فحش اداکارہ پونم پانڈے کو مذہبی ڈرامے میں دیا گیا کردار واپس چھین لیا گیا
اشاعت کی تاریخ: 24th, September 2025 GMT
دہلی کی مشہور لوو کُش رام لیلا کمیٹی نے اس سال کے رام لیلا میں اداکارہ پونم پانڈے کو راؤن کے بیوی ماندودری کا کردار نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ متعدد گروپوں کی مخالفت اور عوامی جذبات کو مدنظر رکھتے ہوئے کئی روز کی بحث کے بعد کیا گیا۔
کمیٹی نے پونم پانڈے کو خط لکھ کر واضح کیا کہ یہ فیصلہ ان کے لیے بے ادبی یا توہین کا مطلب نہیں۔
کمیٹی کے صدر ارجن کمار نے کانسٹی ٹیوشنل کلب آف انڈیا میں پریس کانفرنس کے دوران کہا، ’فنکار کو ان کے کام کی بنیاد پر پرکھا جانا چاہیے، نہ کہ ان کے ماضی کی وجہ سے۔ ہر عورت کا معاشرے میں اہم کردار ہے اور اسے بے عزت نہیں کیا جانا چاہیے۔ ابتدا میں ہمیں یقین تھا کہ پونم پانڈے ماندودری کا کردار مثبت انداز میں ادا کر سکتی ہیں، لیکن کچھ حلقوں میں ہنگامے اور عوامی ردعمل کے پیش نظر ہمیں دوبارہ غور کرنا پڑا۔‘
لوو کُش راملیلا دہلی کے ریڈ فورٹ کے سامنے منقعد کی جاتی ہے اور یہ اپنے شاندار پروڈکشنز میں بالی وڈ کے فنکاروں کو شامل کرنے کے لیے مشہور ہے۔ کمیٹی نے کہا کہ پونم پانڈے کا کردار اس سال کسی اور اداکارہ کو سونپ دیا جائے گا تاکہ پروگرام کی امن و اتحاد کی فضا برقرار رہے۔
کمیٹی نے کہا، ’پونم پانڈے کے کردار کو لے کر کئی دنوں سے سوشل میڈیا اور میڈیا میں بحث جاری تھی۔ کچھ لوگوں نے ان کے انتخاب کی مخالفت کی تھی، جبکہ کچھ نے حمایت کی۔ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ عوامی جذبات اور معاشرتی ہم آہنگی کو ترجیح دی جائے۔‘
واضح رہے کہ لوو کُش رام لیلا دہلی کے سب سے بڑے رام لیلا پروگرامز میں سے ایک ہے، جو ہر سال ہزاروں زائرین کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اس میں پہلے بھی کئی فلم اور ٹی وی اداکار شامل ہو چکے ہیں اور یہ اپنی شاندار پیشکشوں کے لیے مشہور ہے۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: پونم پانڈے رام لیلا کمیٹی نے
پڑھیں:
مغرب سے مخصوص موضوعات پر ڈرامے بنانے کے لیے فنڈنگ ہو رہی ہے، محمود اختر کا دعویٰ
پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کے سینئر اداکار محمود اختر نے حال ہی میں ایک گفتگو کے دوران ڈراموں کے بدلتے رجحانات اور مبینہ مغربی اثرات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
محمود اختر کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے کیریئر کے دوران ڈرامہ سازی کے کئی مراحل دیکھے، تاہم موجودہ دور میں ڈراموں کا معیار اور موضوعات ان کی نظر میں تشویشناک انداز میں تبدیل ہو رہے ہیں اور یہ مغربی طرز اختیار کرتے جارہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں پاکستانی ڈرامے حقیقت پسندی اور مضبوط کہانیوں کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے۔ بعد ازاں ڈائجسٹ کہانیوں کی مقبولیت کے باعث مواد میں بتدریج تبدیلی آئی، مگر اب صورتحال اس سے بھی آگے بڑھ چکی ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ بعض مغربی ادارے مخصوص موضوعات پر ڈرامے بنانے کے لیے فنڈنگ کر رہے ہیں، جس کے نتیجے میں ایسی اقدار اور رویے فروغ پا رہے ہیں جو پاکستانی معاشرتی اور ثقافتی روایات کے منافی ہیں۔
محمود اختر نے کہا کہ اس رجحان پر سنجیدگی سے بات نہیں ہو رہی، اس پر توجہ دینی ہوگی۔