حمیداللہ بھٹی
موجودہ صدی تبدیلی کی صدی ہے، نت نئی ایجادات نے رہن سہن تک بدل دیا ہے ۔دفاع کے تقاضے بدل چکے ہیں۔نیز دنیاایک اور تقسیم کی طرف بڑھ رہی ہے مگرگزرے 78برس کے دوران پاک بھارت دشمنی ختم نہیں ہو سکی اور جنوبی ایشیا کی دونوں جوہری طاقتوں میں تعلقات کی نوعیت نچلی ترین سطح پر ہے۔ پاکستان نے کئی بار تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی لیکن ہندوتواپر یقین رکھنے والی بھارتی جنونی قیادت نے کبھی مثبت جواب نہیں دیا۔ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنا یا۔افغانستان اور ایران کو پاکستان سے دورکیا ۔لسانی،نسلی اور علاقائی گروہوں کی سرپرستی سے بلوچستان اور خیبرپختونخواہ کاامن خراب کیابھارت جان چکا کہ وہ پاکستان سے روایتی جنگ میں بھی کمزورہے ، اسی لیے پاکستان کو اندرونی طورپر غیر مستحکم کرنے کی کوشش میں ہے۔ اسرائیلی حملوں کے دوران ایران پربھارتی اصلیت واضح ہوگئی جس کامتبادل اُس نے طالبان کو تلاش کرلیا ہے ۔ بد قسمتی یہ کہ طالبان بھی استعمال ہونے پر آمادہ لگتے ہیںجس کی وجہ سے پاکستان کو دشمنی کا جواز مل سکتاہے ۔
ہر ملک اپنے شہریوں کے تحفظ کو یقینی بناتا ہے مگر حالات کا تقاضا ہے کہ پاکستان کے دشمنوں کی تعداد کم ہو، خواجہ آصف کی طرح افغانستان کو دشمن تصور کرنے کی وضاحت جلدبازی ہے ۔پاکستان کے فروغ پذیر عالمی کردارسے بھارت اوراسرائیل پریشان ہیں۔ پہلے اسرائیل درپردہ پاکستان کے خلاف رہا مگرپاک سعودیہ دفاعی معاہدہ طے پانے کے بعد امکان ہے کہ کُھل کر سامنے آجائے۔ اسرائیلی حملوں کے دوران ایران کی سفارتی ،سیاسی اور اخلاقی مدد سے پاکستان نے ایرانی قیادت اور عوام کااعتماد حاصل کر لیا مگرافغانوں کی چار دہائیوں سے مہمان نوازی اور استعمار کے خلاف جہدوجہد میں ساتھ دینے کے باوجودمعاملات ہنوز غیر متوازن ہیں۔ کابل کی طرف سے پاکستان مخالف سازشوں میں سہولت کاری عیاں ہے۔ دانشمندی کا تقاضا ہے کہ سفارتی ذرائع سے حل تلاش کرنے پر توجہ دی جائے تاکہ دشمنوں کی تعدادمیں اضافہ نہ ہو،کیونکہ افغانستان کوسرِ عام دشمن قرار دینے لگے تو جس حد تک تعاون حاصل ہے وہ بھی کہیں کھونہ بیٹھیں۔ مذمتی بیانات سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ اضافہ ہوتاہے۔ اگر افغانستان کے حوالے سے ریاست اور حکومت فیصلہ کُن موڑ پر آہی گئی ہے تو بہتر ہے مشاورت سے واضح،ٹھوس اور نتیجہ خیز پالیسی بنا کر عمل کیا جائے ۔ٹھیک ہے یہ تو نہیں ہو سکتا کہ کوئی ہمارے بچے شہید کرے اور ہم اُسے ہار پہنائیں مگر خواجہ آصف کی طرح منہ پھاڑ کر دشمن کہہ دینا ناقابلِ قبول ہے ۔یہ بیان کئی پہلوئوں سے وضاحت طلب ہے۔
