جنوبی پنجاب میں لوگوں کے وارننگ سنجیدہ نہ لینے پر زیادہ نقصان ہوا: سربراہ پی ڈی ایم اے WhatsAppFacebookTwitter 0 20 September, 2025 سب نیوز

لاہور(آئی پی ایس )قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے پنجاب ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل عرفان علی کاٹھیا نے حالیہ سیلاب کو 1956 کے بعد سب سے بڑا سیلاب قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس دوران تمام اداروں نے مل کر کام کیا تاہم جنوبی پنجاب میں زیادہ نقصان اس لیے ہوا کہ وہاں لوگوں نے انتظامیہ کی وارننگ کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ایک انٹرویو میں پی ڈی ایم اے کے ڈائریکٹر جنرل عرفان علی کاٹھیا نے بتایا کہ اس سال 1956 کے بعد سب سے بڑا سیلاب آیا ہے، پنجاب کے تین دریا ستلج، چناب اور راوی میں ایک ہی وقت گنجائش سے زیادہ پانی سے نمٹنا بہت مشکل کام تھا۔

عرفان علی کاٹھیا نے بتایا کہ سب سے زیادہ نقصان دریائے چناب میں ہیڈ قادرآباد کے مقام پر ہوا جہاں پانی کی سطح ساڑھے دس لاکھ کیوسک سے زائد ہوئی جبکہ وہاں پانی گزرنے کی گنجائش نو لاکھ کیوسک ہے۔ راوی میں ہیڈ سدھنائی کے مقام پر گنجائش ڈیڑھ لاکھ ہے جبکہ پانی دو لاکھ کیوسک سے بھی زیادہ آ گیا، پھر ستلج میں پانی کی سطح ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ رہی جس سے گنڈا پور میں کئی دن تک سطح خطرناک حد تک رہی۔

پی ڈی ایم اے سربراہ کے مطابق اس بار سیلاب نے زیادہ تباہی اس لیے مچائی کہ دریائے چناب میں پانی کی سطح کئی دن بلند رہی، اس دریا میں راوی سدھنائی سے شامل ہوتا ہے جبکہ ستلج جلالپور پیروالہ کے مقام پر اس میں شامل ہوتا ہے، ان دونوں دریاں کا پانی چناب میں سطح بلند ہونے پر آگے جا نہیں سکا بلکہ چناب کا پانی واپس ان دریاں میں آ گیا، جس سے کئی مقامات پر شگاف ڈال کر ہیڈ ورکس بچانا پڑے۔

عرفان کاٹھیا نے کہا کہ سیلاب کی دوسری بڑی وجہ آبی گزرگاہوں پر تعمیرات تھیں، جس سے پانی کا رستہ رکنے پر آبادیاں زیرآب آئیں، بالائی پنجاب کی نسبت جنوبی پنجاب میں سیلاب سے زیادہ نقصان اس لیے ہوا کہ وہاں لوگوں نے انتظامیہ کی وارننگ کو سنجیدہ نہیں لیا، جب سیلاب آیا تو پھر لوگوں کو ریسکیو کرنے کا دبا انتظامیہ پر بہت بڑھ گیا، اس کے باوجود لوگوں کو محفوظ مقامات پر ایمرجنسی میں ہی منتقل کر دیا گیا۔

