ملتان، ارشاد حسین جعفری ایم ڈبلیو ایم بستی آڈوں والی یونٹ کے صدر نامزد، ضلعی آرگنائزر نے حلف لیا
اشاعت کی تاریخ: 24th, September 2025 GMT
ایم ڈبلیو ایم یونٹ بستی آڈوں والی کے اراکین نے ضلعی آرگنائزر سے ملاقات کی اور بعدازاں متفقہ طور پر ارشاد حسین جعفری کو یونٹ صدر نامزد کیا گیا، سید فخر عباس شاہ کو جنرل سیکرٹری جبکہ مولانا فیاض حسین بھٹی کو نائب صدر کے طور پر چنا گیا۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین ضلع ملتان کے آرگنائزر عون رضا انجم ایڈووکیٹ نے وفد کے ہمراہ تحصیل جلالپور کے علاقے علی پور سادات اور بستی آڈوں والی کا دورہ کیا، اس موقع پر مولانا فیاض حسین بھٹی، صوبائی ترجمان ثقلین نقوی اور دیگر ان کے ہمراہ تھے۔ ایم ڈبلیو ایم یونٹ بستی آڈوں والی کے اراکین نے ضلعی صدر سے ملاقات کی اور بعدازاں متفقہ طور پر ارشاد حسین جعفری کو یونٹ صدر نامزد کیا گیا، سید فخر عباس شاہ کو جنرل سیکرٹری جبکہ مولانا فیاض حسین بھٹی کو نائب صدر کے طور پر چنا گیا۔ نومنتخب یونٹ صدر ارشاد حسین جعفری نے ضلعی آرگنائزر ملتان عون رضا انجم ایڈووکیٹ نے حلف لیا۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کی کتابیں — ایک فکری رہنمائی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
تاریخ کی راہ گزر میں کچھ ہستیاں ایسی آتی ہیں جو اپنے دور کے ساتھ ساتھ آنے والے زمانوں پر بھی گہرا اثر ڈالتی ہیں۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ انہی میں سے ایک ہیں۔ وہ ایک ایسی شخصیت تھے جنہوں نے بیسویں صدی کے فکری بحران میں اسلام کے ہمہ گیر پیغام کو دوبارہ زندہ کیا۔ ان کی تحریروں نے نوجوان نسل کو احساسِ کمتری سے نکالا، مسلم معاشروں کو اپنی اصل پہچان یاد دلائی اور دنیا کو بتایا کہ اسلام محض چند عبادات کا نام نہیں بلکہ مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ مولانا مودودیؒ نے ایسے وقت میں قلم اٹھایا جب مغربی فلسفہ، سیکولرزم، لبرل ازم، سوشلسٹ نظریات اور نوآبادیاتی اثرات مسلمانوں کے ذہنوں کو مسخر کر رہے تھے۔ ایسے میں ان کی تصانیف روشنی کے مینار ثابت ہوئیں، جو آج بھی لاکھوں ذہنوں کو راہ دکھا رہی ہیں۔ مولانا مودودیؒ کے دور میں مسلم معاشرے شدید بحران کا شکار تھے۔ مذہب کو محض چند رسوم اور عبادات تک محدود کر دیا گیا تھا، سیاست و معیشت مغربی نظریات کے تابع ہو چکی تھی اور نوجوان نسل احساسِ کمتری میں ڈوبتی جا رہی تھی۔ ایسے میں انہوں نے دین کو زندگی کے تمام شعبوں کے لیے مکمل ضابطہ قرار دیا اور اسلام کے جامع تصور کو ایک نئے انداز میں پیش کیا۔ ان کی فکر کا سب سے نمایاں پہلو یہ تھا کہ انہوں نے اسلام کو محض عبادات یا روحانی سکون کا ذریعہ نہیں سمجھا بلکہ ایک ہمہ گیر نظامِ حیات کے طور پر بیان کیا۔ اسی وجہ سے ان کی تصانیف محض مذہبی کتابیں نہیں بلکہ فکری، سیاسی، سماجی اور تہذیبی رہنمائی کا مرقع ہیں۔
