وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ بجلی کے شعبے میں گردشی قرض تمام وسائل کو نگل رہا تھا، اس کے مسائل سے نمٹنا بہت بڑی کامیابی ہے۔

پاکستان میں شعبہ توانائی کے گردشی قرضے کے خاتمے کے لیے نئے طے شدہ مالیاتی منصوبے (سرکلر ڈیٹ فنانسنگ کی سہولت) کی افتتاحی تقریب سے ورچوئل خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے گردشی قرضے سے نمٹنے کے منصوبے کو بہت بڑی کامیابی اور اجتماعی کاوشوں کا نتیجہ قرار دیا اور کہا کہ ڈسٹری بیوشن لائنوں کو بہتر بنانا اور لائن لاسز پر قابو پانا ایک بڑا چیلنج ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کی مینجنگ ڈائریکٹر نے پاکستان کی معاشی بہتری کو سراہا ہے اور سیلاب کے باعث تعاون کا یقین دلایا ہے، معاشی اشاریوں میں بہتری، ایف بی آر، بجلی اور آئی ٹی کے شعبوں میں بہتری بہت اہم پیش رفت ہے، ہمت اور حوصلے کے ساتھ آگے بڑھیں تو ملک مشکلات سے نکل آئے گا۔

وزیراعظم نے کہا کہ گردشی قرضہ مسلسل بڑھتا جا رہا تھا اور یہ ہمارے وسائل نگلتا جارہا تھا، گردشی قرضے کے مسئلے سے نمٹنا بہت بڑی کامیابی ہے، گردشی قرضے کا منصوبہ اجتماعی کاوشوں کا نتیجہ ہے، اس کا سہرا ٹاسک فورس کے سر ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیر توانائی کی سربراہی میں ٹاسک فورس نے مستعدی سے کام کیا ہے، آئی پی پیز کے ساتھ مذاکرات ایک بہت بڑا چیلنج تھا، ٹاسک فورس نے آئی پی پیز کے ساتھ کامیاب مذاکرات کیے، سب نے اپنی اپنی ذمہ داریاں بھرپور طریقے سے ادا کی ہیں، تمام متعلقہ فریقین کا اس میں بڑا اور مثالی کردار ہے،فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی بھرپور حمایت سے ہمیں کامیابی ملی ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ آئی ایم ایف کی مینجنگ ڈائریکٹر سے ملاقات ہوئی ہے، انہوں نے پاکستان کی معاشی بہتری کے حوالہ سے کارکردگی اور تیزی سے اصلاحات کو سراہا ہے، پہلی مرتبہ آئی ایم ایف کی کسی مینجنگ ڈائریکٹر نے یہ تعریف کی ہے کہ پاکستان نے معاشی بہتری کے لیےمثالی اقدامات کیے ہیں اور سنجیدگی کے ساتھ اصلاحات کی جا رہی ہیں۔

انہوں نے سیلاب کا بھی ذکر کیا اوراس سے نقصانات پر افسوس کا اظہار کیا، انہوں نے اس حوالے سے تعاون کا یقین دلایا کہ ہم اس کے لیے بھی تیار ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ اسی خلوص کے ساتھ اگر ہم اقدامات جاری رکھیں تو آگے بھی کامیابیاں حاصل ہوں گی، اس کا تمام تر کریڈٹ ٹیم پاکستان کا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ اگلا مرحلہ اب ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی نجکاری ہے،ڈسٹری بیوشن لائنوں کو بہتر بنانا اور لائن لاسز پر قابو پانا ایک بڑا چیلنج ہے، اگلے مرحلے میں لائن لاسز کے مسئلے پر توجہ دی جائے۔

انہوں نے کہا کہ معاشی اشاریوں میں بہتری، ایف بی آر، بجلی اور آئی ٹی کے شعبوں میں بہتری بہت اہم پیش رفت ہے، اسی سے ہمیں حوصلہ ملنا چاہیے، اعتماد اور حوصلے کے ساتھ تیزی سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے، پاکستان مشکلات سے انشاءاللہ نکل آئے گا۔

 

پاکستان کا گردشی قرضہ تقریباً 22.

