Express News:
2025-11-19@00:18:59 GMT

یہ کھیل نہیں جنگ ہے

اشاعت کی تاریخ: 30th, September 2025 GMT

پاکستان بھارت کرکٹ میچ میں عوامی جذبات قابل دید ہوتے ہیں۔ دونوں طرف عوام اس میچ کو جنگ سے کم نہیں سمجھتے۔ ہار کسی کو بھی برداشت نہیں۔ اسی لیے اس میچ کو دنیا کا سب سے مہنگا میچ بھی کہا جاتا ہے۔ عوام کے انھی جذبات کی وجہ سے پاک بھارت کرکٹ میچ دونوں طرف عوام کی خاص توجہ کا حامل ہوتا ہے۔ کسی اور کھیل کو عوام کی یہ توجہ حاصل نہیں۔ اس لیے ایک عوامی رائے یہی ہے کہ پاک بھارت کرکٹ میچ کسی جنگ سے کم نہیں ہوتا، عوام کے جذبات جنگ سے کم نہیں ہوتے۔

حالیہ ایشیا کپ میں ہم نے دیکھا کہ بھارتی کرکٹ ٹیم جنگ کے ماحول کو کھیل کے میدان میں لے آئی۔ اس سے پہلے جنگ کا یہ ماحول عوامی شائقین میں تو تھا لیکن کھلاڑی اور کھیل اس میں شامل نہیں تھا۔ کھیل کو کھیل کے انداز میں ہی کھیلا جاتا تھا۔ پاکستان اور بھارت کے کھلاڑی ایک دوسرے کے دوست بھی ہوتے تھے۔

میچ کے بعد دوستیاں بھی ہوتی تھیں۔ کھیل میں اسپورٹس مین اسپرٹ کو برقرار رکھا جاتا تھا۔ عوام ہار اور جیت پر جذباتی ہوتے تھے لیکن کھلاڑی اور حکومتیں اس کا حصہ نہیں بنتی تھیں۔ لیکن شاید اب ایسا نہیں ہے، اب جنگ کھیل کے میدان میں پہنچ گئی ہے۔ کھلاڑی کھلاڑی نہیں رہے جنگجو بن گئے ہیں۔

بھارتی ٹیم اس دفعہ ایشیا کپ میں جنگ کا موڈ لے کر ہی آئی تھی۔ انھوں نے پاکستانیوں سے ہاتھ ملانے سے انکار کیا۔ پہلا میچ جیت کر بھارت کے کرکٹ ٹیم کے کپتان نے کھیل کے بجائے پاک بھارت جنگ پر گفتگو کی۔ انھوں نے اپنی جیت کو اپنے جنگی ہیروز کے نام کرنے کا اعلان کیا۔

یہ صاف اشارہ تھا کہ یہ میچ نہیں جنگ کا تسلسل ہے۔ اب ایشیا کپ جیت کر انھوں نے پی سی بی چیئرمین جو ایشیا کرکٹ کے سربراہ بھی ہیں، ان سے ٹرافی لینے سے انکار کر دیا۔ صاف مطلب ہے کہ جو ٹرافی انھیں پاکستان کے وزیر سے لینی پڑے، انھیں یہ ٹرافی بھی قبول نہیں۔ آپ بے شک کہیں یہ کوئی اچھی مثال نہیں لیکن اب قائم ہو گئی ہے۔ اب اچھی اور بری کی بحث ختم ہو گئی ہے۔

بھارت کے وزیر اعظم نے ایشیا کپ کا فائنل جیتنے کو آپریشن سندور کا تسلسل کہا ہے۔ نریندر مودی نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ آپریشن سندور کھیل کے میدان میں پہنچ گیا ہے۔ نتیجہ وہی ہے، بھارت جیت گیا ہے۔ ہم سمجھ سکتے ہیں کہ مودی بھارت میں مشکل میں ہیں۔ ٹرمپ کے بیانات مودی کے لیے بھارت میں سیاسی مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ جہازوں کی تباہی نے ان کے لیے بھارت میں بہت سے مسائل پیدا کر دیے ہیں۔

اس لیے وہ اپنی سیاسی پوزیشن کو کرکٹ کی جیت سے بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ اپنی کرکٹ ٹیم کی جیت کو اپنے سیاسی مفاد میں استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ محسن نقوی سے ٹرافی لینے سے انکار ایک سیاسی اسٹنٹ سے زیادہ کچھ نہیں۔ لیکن اب یہ ہوگیا ہے۔ پاکستان کو بھی اس کے مطابق ہی پالیسی بنانا ہوگی۔

مودی پہلے دن سے کرکٹ کو کھیل نہیں سمجھ رہے۔ اسی لیے مودی نے پاک بھارت کرکٹ سیریز معطل کر رکھی ہیں۔ انھوں نے بین الاقوامی مقابلوں کے لیے بھارتی ٹیم کو پاکستان آنے کی اجازت نہیں دی۔ جواب میں پہلے تو پاکستانی ٹیم بھارت جاتی رہی۔ لیکن اب پاکستان نے بھی کہہ دیا ہے کہ ہم بھارت نہیں جائیں گے۔ اس لیے اب دونوں ٹیموں کے مقابلے نیوٹرل مقام پر ہی ہوتے ہیں۔ اور اس طرح دونوں ٹیموں کے درمیان میچ بہت کم ہوگئے ہیں۔ صرف آئی سی سی کے مقابلوں میں ہی دونوں ٹیمیں ایک دوسرے کے مقابلے میں کھیلتی ہیں۔ یہ میچز بھی ایشیا کپ کے ہی تھے۔

