یمن سے داغے گئے ڈرون حملے میں 20 اسرائیلی زخمی، خطے میں کشیدگی مزید بڑھ گئی
اشاعت کی تاریخ: 25th, September 2025 GMT
یروشلم: اسرائیل کے جنوبی ساحلی شہر ایلات کو یمن سے داغے گئے ڈرون حملے نے نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں کم از کم 20 افراد زخمی ہو گئے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیلی ایمبولینس سروس کے ترجمان نے کہاکہ واقعے کے فوراً بعد شہر میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی اور ریسکیو ٹیموں کو متاثرہ علاقے میں بھیج دیا گیا، زخمیوں کو اسپتال منتقل کیا گیا ہے جہاں کئی افراد کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔
عینی شاہدین کے مطابق ڈرون حملے کے بعد ایلات شہر میں زور دار دھماکوں کی آوازیں سنائی دیں جبکہ سائرن بجائے گئے، اسرائیلی سکیورٹی فورسز نے ساحلی علاقے کی ناکہ بندی کرتے ہوئے فضائی نگرانی مزید سخت کر دی ہے۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق دفاعی نظام نے متعدد ڈرونز کو فضا میں ہی تباہ کر دیا تاہم کچھ ڈرون شہر تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے جس سے شہری آبادی متاثر ہوئی۔
خیال رہےکہ اسرائیل غزہ میں جنگی کارروائیوں میں مصروف ہے، جبکہ لبنان کی سرحد پر حزب اللہ کے ساتھ جھڑپیں بھی جاری ہیں۔
واضح رہےکہ غزہ میں امداد کے نام پر درحقیقت امریکا اور اسرائیل دہشت گردی کر رہے ہیں، وہ نہ صرف محاصرہ قائم رکھے ہوئے ہیں بلکہ انسان دوست امدادی قافلوں اور مشنز کو بھی بزور طاقت ناکام بنا رہے ہیں۔
عالمی ادارے اس کھلی دہشت گردی پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں جبکہ مظلوم فلسطینی عوام کو فوری اور بلا رکاوٹ امداد پہنچانے کے لیے عملی اور فیصلہ کن اقدامات وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہیں۔
.
ذریعہ: Al Qamar Online
پڑھیں:
امریکی عوام کے ٹیکسز مزید اسرائیل کی غزہ کے خلاف جنگ پر خرچ نہیں ہونے چاہیے، ٹریبیون
روزنامے کے مطابق ریاستِ متحدہ 1948 سے اسرائیل کا سب سے قریبی حلیف ہے اور اس کی اقتصادی و عسکری امداد 300 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے، یہ امداد جو منصوبے کے مطابق 2028 تک جاری رہے گی۔ اسلام ٹائمز۔ ایک امریکی روزنامہ نے اداریے میں لکھا ہے کہ جب تک غزہ میں جنگ بند نہیں ہوتی ہر گزرتے دن کے ساتھ سینکڑوں فلسطینی اپنی جانیں کھو دیتے ہیں، اور اس دوران واشنگٹن کی خاموشی خوفناک ہے۔ روزنامہ دی ٹریبیون نے اپنے اداریے میں زور دیا کہ یہ خاموشی امریکہ کی ساکھ کو کمزور کر رہی ہے۔ روزنامے نے یاد دہانی کروائی کہ غزہ پر حملے کے آغاز کو دو سال گزر چکے ہیں اور اس جنگ نے شہریوں پر بھاری جانی و مالی نقصان پہنچایا ہے، محلے اور بستییں مکمل طور پر نقشے سے مٹ چکی ہیں، ہسپتال منہدم ہو گئے ہیں اور انسانی ادارے قحط کے بحران کے درمیان تنہا پڑ گئے ہیں۔
روزنامے کے مطابق ریاستِ متحدہ نے 1948 سے اسرائیل کا سب سے قریبی حلیف ہونا جاری رکھا ہوا ہے اور اس کی اقتصادی و عسکری امداد 300 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے، ایسی امداد جو منصوبے کے مطابق 2028 تک جاری رہے گی۔ رپورٹوں کے مطابق، امریکہ ہر سال اسرائیل کو 3.8 بلین ڈالر عسکری امداد دیتا ہے، یہ رقم امریکہ کی تاریخ میں کسی ایک ملک کو دی جانے والی سب سے بڑی سالانہ امداد سے بھی زیادہ ہے۔ اداریے میں لکھا گیا ہے کہ جانی نقصانات اور جنگ کے تسلسل نے امریکہ اور اس کے پالیسی سازوں پر اخلاقی ذمہ داری ڈال دی ہے۔
واشنگٹن کی تل ابیب کے لیے بلاشرط حمایت نہ صرف انسانی اقدار سے دور ہے بلکہ دنیا میں امریکہ کی شبیہ کو بھی مسخ کر دیتی ہے اور اسے فلسطینیوں کی جانوں کا شریکِ جرم بناتی ہے؛ ایسی کیفیت جو روزنامے کے بقول بدلنی چاہیے۔ اداریہ آخر میں امریکی حکومت سے اپیل کرتا ہے کہ اپنی بین الاقوامی ساکھ بحال کرنے کے لیے اتنی ہی حساسیت انسانی حقوق کے دفاع میں بھی دکھائے جتنی وہ اپنے ہتھیاروں کے بیڑے کی حفاظت میں دکھاتی ہے، امریکی عوام کے ٹیکس مزید اس قتلِ عام پر ضائع نہیں ہونے چاہئیں، یہ وسائل امن، سفارتکاری اور انسانی امداد کی حمایت پر خرچ ہونے چاہئیں، نہ کہ جنگ کے تسلسل پر۔