واضح رہے کہ اعداد و شمار کے مطابق پنجاب میں سیلاب سے 47 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں، سیلاب زدہ علاقوں سے مجموعی طور پر 22 لاکھ افراد کو محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا، اس دوران تین لاکھ کچے جبکہ 83 ہزار پکے مکانات کو نقصان پہنچا ہے، مجموعی طور پر پنجاب کے کل 27 اضلاع میں سیلاب آیا، البتہ کہیں کم اور کہیں زیادہ نقصان ہوا ہے۔وزیراعلی پنجاب مریم نواز نے سیلاب متاثرین کے نقصان کے ازالے کے لیے ریلیف پیکج کا اعلان کیا ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرصدر ٹرمپ کا اکتوبر میں جنوبی کوریا میں چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات اور اگلے برس چین کے دورے کا اعلان صدر ٹرمپ کا اکتوبر میں جنوبی کوریا میں چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات اور اگلے برس چین کے دورے کا اعلان یورپی ممالک کے متعدد ایئرپورٹ سائبر حملے کی زد میں آ گئے کئی پروازیں منسوخ یا تاخیر کا شکار ہو گئیں جتھوں کے زور پر مطالبات مانوں گا اور نہ ہی اسمبلی توڑوں گا، وزیراعظم کشمیر افغان طالبان نے بگرام ایئربیس امریکا کو دینے کا ٹرمپ کا خیال مسترد کر دیا چمن بارڈر کے راستے افغان پناہ گزینوں کی واپسی کا عمل دوبارہ شروع ہوگیا خدیجہ شاہ نے 9 مئی جلاؤ گھیراؤ کے مقدمے میں 5 سال قید کی سزا کو چیلنج کردیا TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: زیادہ نقصان پی ڈی ایم اے کاٹھیا نے سے زیادہ

پڑھیں:

عالمی پانی کا نظام غیر مستحکم ہوگیا ، سیلاب اور خشک سالی کے خطرات میں مسلسل اضافہ ہورہاہے . عالمی موسمیاتی ادارہ

اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔19 ستمبر ۔2025 )عالمی موسمیاتی ادارے (ڈبلیو ایم او) کہا ہے کہ دنیا کے پانی کا نظام غیر مستحکم ہو گیا ہے اور سیلاب اور خشک سالی کے خطرات مسلسل بڑھ رہے ہیں رپورٹ کے مطابق عالمی موسمیاتی ادارے نے بتایا ہے کہ پانی کا نظام اب تیزی سے غیر مستحکم اور شدید ہوگیا ہے، جس کے باعث پانی کے بہاﺅ میں اتار چڑھا ﺅآرہا ہے اور کبھی سیلاب، کبھی خشک سالی دیکھنے کو مل رہی ہے.

(جاری ہے)

ڈبلیو ایم او کی رپورٹ میں زیادہ یا کم پانی کے لوگوں کی زندگی اور معیشت پر پڑنے والے اثرات کو بیان کیا گیا ہے 2024 میں دنیا کے صرف ایک تہائی دریاﺅں کے علاقے عام حالات میں تھے، جب کہ باقی علاقے یا تو زیادہ پانی یا کم پانی والے تھے اور یہ مسلسل چھٹے سال ہے کہ پانی کے نظام میں توازن نہیں رہا سال 2024 مسلسل تیسرے سال کے لئے گلیشیئر کے بڑے پیمانے پر پگھلنے کا سال تھا، کئی چھوٹے گلیشیئر والے علاقے پہلے ہی یا جلد اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں گلیشیئر اپنا زیادہ سے زیادہ پانی بہا چکا ہوتا ہے اور اس کے بعد گلیشیئر کے سکڑنے کی وجہ سے پانی کا بہا ﺅکم ہونا شروع ہو جاتا ہے 1990 کی دہائی سے تقریبا ہر جگہ گلیشیئر پگھلنے لگے ہیں اور 2000 کے بعد یہ عمل اور بھی تیز ہو گیا ہے، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ گرمیوں میں برف زیادہ پگھل رہی ہے اور سردیوں میں نئی برف جمع ہونے کی شرح کم ہے، 2024 میں گلیشیئر نے 450 گیگا ٹن پانی کھویا، جو دنیا کے سمندر کی سطح میں 1.2 ملی میٹر اضافے کے برابر ہے.

ڈبلیو ایم او کی سیکرٹری جنرل سیلسٹ سالو نے کہا کہ پانی ہمارے معاشرے کی زندگی کے لیے ضروری ہے، یہ ہماری معیشت چلانے میں مدد دیتا ہے اور ماحولیاتی نظام کو برقرار رکھتا ہے، لیکن دنیا کے پانی کے وسائل پر دبا بڑھ رہا ہے اور پانی سے جڑے شدید خطرات لوگوں کی زندگی اور روزگار پر زیادہ اثر ڈال رہے ہیں اقوام متحدہ کے واٹر کے مطابق تقریبا 3 ارب 6 کروڑ افراد سال میں کم از کم ایک مہینے کے لیے صاف پانی تک نہیں پہنچ پاتے اور توقع ہے کہ 2050 تک یہ تعداد 5 ارب سے زیادہ ہو جائے گی، دنیا پانی اور صفائی کے حوالے سے مقررہ ترقیاتی ہدف 6 سے کافی پیچھے ہے.

