سپر ٹیکس قانون سازی میں تضاد، سپریم کورٹ میں اہم نکات سامنے آگئے
اشاعت کی تاریخ: 29th, September 2025 GMT
سپریم کورٹ کے 5 رکنی آئینی بینچ نے سپر ٹیکس سے متعلق مختلف کمپنیوں کی درخواستوں پر سماعت کی۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں قائم بینچ میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر سمیت دیگر جج صاحبان شامل تھے۔
سماعت کے دوران درخواست گزار کمپنیوں کے وکلا امتیاز رشید صدیقی اور شہزاد عطا الہی نے اپنے دلائل پیش کیے۔
یہ بھی پڑھیں: موٹر وے اور جی ٹی روڈ ٹول ٹیکس میں اضافہ بھتے کی مانند ہے، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن
امتیاز رشید صدیقی نے مؤقف اختیار کیا کہ پاکستان جیسے ملک میں سپر ٹیکس لگانے کا فیصلہ خود سوالیہ نشان ہے اور اس پر نظرِ ثانی ناگزیر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ لاہور ہائیکورٹ کے سنگل اور ڈویژن بینچز پہلے ہی ٹیکس دہندگان کو ریلیف دے چکے ہیں، اور آئین پاکستان بھی شہریوں کو اس سلسلے میں تحفظ فراہم کرتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یکم جولائی 2022 سے انہیں وہ ٹیکس بھی دینا پڑ رہا ہے جو وہ گزشتہ سال پہلے ہی ادا کرچکے ہیں، جو آئینی طور پر درست نہیں۔
مزید پڑھیں: ایف بی آر کی ٹیکس دہندگان کیخلاف ایف آئی آرز، گرفتاریاں اور ٹرائلز غیر قانونی قرار، سپریم کورٹ کا بڑا، تفصیلی فیصلہ جاری
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ سندھ سمیت مختلف صوبوں سے 2023 کے تمام کیسز اسلام آباد ہائیکورٹ میں منتقل ہوئے ہیں۔
وکیل شہزاد عطا الہی نے عدالت کو بتایا کہ 10 جون 2022 کو پیش کیا گیا بل صرف بینکوں کے لیے تھا، مگر 24 جون کو اچانک 13 مزید سیکٹرز کو بھی شامل کردیا گیا۔
ان کے مطابق اس وقت کے وفاقی وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر میں کہا تھا کہ 30 کروڑ روپے سے زائد آمدنی پر 10 فیصد سپر ٹیکس عائد ہوگا۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: سپر ٹیکس کا ایک روپیہ بھی بے گھر افراد کی بحالی پر خرچ نہیں ہوا، وکیل مخدوم علی خان کا دعویٰ
جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ انہیں تو اس وقت کے وفاقی وزیر پر ترس آرہا ہے۔
شہزاد عطا الہی نے مزید کہا کہ ایف بی آر کے پاس محض 116 کمپنیوں کا ڈیٹا ہے جو اسٹیٹ بینک نے فراہم کیا، جبکہ حقیقت میں ملک میں سینکڑوں بڑی کمپنیاں موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں نے اپٹما میں 500 کمپنیوں کی فہرست دیکھی ہے لیکن حکومت کے پاس صرف 20 فیصد کمپنیوں کا ریکارڈ ہے۔
مزید پڑھیں: ٹیکس کا سارا بوجھ عوام پر، لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کریں گے تو کام چلیں گے، سپریم کورٹ
شہزاد عطا الہی کے مطابق دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت کے پاس جن کمپنیوں کا ڈیٹا موجود ہے وہ خود ہر 3 ماہ بعد اپنی تفصیلات شائع کرتی ہیں۔
عدالت نے شہزاد عطا الہی کے دلائل جاری رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت کل صبح ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آئینی بینچ امتیاز رشید صدیقی جسٹس امین الدین خان جسٹس جمال مندوخیل جسٹس محمد علی مظہر سپر ٹیکس سپریم کورٹ شہزاد عطا الہی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امتیاز رشید صدیقی جسٹس امین الدین خان جسٹس جمال مندوخیل جسٹس محمد علی مظہر سپر ٹیکس سپریم کورٹ شہزاد عطا الہی شہزاد عطا الہی سپریم کورٹ سپر ٹیکس کہا کہ
پڑھیں:
ایس ایچ او تھانے کا کرتا دھرتا، کسی شہری کو بلاوجہ حوالات میں بند کرنا زیادتی ہے: جسٹس عقیل عباسی
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ ہماری بادشاہت تو نہیں جو چاہیں کردیں، ہم نے قانون کو دیکھ کر ہی فیصلہ کرنا ہے۔ سپریم کورٹ میں اختیارات کے غلط استعمال پر برطرف ایس ایچ او کی اپیل پر سماعت ہوئی، جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سماعت کی۔ سپریم کورٹ نے درخواست پر فریقین کو نوٹسز جاری کردئیے، وکیل عمیر بلوچ نے مؤقف اپنایا کہ دیگر پولیس اہلکاروں کی غلطی پربے قصور برطرف کیا گیا، جوان آدمی ہے، ابھی ساری زندگی پڑی ہے۔ جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ ایس ایچ او تھانے کا کرتا دھرتا ہوتا ہے، کسی عام شہری کو بلاوجہ تھانے میں بند کرنا زیادتی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ہماری بادشاہت تو نہیں، جو چاہیں کردیں، ہم نے قانون کو دیکھ کر ہی فیصلہ کرنا ہے، ساری گواہیاں آپ کے خلاف ہیں۔ وکیل عمیر بلوچ نے مؤقف اپنایا کہ نہ کوئی شکایت ہے نہ ہی کسی نے خلاف گواہی دی، عدالت عظمیٰ نے کیس کی مزید سماعت غیرمعینہ مدت کیلئے ملتوی کردی۔ راولپنڈی کے تھانہ ڈھڈیال کے سابق ایس ایچ او یاسر محمد کو 2 خواتین سمیت 4 شہریوں کو حبس بیجا میں رکھنے پر برطرف کیا گیا تھا۔