افغان سرحد سے منسلک صوبے بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں گزرے چند ماہ کے دوران دہشت گردی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جس پر ریاست اور حکومت کی طرف سے تحفظات فطری ہیں۔ اِس میں تو کوئی ابہام نہیں کہ افغانستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ہیں اوروہ خطے میں دہشت گردانہ سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ وہاں سے پاکستانی علاقوں پر حملوں سے عوامی جان و مال کا نقصان کرنے کے ساتھ ریاستی اِداروں کونشانہ بنایاجاتا ہے۔ ایک سے زائد بارپاکستان باور کراچکا کہ جب تک افغان سرزمین سے دہشت گردوں کا خاتمہ نہیں ہوگا دونوں ممالک میں تعلقات معمول پر نہیں آسکتے لیکن طالبان کی بے نیازی اور لاپرواہی ظاہرکرتی ہے کہ یاتو انھیں حالات کی نزاکت کا ادراک نہیںیاپھر اچھا ہمسایہ بننے سے زیادہ صرف اقتدار عزیزہے ۔اسی لیے بار بار توجہ مبذول کرانے پرعملی اقدام نہیں اُٹھاتے ۔یہ رویہ پاکستان کواُن کے عالمی سطح پر مقدمہ لڑنے میں رکاوٹ ہے اور طالبان دنیا سے الگ تھلگ ہونے لگے ہیں ۔دنیا کے خدشات نہ سمجھنے ، خواتین کے لیے ملک میں تعلیم کے دروازے بندکرنے اور پورے ملک کو اپنی سوچ کے مطابق ڈھالنے کی سختیاںشہری آزادیوں پر قدغن کے مترادف ہے اگروہ اپنی سوچ پر نظر ثانی نہیں کرتے تو دنیا سے نہ صرف مزید دور ہوتے جائیں گے مگر پاکستان کیونکہ ہمسایہ ہے اِس لیے تمام دروازے بند کر دینے کا ردِ عمل آسکتا ہے لہٰذا گفتگو میں احتیاط پسندی بہتر ہے۔
ریاستی اِداروں پر حملے ناقابلِ برداشت ہیں۔ حال ہی میں دہشت گردی کے ایک بڑے واقعہ پر وزیراعظم شہباز شریف کو کہنا پڑا کہ بس بہت ہوچکا ،اب افغان انتظامیہ واضح کرے کہ ہمارے ساتھ ہے یا خوارج کے ساتھ ہے ۔اگلے دن فوجی ترجمان نے بھی لگی لپٹی رکھے بغیر صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ بھارت کے فوجی آفیسر اور افغان باشندے پاکستان میں دہشت گردی کرتے ہیں اور یہ کہ مسلح جتھوں کی یہاں کوئی جگہ نہیں۔ یہ ایسے بیانات ہیں جن سے پورے ملک کو یہ پیغام ملا ہے کہ افغانستان کے حوالے سے پاکستان میںبداعتمادی ہے جو نہیں ہونی چاہیے کیونکہ پاکستان نے افغانوں کو روسی پنجۂ استبداد سے نجات دلائی ۔مہاجرین کے لیے نہ صرف سرحدیں کھول دیں بلکہ مجاہدین کی ہر ممکن مدد کی جس کا صلہ کلاشنکوف اور منشیات کلچر کی صورت میں ملا۔مگرپاکستانیوں نے اپنے افغان بھائیوں کے لیے ہر نقصان خوشدلی سے برداشت کیا ۔آج وہی افغان جب پاکستانی پرچم کی بے حرمتی کرتے ہیں۔ کھیل کے میدانوں میں پاکستانیوں پر حملے کرنے میں بھارتیوں کے ساتھ ہوتے ہیں توہر پاکستانی کو ملال ہوتا ہے۔ شاید ایسے ہی جذبات کے اثر میں وزیردفاع خواجہ آصف نے افغانستان کو دشمن کہہ دیا۔ایسا بھی ہے توبھی میرے خیال میں ابھی بیان بہت سخت ہے۔ حکومت اور ریاستی اِدارے اگر افغانستان کو احساس دلائیں توبہتر ہے ویسے بھی پاک سعودیہ دفاعی معاہدہ ایک ایسی نئی جہت ہے جو حددرجہ احتیاط کی متقاضی ہے۔