رپورٹ کے مطابق گزشتہ چھ سالوں میں دنیا کے صرف ایک تہائی دریاں کے علاقوں میں پانی کا بہا عام حالات کے مطابق رہا، جب کہ باقی دو تہائی علاقوں میں پانی یا تو زیادہ تھا یا کم، جو پانی کے نظام کے بڑھتے ہوئے غیر مستحکم ہونے کو ظاہر کرتا ہے 2024 میں دنیا کے تقریبا 60 فیصد علاقوں میں دریا کا پانی عام حالت سے مختلف تھا، گزشتہ چھ سالوں میں بھی دنیا کے صرف ایک تہائی علاقوں میں پانی کا بہا معمول کے مطابق رہا 2024 میں وسطی اور شمالی یورپ اور ایشیا کے کچھ علاقوں، جیسے قازقستان اور روس کے دریاﺅں میں پانی کا بہا ﺅ معمول سے زیادہ یا بہت زیادہ رہا اہم دریاں جیسے ڈینوب، گنگا، گوداوری اور سندھ میں پانی کی سطح معمول سے زیادہ تھی، زیر زمین پانی کی سطح جانچنے کے لیے 47 ممالک کے 37 ہزار 406 اسٹیشنز کا ڈیٹا استعمال کیا گیا.

زیر زمین پانی کی سطح مقامی علاقوں میں مختلف ہوتی ہے کیونکہ زمین کے اندر پانی کے ذخائر اور انسانی سرگرمیاں، جیسے پمپنگ اثر ڈالتی ہیں، لیکن بڑے علاقوں میں کچھ واضح رجحانات دیکھے گئے 2024 میں مطالعہ کیے گئے اسٹیشنز میں سے 38 فیصد میں پانی کی سطح معمول کے مطابق تھی، 25 فیصد میں کم یا بہت کم تھی اور 37 فیصد میں زیادہ یا بہت زیادہ تھی تاریخی جائزے کے مطابق دنیا کے تقریبا 30 فیصد علاقے میں خشک حالات تھے، 30 فیصد میں حالات معمول کے مطابق تھے اور باقی 30 فیصد میں پانی زیادہ تھا 2024 میں خشک علاقوں کا رقبہ 2023 کے مقابلے میں کم ہو گیا، جب کہ پانی زیادہ والے علاقوں کا رقبہ تقریبا دوگنا بڑھ گیا. 

متعلقہ مضامین

  • جائزہ مذاکرات: وزیراعظم نے آئی ایم ایف سے زیادہ سے زیادہ ریلیف لینے کی ہدایت کر دی
  • عالمی پانی کا نظام غیر مستحکم ہوگیا ، سیلاب اور خشک سالی کے خطرات میں مسلسل اضافہ ہورہاہے . عالمی موسمیاتی ادارہ
  • آج سے مون سون کا سیزن ختم ہو گیا ہے: ڈی جی پی ڈی ایم اے
  • پیپلزپارٹی کا پنجاب میں زرعی ایمرجنسی نافذ کرنے اور عالمی برادری سے مدد لینے کا مطالبہ
  • پاکستان میں بارشوں اور سیلاب کے باعث 60 لاکھ افراد متاثر ،25لاکھ بے گھر ہوگئے، عالمی برادری امداد فراہم کرے.اقوام متحدہ کی اپیل
  • وزیراعلی پنجاب مریم نواز جنوبی پنجاب کے ایم پی ایز سے کیوں ناراض ہیں؟
  • گڈو اور سکھر بیراج پر اونچے درجے کا سیلاب‘ متاثرین کی تعداد ایک لاکھ 81 ہزار سے متجاوز
  • سیلاب زدگان کی فوری امداد
  • پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں میں’ شدید انسانی بحران’ ہے، عالمی برادری امداد فراہم کرے، اقوام متحدہ