وزیراعظم کا اقوام متحدہ سے خطاب
اشاعت کی تاریخ: 27th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کئی اہم نکات اجاگر کیے۔ ان کے خطاب میں جہاں پاکستان کی دفاعی کامیابیوں اور خطے میں امن کے قیام کی خواہش کا اظہار تھا، وہیں فلسطین، کشمیر، موسمیاتی تبدیلی، اسلاموفوبیا اور معاشی اصلاحات جیسے موضوعات بھی شامل تھے۔ بظاہر یہ ایک اس طرح کے فورم میں ہونے والی تقریروں کی طرح تھی، لیکن دراصل یہ پاکستان کے موقف اور امت مسلمہ کے اجتماعی درد کی عکاس تھی۔ تاہم سوال یہ ہے کہ کیا صرف بیانات اور قراردادیں کافی ہیں؟ یا وقت اس بات کا تقاضا کر رہا ہے کہ پاکستان اور امت مسلمہ عملی اقدامات کی طرف بڑھیں؟ پاکستان اس وقت عالم میں اہمیت کا حامل ملک ہے اس کی اسٹرٹیجک حقیقت مسلّم ہے۔ برصغیر، مشرق وسطیٰ، وسط ایشیا اور چین کے درمیان واقع پاکستان عالمی سیاست کا محور ہے۔ اس کی ایٹمی صلاحیت اور دنیا کی بہترین افواج میں شامل عسکری ڈھانچہ اسے خطے اہم بناتا ہے۔ وزیراعظم کا یہ دعویٰ کہ پاکستان جنگ جیت چکا ہے اور اب امن چاہتا ہے، اپنی جگہ درست ہے، لیکن امن صرف اسی وقت ممکن ہے جب بھارت بھی حقیقت کو تسلیم کرے۔ کشمیر کی جدوجہد ِ آزادی کو کچلنا اور سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ معطل کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ نئی دہلی امن نہیں بلکہ بالادستی چاہتا ہے۔ پاکستان کو دنیا کو یہ باور کرانا ہوگا کہ جنوبی ایشیا میں امن کی کنجی صرف مذاکرات نہیں بلکہ انصاف ہے۔ وزیراعظم نے مقبوضہ کشمیر کے عوام سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ایک بار پھر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی یاد دہانی کرائی۔ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر محض ایک سرحدی تنازع نہیں بلکہ انسانی حقوق کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ بھارت کی ہندوتوا پالیسی کشمیری عوام کو جبر و استبداد کے ذریعے غلام بنانا چاہتی ہے۔ پاکستان کی ذمے داری ہے کہ وہ کشمیری عوام کی آواز کو عالمی پلیٹ فارم پر مزید بلند کرے۔ جب تک بھارت ظلم سے باز نہیں آتا، جامع مذاکرات کی بات ادھوری رہے گی۔ امن کی شرط انصاف ہے اور انصاف کے بغیر کوئی پائیدار امن ممکن نہیں۔ وزیراعظم نے فلسطین کے مسئلے پر موثر انداز میں بات کی اور اسرائیل کی نسل کشی کو تاریخ کا بدترین باب قرار دیا۔ غزہ کی جانب توجہ مبذول کراتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فلسطینی عوام کی حالت ِ زار ہمارے دور کے سب سے دل دہلا دینے والے المیوں میں سے ایک ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ طویل ناانصافی عالمی ضمیر پر ایک گہرا داغ اور ہماری اجتماعی اخلاقی ناکامی ہے، تقریباً اسّی برسوں سے فلسطینی اپنی سرزمین پر اسرائیل کے ظالمانہ اور جابرانہ قبضے کا بہادری سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ مغربی کنارے میں غیرقانونی آباد کار بلاخوف و خطر روزانہ فلسطینیوں پر مظالم ڈھا رہے ہیں اور کوئی ان سے بازپْرس کرنے والا نہیں ہے۔ وزیراعظم نے واضح کیا کہ غزہ میں جو تباہی جاری ہے، وہ نسل کشی کے زمرے میں آتی ہے؛ عورتیں اور بچے جان بوجھ کر نشانہ بنائے جا رہے ہیں، اور یہ ظلم ایسے پیمانے پر ہے جس کی نظیر تاریخ کے تاریک اور ناقابل ِ فراموش ابواب میں ملے گی۔ انہوں نے 6 سالہ فلسطینی بچی ہند رجب کی مثال دے کر دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی، جو اپنے خاندان کے ساتھ غزہ سے جاتے وقت شہید ہوئی، ہند رجب کی کہانی اس جنگ کے سب سے دلخراش مناظر میں سے ایک بن چکی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ہم سب نے اْس فون کال میں اس کی کانپتی ہوئی آواز سنی تھی، جب ننھی ہند نے اسرائیلی حملے کے دوران زندہ رہنے کی جدوجہد میں مدد مانگی تھی‘‘۔ اپنے خطاب کو جذباتی انداز میں جاری رکھتے ہوئے انہوں نے مخاطب سے سوال کیا ’’کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ وہ ننھی ہند ہماری بیٹی ہوتی؟ ہم اسے بچانے میں ناکام رہے، اور یہ ناکامی ہمیں اس دنیا میں اور آخرت میں معاف نہیں ملے گی‘‘۔ لیکن یہاں پاکستان اور عالم اسلام کو ایک قدم آگے بڑھنا ہوگا۔ فلسطین پر اسرائیل کا قبضہ ہے، اور اصل حل صرف اسی وقت ممکن ہے جب یہ ناجائز قبضہ ختم ہو۔ دو ریاستی حل کی گردان دراصل مسئلے کو طول دینے کی سازش ہے۔ اسلامی ممالک کو اب یہ طے کر لینا ہوگا کہ ’’ابھی نہیں یا کبھی نہیں‘‘ کے تحت اسرائیل کے غاصبانہ وجود کو مزید قبول نہیں کیا جائے گا۔ فلسطین کی آزادی امت مسلمہ کی اجتماعی ذمے داری ہے، اور اگر آج بھی مسلمان ممالک عملی اقدامات نہ کریں تو تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ وزیراعظم نے ترکیہ، سعودی عرب، ایران، چین اور دیگر دوست ممالک کا شکریہ ادا کیا۔ لیکن سچ یہ ہے کہ ملنے ملانے کے باوجود امت مسلمہ آج اپنے اپنے مفادات کے باعث بکھری ہوئی ہے۔ باہمی اختلافات اور داخلی کمزوریوں نے اسے کمزور کر دیا ہے۔ فلسطین، کشمیر اور دیگر مسائل پر مسلمانوں کے پاس قراردادیں تو ہیں مگر عملی لائحہ عمل نہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اسلامی ممالک ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوں، اسرائیل کے ساتھ تعلقات ختم کریں، کشمیر پر بھارت پر دباؤ بڑھائیں اور عالمی سطح پر ایک متفقہ حکمت عملی اپنائیں۔ امت مسلمہ اگر اب بھی بیدار نہ ہوئی تو آنے والی نسلیں اس کی کمزوری کو ناقابل ِ معافی جرم سمجھیں گی۔ اپنے خطاب میں وزیراعظم نے درست نشاندہی کی کہ پاکستان گلوبل وارمنگ میں ایک فی صد سے بھی کم حصہ ڈالتا ہے لیکن اس کے باوجود دنیا کے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں شامل ہے۔ 2022 کے سیلاب نے اربوں ڈالر کا نقصان پہنچایا اور لاکھوں افراد بے گھر ہوئے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ عالمی برادری کے سامنے ماحولیاتی انصاف کا مقدمہ مزید شدت سے لڑے۔ لیکن ساتھ ہی داخلی سطح پر شفافیت اور وسائل کے درست استعمال کو یقینی بنانا بھی ضروری ہے۔ دنیا کو یہ دکھانا ہوگا کہ پاکستان صرف امداد کا خواہاں نہیں بلکہ اصلاحات اور اقدامات کے ذریعے اپنی ذمے داری بھی نبھا رہا ہے۔ وزیراعظم نے بجا طور پر کہا کہ افغانستان کا امن پورے خطے کے امن سے جڑا ہوا ہے۔ دہشت گرد گروہوں کے خاتمے اور انسانی حقوق کے احترام کے بغیر افغانستان مستحکم نہیں ہو سکتا۔ پاکستان نے ہمیشہ امن کے لیے کردار ادا کیا ہے لیکن عالمی طاقتوں کو بھی اپنی ذمے داری ادا کرنا ہوگی۔ خطے کی پائیدار ترقی اسی وقت ممکن ہے جب افغانستان سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔ وزیرعظم نے اسلاموفوبیا اور بھارت کی ہندوتوا پالیسی پر بھی بات کی۔ یہ حقیقت ہے کہ مغربی دنیا میں اسلام کے خلاف نفرت انگیز رجحانات اور بھارت میں مسلمانوں پر مظالم عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ پاکستان کو او آئی سی کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ میں ایسی قانون سازی کی مہم چلانی چاہیے جو اسلاموفوبیا کو عالمی جرم کے طور پر تسلیم کرے۔ مسلمانوں کو اپنے عقیدے کے تحفظ کے لیے متحد ہونا ہوگا، ورنہ یہ نفرت آگے چل کر پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ وزیراعظم نے معاشی اصلاحات، ڈیجیٹلائزیشن، آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور کرپٹو کرنسی کی بات کی۔ یہ سب جدید تقاضے ہیں اور خوش آئند بھی، لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ جب تک کرپشن، نااہلی اور بدانتظامی ختم نہیں ہوگی، کوئی بھی اصلاح دیرپا نہیں ہوسکے گی۔ قوم کو یہ پیغام دینا ہوگا کہ اصل تبدیلی طاقتور کو قانون کے تابع کرنے اور شفاف حکمرانی کے قیام میں ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کا خطاب کئی حوالوں سے اہم اور جامع تھا۔ اس نے پاکستان کے مؤقف کو دنیا کے سامنے رکھا اور امت مسلمہ کے دکھوں کی عکاسی کی۔ مگر اب اصل امتحان تقریر کے بعد شروع ہوتا ہے۔ پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی کو قائداعظم کے وژن کے مطابق جرأت مند اور فعال بنانا ہوگا۔ فلسطین اور کشمیر پر غیر متزلزل موقف کے ساتھ کچھ آگے بڑھنا ہوگا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ پاکستان کو کہ پاکستان نہیں بلکہ انہوں نے یہ ہے کہ ہوگا کہ کے ساتھ
