data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اترپردیش: بھارت کی ریاست اترپردیش میں ہندوتوا کے جنونیوں نے ایک اور المناک واقعہ رقم کردیا، علی گڑھ کے گاؤں لکھن پور میں مقامی مسجد کے امام محمد مصطفیٰ کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور مردہ سمجھ کر پھینک دیا گیا،  اس واقعے نے ایک بار پھر بھارت میں مسلمانوں کے خلاف بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کو عیاں کردیا ہے۔

عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق حملہ آوروں نے امام مسجد پر دباؤ ڈالا کہ وہ “جے شری رام” کے نعرے لگائیں، جب امام مسجد نے انکار کیا تو ایک درجن سے زائد شدت پسندوں نے ان پر ٹوٹ پڑے، حملہ آوروں نے ان کی داڑھی نوچی، ٹوپی اتاری اور لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے نصف گھنٹے تک بے رحمی سے مار پیٹ کی، جب امام مسجد کی حالت غیر ہوگئی تو انہیں مردہ سمجھ کر دفنانے کی کوشش کی گئی، علاقے کے مسلمان بڑی تعداد میں موقع پر پہنچ گئے جس پر حملہ آور انہیں پھینک کر فرار ہوگئے۔

شدید زخمی حالت میں امام مسجد کو اسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں زیر علاج ہیں اور ان کی حالت نازک بتائی جارہی ہے، واقعے کے بعد پولیس نے حسب روایت تاخیری حربے استعمال کرتے ہوئے اسے محض ’’نجی جھگڑا‘‘ قرار دینے کی کوشش کی، عوامی احتجاج کے بعد مذہبی منافرت کو تسلیم کرتے ہوئے مقدمہ درج کیا گیا۔

خیال ر ہے کہ یہ واقعہ کوئی انفرادی عمل نہیں بلکہ اس بات کا تسلسل ہے جو مودی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد بھارت میں تیزی سے بڑھا ہے،  مسلمانوں پر حملے، مساجد کی بے حرمتی، مذہبی علامات کی توہین اور سماجی بائیکاٹ معمول بنتے جا رہے ہیں۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کا نظریہ ہندوتوا کے غلبے کو فروغ دیتا ہے، جس نے بھارت کی سیکولر شناخت کو شدید خطرات سے دوچار کردیا ہے۔

بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں پہلے ہی خبردار کرچکی ہیں کہ بھارت میں مذہبی اقلیتیں بالخصوص مسلمان بدترین حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ علی گڑھ کے امام مسجد پر حملہ اس بات کا ایک اور ثبوت ہے کہ اگر عالمی سطح پر اس انتہا پسندی کے خلاف آواز نہ اٹھائی گئی تو نہ صرف بھارت کی جمہوری اور سیکولر شناخت ختم ہو جائے گی بلکہ پورے خطے کا امن خطرے میں پڑ جائے گا۔

ویب ڈیسک وہاج فاروقی.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

سرکاری ملازم پر تشدد کیس: فرحان غنی پیش، دوران تفتیش رہا کرنے پر عدالت کا استفسار

سرکاری ملازم پر تشدد کے کیس میں پیپلز پارٹی کے رہنما فرحان غنی کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش ہوئے، عدالت نے تفتیشی افسر سے وضاحت طلب کی کہ دوران تفتیش تھانے سے ملزم کو کس قانون کے تحت رہا کیا گیا، آئندہ سماعت پر ریکارڈ پیش کیا جائے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ بتایا جائے کہ کیا دوران تفتیش ملزم کو رہا کرنے کا اطلاق دہشت گردی کے کیس میں ہوتا ہے؟ ملزمان کو جس سیکشن کے تحت ضمانت پر رہا کیا گیا اور درخواست عدالت میں جمع کروائی گئی مدعی کے وکیل وہ قانون عدالت میں پیش کریں۔

سرکاری وکیل نے کہا کہ کیس کی شفاف تحقیقات کی گئی ہیں، سرکاری کام چل رہا تھا لیکن کوئی دہشت گردی نہیں ہوئی ہے، اس کیس میں انسداد دہشت گردی کا خصوصی قانون لاگو نہیں ہو گا، یہ اے ٹی سی کا کیس نہیں بنتا، ہم درخواست دے دیتے ہیں۔

کیس کی مزيد سماعت 30 ستمبر تک ملتوی کردی گئی۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت؛ جے شری رام کا نعرہ نہ لگانے پر ہندوتوا کے جنونیوں کا پیش امام پر بہیمانہ تشدد
  • ٹنڈوجام، فنکار میوزک اساتذہ پر پولیس تشدد کے خلاف پریس کلب پر مظاہرہ کر رہے ہیں
  • سرکاری ملازم پر تشدد کیس: فرحان غنی پیش، دوران تفتیش رہا کرنے پر عدالت کا استفسار
  • بھارت نے آئندہ حملہ کیا تو سعودی عرب ہمارے ساتھ ہو گا، خواجہ آصف   
  • اترپردیش میں تین مسلم نوجوانوں کو فلسطینیوں کیلئے رقم بھیجنے پر گرفتار کیا گیا
  • سوڈان میں مسجد پر ڈرون حملہ‘ 70 سے زائد شہری شہید
  • راولپنڈی میں نوبیاہتا دلہن شوہر اور سسرالیوں کے تشدد سے جاں بحق، زہر دینے کی تصدیق
  • سسرالیوں نے19سالہ بہو کو زہر دے کر مار ڈالا
  • بھارت اکتوبر میں پاکستان پر حملہ کرسکتا ہے، اعزاز چوہدری