سفارتی نزاکتوں کو پس پشت ڈالنا ہر گز مناسب نہیں۔ موجودہ افغان انتظامیہ کو اقتدار د لانے میں پاکستان کا بنیادی کردار ہے۔ ایک اہم عسکری شخصیت نے کابل میں چائے پینے کی تصویر بھی خاص طورپر بنوائی۔ اب اتنی جلدی اُکتانااور سب کچھ پسِ پشت ڈال دینا مناسب نہیں۔ کوئی دورائے نہیں کہ دہشت گردی بھارتی منصوبہ بندی ،مالی تعاون اورتربیت کے بغیر ممکن نہیں اور افغانستان کی سنجیدہ کوششیں ہی دہشت گردوں کو قتل وغارت سے روک سکتی ہیں۔ اگر وہ اِس کے لیے اپنے وسائل کو ناکافی سمجھیں تو پاکستان سے مددلے سکتے ہیں۔ دشمن بھارت اب کبھی دوبدومقابلے کی ہمت نہیں کرے گا۔وہ چاہے گا کہ پاکستان کو کسی ہمسائے سے الجھا کر کمزور کرے اورمذموم مقاصدحاصل کر ے۔ طالبان کو سمجھنا چاہیے کہ امریکی صدر ٹرمپ کا بگرام ائر بیس کا مطالبہ نئے خطرات کی بنیادبن سکتاہے ۔ایسے عالمی دبائو سے بچنا ہے تو پاکستان جیسے ہمسائے کااعتماد بحال رکھنا ہوگا ۔اگر ماضی کی طرح دولت کوہی کمزوری بنایا تو نہ صرف افغانستان میں اندرونی خلفشار بڑھے گا بلکہ عالمی طاقتیں انھیں کھلونا بنادیں گی۔ پاکستان ،چین ،روس اور ایران میں اشتراک فروغ پذیر ہے جس کا حصہ داربن کر طالبان بہت کچھ حاصل کرسکتے ہیں۔ وقت کی نزاکت کا احساس نہ کیا اورہمارے ارباب ِا ختیاربھی جذباتی رہے تو دونوں ممالک کے شہری نئے امتحان کا شکارہوں گے۔
٭٭٭
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: افغانستان کو پاکستان کو سے پاکستان کے دوران نہیں ہو کے لیے
پڑھیں:
بلوچستان میں علیحدگی پسند دہشتگردوں کو آج بھی افغانستان کی سرپرستی حاصل ہے: سرفراز بگٹی
---فائل فوٹوبلوچستان کے وزیرِاعلیٰ سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ بلوچستان میں علیحدگی پسند دہشت گردوں کو آج بھی افغانستان کی سرپرستی حاصل ہے۔
وزیرِ اعلیٰ سرفراز بگٹی نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے زیرِ اہتمام کانفرنس سے خطاب کے دوران کہا کہ 2016ء تک بلوچستان زیادہ تر پُرامن تھا، بلوچستان میں جن لوگوں کو 2018ء میں چھوڑا گیا اُنہوں نے دوبارہ دہشت گردوں کو جوائن کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ دہشت گردوں کا بلوچستان سے کوئی تعلق نہیں، مِسِنگ پرسن پر تحریک چلانے والے مِسنگ پرسن کی کوئی بات تقریروں میں نہیں کرتے، لاپتہ افراد پر سیاست کرنے والوں کو بلوچستان کی پسماندگی میں فائدہ ہے۔