مولانا مودودیؒ کی تصانیف کا دائرہ حیرت انگیز حد تک وسیع ہے۔ انہوں نے دینیات، تفسیر، سیاست، معیشت، تاریخ، فقہ، خواتین کے مسائل، اور عصر ِ حاضر کے چیلنجز سب پر قلم اٹھایا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی کتابیں ہر قاری کی علمی ضرورت پوری کرتی ہیں۔ اگر کوئی عام تعلیم یافتہ فرد دین کی بنیادی باتیں سمجھنا چاہے تو ’’دینیات‘‘ اور ’’خطبات‘‘ بہترین رہنمائی ہیں۔ اگر کوئی محقق اسلام کے سیاسی و معاشی نظام کو جاننا چاہے تو ’’اسلامی ریاست‘‘، ’’معاشیاتِ اسلام‘‘ اور ’’سود‘‘ جیسی کتب دستیاب ہیں۔ اور اگر کوئی قرآن کے ہمہ گیر پیغام کو سمجھنا چاہے تو ’’تفہیم القرآن‘‘ ایک لازوال تفسیر ہے۔
مولانا نے اسلام کے ارکان اور بنیادی عقائد پر عام فہم اور مؤثر انداز میں روشنی ڈالی۔ خطبات: یہ کتاب نہ صرف ارکانِ خمسہ کو واضح کرتی ہے بلکہ ان کے روحانی و فکری پہلو کو اجاگر کرتی ہے۔ دینیات: مختصر مگر نہایت قیمتی تصنیف، جس میں ایمان، عبادت اور اسلامی اخلاقیات کو سادہ اور جامع انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ کتب ایک عام تعلیم یافتہ مسلمان کو اسلام کے ساتھ فکری تعلق جوڑنے کا پہلا زینہ فراہم کرتی ہیں۔
جہاد اسلام کا وہ پہلو ہے جسے ہمیشہ غلط فہمیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ مولانا مودودیؒ کی پہلی تصنیف ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ نے نہ صرف مغربی اعتراضات کا علمی جواب دیا بلکہ یہ واضح کیا کہ جہاد ظلم کے خلاف جدوجہد اور عدل کے قیام کا ذریعہ ہے۔ اس کتاب نے مغرب کے ایوانوں میں بھی کھلبلی مچا دی تھی اور آج بھی جہاد کے تصور کو سمجھنے کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ بیسویں صدی میں نیشنلزم نے دنیا کو شدید نقصان پہنچایا۔ مسلمانوں کو بھی نسلی و جغرافیائی قومیت کے نعروں میں الجھایا گیا۔ مولانا کی کتاب ’’مسئلہ قومیت‘‘ نے واضح کیا کہ اسلام کا اصل پیغام عالمی اخوت ہے۔ ان کا استدلال تھا کہ امت ِ مسلمہ کی اصل پہچان لا الہ الا اللہ ہے، نہ کہ رنگ، نسل یا زبان۔ یہ کتاب دو قومی نظریہ کی فکری بنیاد بھی فراہم کرتی ہے۔
اسلامی معاشیات اور جدید چیلنجز: مولانا نے معاشیات پر بھی گہری بصیرت سے روشنی ڈالی۔ معاشیاتِ اسلام: جدید مسائل کا اسلامی حل۔ اسلام اور جدید معاشی نظریات: سوشلسٹ اور کیپٹلزم نظام کا تجزیہ۔ سود: سرمایہ دارانہ نظام کے اس مہلک جرثومے کی جڑ کاٹتی ہے، جو انسانیت کو غلام بنا دیتی ہے۔ ان کتب نے اسلامی معاشیات کے ایک پورے علمی سلسلے کی بنیاد رکھی۔
سیاست، ریاست اور حکمرانی: مولانا کی فکر کا ایک بڑا حصہ سیاست و ریاست کے گرد گھومتا ہے۔ اسلامی ریاست: اسلام کا سیاسی فلسفہ۔ خلافت و ملوکیت: خلافت کے بعد آنے والے انحرافات کا تجزیہ۔ یہ کتب نہ صرف سیاستدانوں بلکہ عام قاری کو بھی یہ سمجھاتی ہیں کہ اسلام کا نظامِ حکومت کس طرح عدل و انصاف پر مبنی ہے اور کس طرح ملوکیت نے اصل نظام کو مسخ کیا۔
