مریم نواز سیاسی طریقے سے بات کریں، ایمانداری کا سرٹیفکیٹ پنجاب حکومت سے نہیں لینا، سندھ حکومت
اشاعت کی تاریخ: 27th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (اسٹاف رپورٹر) وزیر اطلاعات سندھ شرجیل انعام میمن نے کہا ہے کہ مریم نواز میری سیاسی طریقے سے بات کریں، خود داری یا ایمان داری کا سرٹیفکیٹ پنجاب حکومت سے نہیں لینا، عوام جانتے ہیں کہ کون کس صوبے کی حالت بہتر رکھتا ہے اور الیکشن کیسے جیتتا ہے، بلاول زرداری نے بی آئی ایس پی والی بات بھی پنجاب حکومت سے نہیں وزیراعظم کو مخاطب کرکے کہی تھی، ہم وفاق سے بات کرتے ہیں تو پنجاب کو اعتراض ہوتا ہے۔ کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت کسانوں کو مدد فراہم کررہی ہے اور گندم کے کسانوں کو سپورٹ کررہی ہے، پیپلز پارٹی نے ہمیشہ کسانوں کو سپورٹ کیا، کل بلاول نے انقلابی پالیسی کا اعلان کیا ان کی پالیسی سے کسان خوشحال ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ 25 ایکڑ تک کے کاشت کاروں کو کھاد اور بیج دیا جارہا ہے، 25 ایکڑ سے کم زمین والے کسان کو ہر ایکڑ کے عوض کھاد دی جائے گی، 4 لاکھ 4 ہزار 408 کسانوں کو پیکیج ملے گا، اس پیکیج سے 22 لاکھ ایکڑ زمین آباد ہوگی کسی کمپنی نے کھاد بلیک کی تو اسے بلیک لسٹ کردیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ 2008ء سے قبل پاکستان گندم درآمد کرتا تھا اور اس کے بعد برآمد کرنے لگا، گندم درآمد کرنے سے زرمبادلہ ضائع ہوگا، صدر زرداری نے گندم کے لیے مربوط پالیسی بنائی، وفاقی حکومت کو سبسڈی کے لیے آئی ایم ایف سے بات کرنی چاہیے کیوں کہ آئی ایم ایف کی شرائط کے سبب گندم کی امدادی قیمت بند کی گئی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی گزشتہ روز کی تقریر پر ردعمل دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بلاول کی باتیں پنجاب کو عجیب لگتی ہیں، وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا خوددار آدمی امداد کی اپیل کیسے کرسکتا ہے؟ عالمی اداروں سے مدد کی اپیل بلاول کی تھی، وزیراعلیٰ پنجاب کے ریمارکس نامناسب نہیں تھے، اپیل کرنے والا کیا خود دار نہیں؟ ایسا کہنا غلط ہے۔ شرجیل میمن نے کہا کہ پیپلز پارٹی سیلاب پر سیاست نہیں کررہی، جب بھی بلاول وزیراعظم کی تعریف کرتے ہیں پنجاب حکومت کو تکلیف ہوتی ہے، بلاول نے بی آئی ایس پی والی بات بھی پنجاب حکومت سے نہیں وزیراعظم کو مخاطب کرکے کہی تھی، ہم وفاقی حکومت سے بات کرتے ہیں تو پنجاب حکومت کو اعتراض ہوتا ہے۔ وزیر اطلاعات سندھ کا کہنا تھا کہ مریم نواز میری بہنوں جیسی ہیں مگر جب بات کریں تو سیاسی طریقے سے بات کریں، خود داری یا ایمان داری کا سرٹیفکیٹ پنجاب حکومت سے نہیں لینا، پیپلز پارٹی نے سیلاب متاثرین کی خدمت کرتے ہوئے ٹک ٹاک نہیں بنوائے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پنجاب حکومت سے نہیں کسانوں کو مریم نواز نے کہا کہ بات کریں سے بات
پڑھیں:
سندھ کے عوام بھی مریم نواز جیسی وزیراعلیٰ چاہتے ہیں، عظمیٰ بخاری
لاہور: وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی نے سندھ کو اس حال میں پہنچا دیا ہے کہ وہاں کے لوگ بھی اب مریم نواز جیسی وزیراعلیٰ کی خواہش رکھتے ہیں۔
پیپلز پارٹی رہنماؤں کی پریس کانفرنس پر ردعمل دیتے ہوئے عظمیٰ بخاری نے سوال اٹھایا کہ سندھ سے آکر پنجاب میں بیٹھنے والے رہنما آخر پنجاب کے حق میں کب بات کریں گے؟ کیا آپ چاہتے ہیں کہ پنجاب میں عوام کو گندم، آٹا اور روٹی تک نہ ملے؟ ایک طرف نقصان کی دہائی دی جا رہی ہے، دوسری طرف بچی ہوئی گندم بھی باہر بھیجنے کی بات ہو رہی ہے۔ یہ دوغلا پن نہیں تو اور کیا ہے؟ اسی کو “سیلابی سیاست” کہا جاتا ہے۔
انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا کہ اگر سندھ میں ہر سال سیلاب آتا ہے، تو ہر سال آپ سندھ کو بھی ڈبوتے ہیں؟ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ سیاست نہیں کرنا چاہتے، لیکن پوری پریس کانفرنس صرف سیاست پر ہی مبنی تھی۔ سوال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے آج تک سیلاب متاثرین کے لیے کیا عملی اقدامات کیے؟ صرف باتیں کرنے سے عوام کی مدد نہیں ہوتی۔
عظمیٰ بخاری نے کہا کہ پنجاب پر آئی ایم ایف کا الزام لگانا بے بنیاد ہے، پہلے یہ بتائیں کہ سندھ میں خود گندم خریدی گئی یا نہیں؟ اگر نہیں تو وہاں کس قانون کے تحت کام ہو رہا ہے؟
انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو خود مریم نواز کی کارکردگی کی تعریف کر چکے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ سندھ کے لوگ بھی چاہتے ہیں کہ ان کے پاس مریم نواز جیسی وژنری اور فعال وزیراعلیٰ ہو۔
بی آئی ایس پی سے متعلق بات کرتے ہوئے عظمیٰ بخاری نے واضح کیا کہ حکومت اسے ختم نہیں کر رہی، لیکن یہ سوال ضرور ہے کہ ہر بار سیلاب کے موقع پر اس فلاحی پروگرام کو سیاسی مقاصد کے لیے کیوں استعمال کیا جاتا ہے؟ بی آئی ایس پی کا اپنا قانون اور طریقہ کار ہے، اسے بار بار سیاسی نعروں میں کیوں گھسیٹا جا رہا ہے؟
انہوں نے آخر میں کہا کہ اگر آپ واقعی اتنے “سیانے” ہوتے تو آج پنجاب میں آپ کی یہ سیاسی حالت نہ ہوتی۔ اگر کچھ کرنے کی اہلیت رکھتے تو گھروں میں بیٹھ کر حکومت کو نہ سکھا رہے ہوتے کہ کہاں بند ٹوٹنا تھا اور کہاں پانی آنا تھا۔ ایسے فیصلے حکومتیں زمینی حقائق اور حالات کے مطابق کرتی ہیں، نہ کہ محض قیاس آرائیوں سے۔