سپریم کورٹ کے 5 رکنی آئینی بینچ نے سپر ٹیکس سے متعلق مختلف کمپنیوں کی درخواستوں پر سماعت کی۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں قائم بینچ میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر سمیت دیگر جج صاحبان شامل تھے۔

سماعت کے دوران درخواست گزار کمپنیوں کے وکلا امتیاز رشید صدیقی اور شہزاد عطا الہی نے اپنے دلائل پیش کیے۔

یہ بھی پڑھیں: موٹر وے اور جی ٹی روڈ ٹول ٹیکس میں اضافہ بھتے کی مانند ہے، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن

امتیاز رشید صدیقی نے مؤقف اختیار کیا کہ پاکستان جیسے ملک میں سپر ٹیکس لگانے کا فیصلہ خود سوالیہ نشان ہے اور اس پر نظرِ ثانی ناگزیر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ لاہور ہائیکورٹ کے سنگل اور ڈویژن بینچز پہلے ہی ٹیکس دہندگان کو ریلیف دے چکے ہیں، اور آئین پاکستان بھی شہریوں کو اس سلسلے میں تحفظ فراہم کرتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یکم جولائی 2022 سے انہیں وہ ٹیکس بھی دینا پڑ رہا ہے جو وہ گزشتہ سال پہلے ہی ادا کرچکے ہیں، جو آئینی طور پر درست نہیں۔

مزید پڑھیں: ایف بی آر کی ٹیکس دہندگان کیخلاف ایف آئی آرز، گرفتاریاں اور ٹرائلز غیر قانونی قرار، سپریم کورٹ کا بڑا، تفصیلی فیصلہ جاری

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ سندھ سمیت مختلف صوبوں سے 2023 کے تمام کیسز اسلام آباد ہائیکورٹ میں منتقل ہوئے ہیں۔

وکیل شہزاد عطا الہی نے عدالت کو بتایا کہ 10 جون 2022 کو پیش کیا گیا بل صرف بینکوں کے لیے تھا، مگر 24 جون کو اچانک 13 مزید سیکٹرز کو بھی شامل کردیا گیا۔

ان کے مطابق اس وقت کے وفاقی وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر میں کہا تھا کہ 30 کروڑ روپے سے زائد آمدنی پر 10 فیصد سپر ٹیکس عائد ہوگا۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: سپر ٹیکس کا ایک روپیہ بھی بے گھر افراد کی بحالی پر خرچ نہیں ہوا، وکیل مخدوم علی خان کا دعویٰ

جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ انہیں تو اس وقت کے وفاقی وزیر پر ترس آرہا ہے۔

شہزاد عطا الہی نے مزید کہا کہ ایف بی آر کے پاس محض 116 کمپنیوں کا ڈیٹا ہے جو اسٹیٹ بینک نے فراہم کیا، جبکہ حقیقت میں ملک میں سینکڑوں بڑی کمپنیاں موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں نے اپٹما میں 500 کمپنیوں کی فہرست دیکھی ہے لیکن حکومت کے پاس صرف 20 فیصد کمپنیوں کا ریکارڈ ہے۔

مزید پڑھیں: ٹیکس کا سارا بوجھ عوام پر، لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کریں گے تو کام چلیں گے، سپریم کورٹ

شہزاد عطا الہی کے مطابق دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت کے پاس جن کمپنیوں کا ڈیٹا موجود ہے وہ خود ہر 3 ماہ بعد اپنی تفصیلات شائع کرتی ہیں۔

عدالت نے شہزاد عطا الہی کے دلائل جاری رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت کل صبح ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آئینی بینچ امتیاز رشید صدیقی جسٹس امین الدین خان جسٹس جمال مندوخیل جسٹس محمد علی مظہر سپر ٹیکس سپریم کورٹ شہزاد عطا الہی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: امتیاز رشید صدیقی جسٹس امین الدین خان جسٹس جمال مندوخیل جسٹس محمد علی مظہر سپر ٹیکس سپریم کورٹ شہزاد عطا الہی شہزاد عطا الہی سپریم کورٹ سپر ٹیکس کہا کہ

پڑھیں:

سپریم کورٹ: ہمارے پاس کھونے کو کچھ نہیں بچا، جسٹس ہاشم کاکڑ کے ذومعنی ریمارکس

 فیصل آباد کی ایک ٹرائل کورٹ کی جانب سے پولیس افسر کے خلاف دی گئی آبزرویشنز کے معاملے کی سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران کمرۂ عدالت ہلکے پھلکے مکالموں سے گونج اٹھا۔