پڑھیں:
اسلام آباد خودکش حملے پر عالمی سطح پر مذمت، اقوام متحدہ، امریکا، چین اور ترکی کا اظہارِ افسوس
اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت میں ہونے والے خودکش حملے کے بعد عالمی رہنماؤں اور تنظیموں کی جانب سے شدید مذمتی بیانات سامنے آئے ہیں۔ اقوام متحدہ، امریکہ، چین، برطانیہ، ترکی، قطر اور متحدہ عرب امارات نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے متاثرہ خاندانوں سے تعزیت اور زخمیوں کی جلد صحتیابی کی دعا کی ہے۔
گزشتہ روز اسلام آباد کے جی-11 ڈسٹرکٹ جوڈیشل کمپلیکس کے باہر ہونے والے خودکش دھماکے میں 12 افراد جاں بحق اور 36 زخمی ہوئے تھے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وہ متاثرین کے اہل خانہ سے دلی تعزیت کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ترجمان فرحان عزیز حق نے کہا کہ سیکریٹری جنرل دہشت گردی کے تمام واقعات کی شدید مذمت کرتے ہیں اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔
The United States stands in solidarity with Pakistan in the struggle against terrorism. Our condolences to the families of those who lost their lives in today’s senseless attack. We wish a swift recovery to those injured. We condemn this attack and all forms of terrorism and…
— U.S. Embassy Islamabad (@usembislamabad) November 11, 2025امریکہ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (سابق ٹوئٹر) پر بیان میں کہا کہ "ہم پاکستان کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کھڑے ہیں۔ ہماری ہمدردیاں ان خاندانوں کے ساتھ ہیں جنہوں نے اپنے پیارے کھوئے۔"
چین نے بھی اسلام آباد دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے متاثرہ خاندانوں سے "گہرے دکھ" کا اظہار کیا۔
We strongly condemn the suicide blast near Islamabad District Judicial Complex, extend our deepest condolences to the deceased victims, express our sincere sympathies to their families and the injured, and we wish for the early recovery of the injured.
— Chinese Emb Pakistan (@CathayPak) November 11, 2025برطانیہ کے ہائی کمشنر جین میریٹ نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ متاثرین کے اہل خانہ سے تعزیت کرتی ہیں اور برطانوی شہریوں کو پاکستان میں سفر کے دوران احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا مشورہ دیا۔ برطانوی حکومت نے اس واقعے کے بعد اپنے ٹریول ایڈوائزری کو بھی اپ ڈیٹ کیا۔
ترکی کی وزارتِ خارجہ نے کہا کہ وہ اسلام آباد میں ہونے والے خودکش حملے کی شدید مذمت کرتا ہے اور پاکستان کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں یکجہتی کا اظہار کرتا ہے۔
We are aware of an explosion in Islamabad which has reportedly left several people dead. We are closely tracking, and British nationals should monitor travel advice. My thoughts are with the loved ones of those who have lost their lives.
— Jane Marriott (@JaneMarriottUK) November 11, 2025اسی طرح قطر اور متحدہ عرب امارات نے بھی اسلام آباد اور جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کی شدید مذمت کی۔ ان ممالک نے پاکستان کی حکومت اور عوام سے مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہر قسم کی دہشت گردی، تشدد اور انتہا پسندی کی مخالفت کرتے ہیں۔
اسلام آباد دھماکے کے بعد عالمی برادری کا اتفاق رائے یہی ہے کہ ایسے بزدلانہ اقدامات پاکستان کو کمزور نہیں کرسکتے، بلکہ دہشت گردی کے خلاف عزم کو مزید مضبوط کریں گے۔