4 کھرب تھا، جسے اب تک 800 ارب روپے کم کیا جا چکا، وزیر توانائی

وفاقی وزیر توانائی اویس احمد خان لغاری نے کہا ہے کہ حکومت کے آغاز پر پاکستان کا گردشی قرضہ تقریباً 22.4 کھرب روپے تھا، جسے اب تک 800 ارب روپے کم کیا جا چکا ہے۔

وفاقی وزیر توانائی سردار اویس احمد خان لغاری نے گردشی قرضے میں کمی کے لیے جاری اقدامات پر ویڈیو پیغام دیا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ آج 1225 ارب روپے کے گردشی قرضے میں کمی کی نئی اسکیم پر دستخط کیے جا رہے ہیں، جس سے مزید قرضے کم کرنے میں مدد ملے گی۔

وزیر توانائی نے واضح کیا کہ صارفین ہر یونٹ بجلی پر تقریباً ساڑھے تین روپے ڈیٹ سروس سرچارج ادا کرتے رہے ہیں، جس کا صرف سود کی ادائیگی میں استعمال ہوتا تھا اور اصل قرض باقی رہتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس اسکیم کے تحت اب ڈیٹ سروس سرچارج سود کے علاوہ اصل قرض کی ادائیگی میں بھی استعمال کیا جائے گا، جس سے آئندہ چھ سالوں میں گردشی قرضہ صفر تک پہنچانے کا ہدف حاصل کیا جا سکے گا۔

اویس لغاری نے اس کامیابی کو وزیر اعظم پاکستان کے وژن اور رہنمائی کا نتیجہ قرار دیا اور تمام متعلقہ اداروں کی مشترکہ کوششوں کو سراہا۔

گردشی قرض کا حل توانائی شعبے کے دیرینہ مسائل کے حل میں بڑی پیش رفت ہے، وزیر خزانہ

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ گردشی قرضے کے خاتمے کے لیے گزشتہ ایک سال سے کوششیں جاری تھیں، گردشی قرضے کے خاتمے کی اسکیم اہم سنگ میل ہے، گردشی قرضے کے خاتمے کے توانائی کے شعبے پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔

محمداورنگزیب نے کہا کہ بجلی کے شعبہ کے 1225 ارب روپے گردشی قرضہ کاحل مالی نظم و ضبط کو یقینی بنانے اور سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ کے ساتھ ساتھ پاکستان کے توانائی شعبے کے دیرینہ ترین مسائل میں سے ایک کے حل میں ایک بڑی پیش رفت ہے۔

قبل ازیں اپنے ایک بیان میں وزارتِ خزانہ نے 1225 ارب روپے کے گردشی قرضہ کے کامیاب حل کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا  کہ وزیرِ اعظم کی ٹاسک فورس برائے پاور کی تاریخی مشترکہ کاوش کے ذریعے اور وزارتِ توانائی، اسٹیٹ بینک آف پاکستان، پاکستان بینکس ایسوسی ایشن اور 18 شراکتی بینکوں کے تعاون سے اسے ممکن بنایا گیا۔

اس تاریخی ری اسٹرکچرنگ سے پاکستان میں توانائی کے شعبے کے دیرینہ ترین مسائل میں سے ایک کے حل میں ایک بڑی پیش رفت کی نمائندگی وعکاسی ہورہی ہے۔

پاکستان کے بینکاری نظام میں یہ تاریخی ٹرانزیکشن ہے، صدر و سی ای او پنجاب بینک

صدر و سی ای او پنجاب بینک ظفر مسعود نے کہا کہ پاکستان کے بینکاری نظام میں یہ تاریخی ٹرانزیکشن ہے، گردشی قرضے کے خاتمے کا منصوبہ اہم پیش رفت ہے، گردشی قرضے کے خاتمے کے لئے کوئی نیا ڈیٹ سروس سر چارج نہیں لگایا جا رہا، پالیسی ریٹ کم ہونے سے چھ سال کے اندر قرض ادا ہو جائے گا،گردشی قرضے کی ادائیگی بینکوں پر مسلط کیے جانے کا تاثر درست نہیں،گردشی قرضہ ادائیگی کے منصوبے میں سب کے لیے مراعات شامل ہیں۔