سماجی مسائل اور خواتین: مولانا نے خواتین کے مسائل پر بھی قلم اٹھایا۔ ان کی کتاب ’’پردہ‘‘ جدید دور میں خواتین کے حقوق اور اسلامی معاشرت کے اصولوں کی وضاحت کرتی ہے۔ انہوں نے یہ ثابت کیا کہ پردہ کسی جبر یا پسماندگی کا نام نہیں بلکہ عورت کے وقار اور معاشرتی تحفظ کی ضمانت ہے۔
تاریخی و علاقائی موضوعات: مسئلہ کشمیر: کشمیر کے تنازعے کو اسلامی اور سیاسی تناظر میں واضح کرتی ہے۔ قادیانی مسئلہ: قادیانیت کے فتنہ پر دلائل اور استدلال کے ساتھ مدلل جواب۔ سنت کی آئینی حیثیت: منکرین ِ حدیث کے اعتراضات کا علمی۔ مولانا مودودیؒ کی سب سے بڑی خدمت ان کی تفسیر ’’تفہیم القرآن‘‘ ہے۔ یہ عام فہم زبان میں قرآن کا پیغام پیش کرتی ہے۔ اس تفسیر کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ جدید ذہن کی الجھنوں کو سامنے رکھ کر لکھی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیم یافتہ نوجوان اور خواتین بھی اسے آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ دنیا کی کئی زبانوں میں اس کے تراجم ہو چکے ہیں اور لاکھوں افراد اس سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔
علمی منہج اور اسلوبِ استدلال: مولانا کے استدلال میں دو خصوصیات نمایاں ہیں: 1۔ دلیل و منطق کا بھرپور استعمال۔ 2۔ عام فہم زبان میں پیچیدہ موضوعات کی وضاحت۔ انہوں نے ہمیشہ قرآن و سنت کو بنیاد بنایا اور عقل کو معاون بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی کتابیں ایک ہی وقت میں علمی بھی ہیں اور عوامی بھی۔ مولانا مودودیؒ کی فکر صرف برصغیر تک محدود نہیں رہی۔ ان کی تحریروں نے اخوان المسلمون، حماس، جماعت اسلامی اور کئی اسلامی تحریکات کو متاثر کیا۔ ان کے افکار نے نوجوانوں کو عمل اور قربانی کی راہ دکھائی۔ یقینا ہر بڑے مفکر کی طرح مولانا مودودیؒ پر بھی تنقید ہوئی۔ بعض علماء نے ان کے بعض اجتہادات سے اختلاف کیا، کچھ نے سیاسی میدان میں ان کی جدوجہد کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی علمی خدمات اور فکری وزن اتنا واضح ہے کہ مخالفین بھی ان کی عظمت کا انکار نہیں کر سکتے۔ مولانا مودودیؒ کی کتابیں محض تصانیف نہیں بلکہ ایک فکری و روحانی سفر کی رہنمائی ہیں۔ ان کے ذریعے قاری تشکیک سے یقین، غلامی ٔ فکر سے آزادی اور مایوسی سے امید کی طرف بڑھتا ہے۔ آج بھی اگر کوئی نوجوان مغربی فلسفوں کی یلغار میں الجھا ہوا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ سید مودودیؒ کی تصانیف کا مطالعہ کرے۔ وہ دیکھے گا کہ کس طرح یہ کتب اسے واضح سمت، فکری جرأت اور روحانی یقین عطا کرتی ہیں۔
خدا کی رحمتیں ہوں امام العصر سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ پر کروڑوں بار۔ اللہ تعالیٰ آپ کی قبر کو نور سے بھر دے، آپ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ہمیں آپ کے فکر سے مسلسل استفادہ کرنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین