امن معاہدے کے تحت مزید 3 قیدیوں کی لاشیں اسرائیل کے حوالے کر دیں
حماس اس سے قبل 17 قیدیوں کی لاشیں اسرائیل کے حوالے کرچکی ہیں اور اب تک مجموعی طور پر 20 لاشیں اسرائیلی حکام کے سپرد کی جا چکی ہیں۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ حماس کے پاس اب بھی 8 قیدیوں کی لاشیں موجود ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس نے غزہ امن معاہدے پر عمل درآمد کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے مزید 3 قیدیوں کی لاشیں اسرائیل کے حوالے کر دیں۔ اسرائیلی فوج نے ریڈ کراس سے قیدیوں کی لاشیں موصول ہونے کی تصدیق کر دی۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق لاشوں کو شناخت کے عمل کے لیے تل ابیب کے ابوکبیر فرانزک انسٹی ٹیوٹ منتقل کر دیا گیا۔ حماس اس سے قبل 17 قیدیوں کی لاشیں اسرائیل کے حوالے کرچکی ہیں اور اب تک مجموعی طور پر 20 لاشیں اسرائیلی حکام کے سپرد کی جا چکی ہیں۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ حماس کے پاس اب بھی 8 قیدیوں کی لاشیں موجود ہیں۔