چیئرمین نجکاری کمیشن محمد علی نے کہا کہ گردشی قرض ادائیگی کا منصوبہ مشاورت سے وضع کیا گیا، وفاقی وزیر پاور ڈویژن اویس لغاری کی قیادت میں توانائی کا شعبہ بہتری کی جانب گامزن ہے، توانائی کے شعبے میں اہم اصلاحات لائی جا رہی ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ اس کامیابی سے توانائی کے شعبے کے دیرینہ مسائل کے حل کے لیے یکجا ہونے والے اداروں کے باہمی مربوط اندازمیں کام کرنے اور ٹیم ورک کی طاقت کی عکاسی بھی ہورہی ہے۔

اس کوشش کی قیادت وفاقی وزیر توانائی سردار اویس احمد خان لغاری کی سربراہی میں وزیرِ اعظم کی ٹاسک فورس نے کی جسے وزیرِ خزانہ و محصولات سینیٹر محمد اورنگزیب، وزیرِ اعظم کے مشیر برائے نجکاری محمد علی ، نیشنل کوآرڈینیٹر لیفٹیننٹ جنرل محمد ظفر اقبال، گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد، سیکریٹری خزانہ امداداللہ بوسال اور ٹاسک فورس کے تمام مخلص اراکین کی بھرپور حمایت حاصل رہی جبکہ پی بی اے اور 18 بینکوں نے مضبوط ومربوط تعاون فراہم کیا۔

اے پی پی کی رپورٹ کے مطابق حکومت پاکستان نے 18 بینکوں کے کنسورشیم کے ساتھ مل کر توانائی کے شعبے کے گردشی قرضوں کے بحران سے نمٹنے کے لیے 1.225 ٹریلین سرکلر ڈیٹ فنانسنگ کی سہولت کا معاہدہ طے کیا ہے۔

اس تاریخی منصوبے کے حوالے سے تقریب میں وزیراعظم محمد شہباز شریف نے نیویارک سے بذریعہ وڈیو لنک شرکت کی جبکہ وزرا، اعلیٰ سرکاری حکام، ریگولیٹرز، بین الاقوامی شراکت داروں اور پاور سیکٹر کے اداروں کے سی ای اوز نے وزیراعظم ہائوس میں تقریب میں شرکت کی۔

اس منصوبے کی کلیدی خصوصیات میں کراچی انٹربینک آفرڈ ریٹ (KIBOR) مائنس 0.9 فیصد پر فنانسنگ، 6 سال کی ادائیگی کی مدت اور ریونیو سٹریم کے طور پر ڈیٹ سروس سرچارج (ڈی ایس ایس) شامل ہیں۔

نیا منصوبہ چھ سال سے بھی کم عرصے میں قرض ختم کرے گا اور صارفین کو 350 ارب روپے کی بچت فراہم کرے گا۔

اس سہولت کا مقصد گردشی قرضے کو کم کرنا ہے اور تاخیر سے ادائیگی کے مہنگے سرچارجز کے تدارک کے ذریعے صارفین کے لیے 350 ارب روپے کی بچت فراہم کرنا ہے۔

پاور ہولڈنگ لمیٹڈ کے قرضوں کو ریٹائر کرنے کے لیے 659 بلین روپے استعمال کیے گئے جبکہ باقی رقم آئی پی پیز/جی پی پیز کے لیے مختص کی جائے گی تاکہ بجلی کے صارفین کے لیے زیادہ سے زیادہ بچت کی جا سکے۔

 

Tagsپاکستان

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: پاکستان گردشی قرضے کے خاتمے کے وزیراعظم نے کہا کہ توانائی کے شعبے شعبے کے دیرینہ وزیر توانائی بڑی کامیابی پاکستان کے کی ادائیگی وفاقی وزیر پیش رفت ہے میں بہتری ٹاسک فورس ڈیٹ سروس کے گردشی انہوں نے ارب روپے رہا تھا بجلی کے کے ساتھ کیا جا پی پیز کے لیے