جسٹس ہاشم کاکڑ اور ڈی آئی جی اسلام آباد ہیڈکوارٹر ملک جمیل ظفر کے درمیان دلچسپ تبادلۂ خیال پر عدالت میں قہقہے لگے۔

سماعت کے دوران ڈی آئی جی اسلام آباد ہیڈکوارٹر کے ہمراہ موجود وکیل شاہ خاور نے بتایا کہ فیصل آباد کی ٹرائل کورٹ میں ایک فوجداری مقدمہ زیرِ سماعت تھا، جہاں عدالت نے گواہوں کی حاضری یقینی بنانے کا حکم جاری کیا۔

یہ بھی پڑھیں: خواتین کو وراثت سے محروم کرنا اسلام کے خلاف ہے، سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ

ان کے مطابق اُس وقت درخواست گزار ایس پی کے عہدے پر تعینات تھے اور ٹرائل کورٹ نے اپنے فیصلے میں ان کے خلاف آبزرویشنز دی تھیں۔

جسٹس اشتیاق ابراہیم نے ریمارکس دیے کہ صرف لوگوں کو جیل میں ڈالنا کافی نہیں، عدالتوں میں گواہوں کو پیش بھی کرنا ہوتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ٹرائل کورٹ کے جج خود جا کر گواہ نہیں لا سکتے۔

اسی دوران جسٹس ہاشم کاکڑ نے مسکراتے ہوئے شاہ خاور سے دریافت کیا کہ یہ جو آپ کے ساتھ پولیس آفیسر کھڑے ہیں، کیا یہی ڈی آئی جی ہیں۔

مزید پڑھیں:

جواب میں شاہ خاور نے بتایا کہ جی مائی لارڈ، یہی ہیں۔

جس پر جسٹس ہاشم کاکڑ نے مزاحیہ انداز میں کہا کہ یہ دیکھیں یہ یہاں کھڑے ہمیں ڈرا رہے ہیں۔

انہوں نے ڈی آئی جی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ارے بھائی ہمارے پاس تو ویسے بھی اب کھونے کو کچھ نہیں بچا۔

ان ریمارکس پر کمرۂ عدالت میں ایک بار پھر قہقہے گونج اٹھے۔

مزید پڑھیں:جسٹس منصور شاہ جج نہیں رہے تو کوئی فرق نہیں پڑتا: سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن

بعد ازاں سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ ٹرائل کورٹ کی آبزرویشنز کے خلاف لاہور ہائیکورٹ کے ایک جج نے چیمبر میں فیصلہ سناتے ہوئے ان آبزرویشنز کو برقرار رکھا تھا۔

تاہم سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے اپیل بحال کردی۔

درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ ہائیکورٹ نے انہیں سنے بغیر فیصلہ دیا۔

سپریم کورٹ نے ہدایت کی کہ لاہور ہائیکورٹ معاملے کو میرٹس پر 2 ماہ کے اندر سن کر فیصلہ کرے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسلام اباد پولیس ٹرائل کورٹ جسٹس ہاشم کاکڑ ڈی آئی جی سپریم کورٹ لاہور ہائیکورٹ

متعلقہ مضامین

  • سپریم کورٹ: ہمارے پاس کھونے کو کچھ نہیں بچا، جسٹس ہاشم کاکڑ کے ذومعنی ریمارکس
  • 27 ویں آئینی ترمیم،تحریک تحفظ آئین پاکستان کا سپریم کورٹ کے سامنے احتجاج کا فیصلہ
  • جسٹس اطہر من اللّٰہ کا استعفے سے قبل تحریر کیا گیا فیصلہ سامنے آگیا
  • خواتین کو وراثت سے محروم کرنا اسلام کے خلاف ہے، سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ
  • سپریم کورٹ کا خواتین کے حق وراثت سے متعلق کیس کا تحریری فیصلہ جاری
  • سپریم کورٹ کا ہراسانی کیس میں فیصلہ: سزا اور جرمانہ برقرار
  • سپریم کورٹ نے وراثت سے متعلق کیس کا فیصلہ جاری کردیا
  • سپریم کورٹ کے جسٹس جمال مندوخیل نے ضیاالحق کا تحفہ کسے قرار دیا؟
  • وفاقی آئینی عدالت کے مزید دو ججز نے حلف اٹھا لیا
  • لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شمس محمود مرزا نے استعفیٰ دیدیا