پڑھیں:

ایوب خان ۔۔۔ کمانڈر ان چیف سے وزیرِاعظم اور صدرِپاکستان تک

ایوب خان ۔۔۔ کمانڈر ان چیف سے وزیرِاعظم اور صدرِپاکستان تک WhatsAppFacebookTwitter 0 9 November, 2025 سب نیوز

تحریر۔ محمد محسن اقبال
تاریخ میں کچھ حقیقتیں ایسی ہوتی ہیں جو کتابوں اور سرکاری دستاویزات کے اوراق میں خاموشی سے دفن رہتی ہیں۔ یہ عام لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہتی ہیں، یہاں تک کہ کوئی محقق ان کے انکشاف کا ذریعہ بنے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے کئی ابواب اسی نوعیت کے ہیں، جہاں واقعات کی عمومی تعبیر ان کی حقیقی گہرائی سے میل نہیں کھاتی۔ انہی تاریخی حقائق میں سے ایک حقیقت پاکستان کی ایک ہمہ جہت اور کسی حد تک متنازع شخصیت — فیلڈ مارشل محمد ایوب خان — کے عروج و زوال سے وابستہ ہے۔ بیشتر پاکستانی انہیں ملک کے پہلے فوجی حکمران کے طور پر جانتے ہیں، جنہوں نے پہلا مارشل لا نافذ کیا اور بعد ازاں صدرِ پاکستان بنے۔ لیکن بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ ایک مرحلے پر ایوب خان نے وزیرِاعظم کا عہدہ بھی سنبھالا — یوں وہ پاکستان کی تاریخ میں ان چند شخصیات میں شامل ہیں جنہوں نے بیک وقت فوجی، انتظامی اور سیاسی طاقت اپنے ہاتھ میں رکھی۔
محمد ایوب خان 14 مئی 1907 کو صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) کے ضلع ہری پور کے گاؤں ریحانہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد وہ 1926 میں رائل ملٹری اکیڈمی سینڈہرسٹ میں داخل ہوئے اور 2 فروری 1928 کو برٹش انڈین آرمی میں کمیشن حاصل کیا۔ ان کی ترقی کا سفر ان کے نظم و ضبط اور انتظامی صلاحیتوں کا مظہر تھا۔ جب 1947 میں پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو ایوب خان ان چند مسلمان افسروں میں شامل تھے جو انڈین آرمی میں سینئر ترین حیثیت رکھتے تھے۔ وزیرِاعظم لیاقت علی خان نے انہیں پاکستان کی نئی فوج میں خدمات انجام دینے کے لیے منتخب کیا۔
17 جنوری 1951 کو ایوب خان کو جنرل سر ڈگلس گریسی کی جگہ پاک فوج کا کمانڈر اِن چیف مقرر کیا گیا — یوں وہ پاکستان کے پہلے مقامی سربراہِ فوج بن گئے۔ ان کا یہ دور 27 اکتوبر 1958 تک جاری رہا، اور اسی عرصے میں وہ بتدریج ملکی سیاست اور سول و عسکری نظام میں نمایاں قوت بن گئے۔
تاریخی موڑ 7 اکتوبر 1958 کو آیا جب صدر اسکندر مرزا نے 1956 کا آئین منسوخ کر کے قومی و صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر دیں اور پورے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔ انہوں نے جنرل ایوب خان کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا، جس کے ساتھ انہیں وسیع اختیارات حاصل ہو گئے۔

گزٹ آف پاکستان مورخہ 27 اکتوبر 1958 کے مطابق:
”صدرِ پاکستان اسکندر مرزا نے ستائیسویں روز اکتوبر 1958 کو، جنرل محمد ایوب خان، سپریم کمانڈر آف دی آرمڈ فورسز آف پاکستان اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کو وزیرِاعظم پاکستان مقرر کیا ہے۔ اطلاع دی جاتی ہے کہ جنرل محمد ایوب خان نے اسی روز قبل از دوپہر دفترِ وزیرِاعظم کا چارج سنبھال لیا ہے”۔
اسی کے ساتھ صدر نے لیفٹیننٹ جنرل محمد اعظم خان، لیفٹیننٹ جنرل ڈبلیو اے برکی، جناب محمد ابراہیم، لیفٹیننٹ جنرل کے ایم شیخ، جناب عبدالقاسم خان، خان ایف ایم خان، جناب ذوالفقار علی بھٹو اور جناب محمد حفیظ الرحمن کو پاکستان کی کابینہ کے وزراء مقرر کیے۔
28 اکتوبر 1958 کے اخبارات اور سرکاری ریکارڈ کے مطابق، جنرل محمد ایوب خان کی جانب سے صدر کے طور پر مندرجہ ذیل اعلامیہ جاری کیا گیا:
”چونکہ آج 27 اکتوبر 1958 کی رات 10 بجے میجر جنرل اسکندر مرزا، سابق صدرِ پاکستان، نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے کر تمام اختیارات میرے سپرد کر دیے ہیں، لہٰذا میں، جنرل محمد ایوب خان، چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور سپریم کمانڈر آف آرمڈ فورسز آف پاکستان، اسی شب 27 اکتوبر 1958 کو صدرِ پاکستان کا منصب سنبھالتا ہوں اور اس کے تمام اختیارات اپنے اختیار میں لیتا ہوں”۔
صدرِ پاکستان (1958–1969) کی حیثیت سے ایوب خان نے وسیع انتظامی اور معاشی اصلاحات نافذ کیں۔ ان کے دورِ حکومت میں پاکستان کی صنعتی ترقی، بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور غیرملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کی کوششیں نمایاں رہیں۔ ان کے ”عشر? ترقی” (1958–1968) کے دوران زراعت، صنعت اور تعلیم میں نمایاں پیش رفت ہوئی۔ منگلا اور تربیلا ڈیموں کی تعمیر، نئی جامعات کا قیام اور ”سبز انقلاب” کی مہم ان کے دور کی نمایاں کامیابیاں تھیں۔ تاہم، ان پالیسیوں نے علاقائی معاشی تفاوت کو بھی بڑھایا، جس کے باعث مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں عدم اطمینان پیدا ہوا۔
اس دور میں ایوب خان نے تمام انتظامی و سیاسی اختیارات اپنی ذات میں مرکوز کر لیے — وہ بیک وقت صدرِ پاکستان، چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر، کمانڈر اِن چیف اور وزیرِاعظم تھے۔
1962 میں ایوب خان نے نیا آئین نافذ کیا، جس نے 1956 کے آئین کی جگہ لی۔ اس نئے نظام نے پارلیمانی جمہوریت کے بجائے صدارتی طرزِ حکومت متعارف کرایا، جس میں اختیارات صدر کے ہاتھ میں مرکوز ہو گئے — اور وہ خود اسی منصب پر فائز تھے۔ یوں 1962 سے 1969 تک وہ ملک کے آئینی اور انتظامی سربراہ رہے۔
لیکن اقتدار اور مقبولیت کبھی طویل عرصے تک ساتھ نہیں چلتے۔ ملک کے دونوں حصوں میں سیاسی شعور کی بیداری، علاقائی تفاوت میں اضافہ اور محترمہ فاطمہ جناح اور بعد ازاں ذوالفقار علی بھٹو جیسے رہنماؤں کی مزاحمتی سیاست نے ان کے اقتدار کو کمزور کیا۔ 1969 کے اوائل میں عوامی احتجاج اور بدامنی کے نتیجے میں ایوب خان کو 25 مارچ 1969 کو استعفیٰ دینا پڑا اور انہوں نے اقتدار جنرل یحییٰ خان کے حوالے کر دیا۔
ایوب خان نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی اور اپنی باقی زندگی خاموشی سے گزاری۔ وہ 19 اپریل 1974 کو انتقال کر گئے اور اپنے آبائی گاؤں ریحانہ میں سپردِ خاک ہوئے۔ ان کی قبر آج بھی ایک ایسی شخصیت کی یاد دلاتی ہے جو معمولی پس منظر سے اٹھ کر ریاست کے اعلیٰ ترین مناصب تک پہنچی — اور جس کا نام آج بھی تاریخ دانوں اور اہلِ فکر کے درمیان بحث کا موضوع ہے۔ کچھ لوگ انہیں جدید پاکستان کا معمار اور نظم و ترقی کا علمبردار سمجھتے ہیں، جبکہ کچھ انہیں فوجی بالادستی کی بنیاد رکھنے والا اور جمہوری عمل کو محدود کرنے والا قرار دیتے ہیں۔
تاہم، یہ حقیقت کہ انہوں نے ایک ہی وقت میں صدر، وزیرِاعظم اور آرمی چیف کے مناصب سنبھالے، ان کے اقتدار کی اصل وسعت کو ظاہر کرتی ہے۔ وہ ایک ایسا دور تھا جب ایک شخص نے پاکستان کو مکمل طور پر — سیاسی، عسکری اور انتظامی لحاظ سے — اپنے اختیار میں لیا ہوا تھا۔ ایوب خان کی حکمرانی کا مطالعہ دراصل ایک فرد کی خواہشِ اقتدار کا نہیں بلکہ قوم کی اُس ازلی کشمکش کا آئینہ ہے جو جمہوریت اور نظم و ضبط، منتخب قیادت اور راہنمائی کے نظریے کے درمیان ہمیشہ جاری رہی۔
تاریخ کے ان ابواب کو دوبارہ پڑھنے سے احساس ہوتا ہے کہ سچائی اکثر عوامی یادداشت کے افق سے پرے ہوتی ہے۔ وہ اس انتظار میں رہتی ہے کہ کوئی انہیں پھر سے دریافت کرے — نہ کسی کو عظیم ثابت کرنے کے لیے، نہ کسی کو گرانے کے لیے — بلکہ اس لیے کہ قومیں اپنے رہنماؤں سے سیکھ کر ہی آگے بڑھتی ہیں، چاہے وہ مثال عبرت بنیں یا نمونہ عمل۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرچین کمبوڈیا کی ترقی اور خودمختاری کی حمایت جاری رکھے گا، چینی صدر ستائیسویں آئینی ترامیم۔ مجسٹریٹی نظام کی واپسی ،بیورو کریسی کو مزید طاقتور بنانے کا منصوبہ۔ بھارتی سازش 1947 نومبر 6 مسلمانوں کا جموں میں قتل عام “ژالہ باری کی سرد چپ” میرا لاہور ایسا تو نہ تھا سوشل میڈیا ہماری خودی کو کیسے بدل رہا ہے. کشمیر سے فلسطین تک — ایک ہی کہانی، دو المیے TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • کیا چارجرز پلگ میں لگے رہنے سے بجلی ضائع ہوتی ہے؟
  • چینی صدر کے خصوصی ایلچی اور وزیر آبی وسائل لی گو اینگ کی بولیویا کے نئے صدر کی حلف برداری تقریب میں شرکت
  • تمام اتحادی جماعتوں نے اس قومی سوچ کا بھرپور  ساتھ دیا؛ وزیراعظم
  • ایوب خان ۔۔۔ کمانڈر ان چیف سے وزیرِاعظم اور صدرِپاکستان تک
  • پاکستان سرکاری اصلاحات کے لیے ایک ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضے حاصل کرے گا
  • بی جے پی اور بی آر ایس فرقہ وارانہ مسائل پر پروان چڑھ رہے ہیں، اظہر الدین
  • کابینہ اجلاس، ایم کیو ایم کا مجوزہ بل زیر غور آنا، ایم کیو ایم کی بہت بڑی کامیابی ہے: مصطفیٰ کمال
  • بی جے پی فرقہ وارانہ مسائل پر پروان چڑھ رہی ہے: اظہر الدین
  • توانائی شعبے کا گردشی قرض، 659 اعشاریہ 6 ارب کی حکومتی گارنٹی کی منظوری
  • پاکستان میں گوگل کے دفاتر کا قیام، وزیرِ اعظم شہباز شریف کا خیر مقدم