اب پاکستان کو کیا کرنا چاہیے۔ کیا ہمیں اس سارے معاملہ کو نظر انداز کرنا چاہیے۔ کیا ہمیں بھارت کے ساتھ آئی سی سی میچز میں بھی کھیلنے سے انکارکر دینا چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں سب سے پہلے تو میچ جیتنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ بھارت کے ساتھ ہار کا ایک تسلسل ہے۔

ہم بھارت سے مسلسل ہار رہے ہیں، کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ میچ جیتنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر ہم بھارت سے یہ تین میچ جیتے ہوتے تو منظر نامہ ہی مختلف ہوتا۔ مودی کو یہ ٹوئٹ کرنے کی ہمت ہی نہ ہوتی۔ آج ہم کہہ رہے ہیں کہ یہ جنگ نہیں کھیل ہے۔ اگر پاکستان نے فائنل جیتا ہوتا تو بھارت کہہ رہا ہوتا کہ یہ جنگ نہیں کھیل ہے۔ وہ ہار کر یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ آپریشن سندور میں ہار کا تسلسل ہے۔ اس لیے آسان اور سادہ جواب تو یہی ہے کہ ہم اپنی ٹیم کو بہتر کریں، اس کو جیتنے کی پوزیشن میں لائیں۔

پاکستان کرکٹ ٹیم مسلسل کئی سال سے بری کارکردگی دکھا رہی ہے۔ پی سی بی کی کرکٹ کی چھوٹی اور بڑی سرجری ناکام ہو گئی ہے، تمام تبدیلیاں اور تدبیریں ناکام ہو گئی ہے۔ بڑے کھلاڑیوں کو باہر بٹھانے سے بھی کوئی مثبت نتائج سامنے نہیں آئے۔ ٹیم تبدیل کرنے کے بھی کوئی مثبت نتائج سامنے نہیں آئے ہیں۔ پی سی بی کے سارے دعوے غلط ثابت ہوئے ہیں۔ اس لیے اب احتساب کا وقت ہے ہارنے کے اسباب پر بات کرنے کا وقت ہے۔ بھارت کی مذمت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ وہ دس سال سے یہی کر رہے ہیں۔ وہ کھیل کو جنگ ہی سمجھتے ہیں۔ اس لیے وہ ہم سے نہیں کھیلتے۔

بھارت نے اعلان کر دیا ہے کہ یہ کھیل نہیں جنگ ہے۔ اب ہمارے اس موقف کی کوئی اہمیت نہیں کہ کھیل کو کھیل رہنا چاہیے۔ہمارے اسپورٹس مین اسپرٹ کے درس کی کوئی اہمیت نہیں۔ بھارت کے ساتھ اسی کی زبان میں بات کرنا ہوگی۔ اس لیے جیسے بھارت سے جنگ جیتنے کے لیے تیاری کی جاتی ہے، ایسے ہی اب کرکٹ میچ جیتنے کے لیے تیاری کرنی چاہیے۔

اگر ٹیم ہارتی رہے گی تو کھیل جنگ کا میدان ہی رہے گا۔ لیکن اگر ہم جیتنے لگ جائیں گے تو بھارت کھیل کو جنگ سے واپس کھیل بنانے کی کوشش کرے گا ۔ پھر وہ کہے گا کہ یہ جنگ نہیں کھیل ہے۔ ہمیں اپنی ہار کے تسلسل کو ختم کرنا ہے، اسی میں پاکستان کی عزت ہے۔ عوام بھی جیت مانگتی ہے ۔ ہار ہار کر لوگ بھی تنگ آگئے ہیں۔ ہر بار پاکستان کے عوام کا دل توڑا جاتا ہے۔ لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے۔

پی سی بی کو ایسی حکمت عملی بنانی ہوگی کہ ٹیم جیت سکے۔ عوام کو کسی خاص کھلاڑی سے کوئی لگاؤ نہیں۔ آپ نے بڑے نام باہر بٹھائے لوگوں نے قبول کیا ہے۔ لیکن اب اگر پی سی بی کے پاس بھی جیت کا کوئی نسخہ نہیں۔ تو پھر پی سی بی کے احتساب کا بھی وقت ہے۔ ٹیم کے ساتھ ان کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔ سلیکٹرز کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔ پی سی بی کے فیصلہ سازوں کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔ کیونکہ بھارت کو سبق جیت کر ہی سکھایا جا سکتا ہے۔ جیسے ہم نے جنگ کے میدان میں جیت کر سبق سکھایا ہے، ایسے ہی کرکٹ کے میدان میں جیت کر ہی سبق سکھایا جا سکتا ہے۔ درس و تدریس کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہی حقیقت ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے میدان میں بھارت کرکٹ پی سی بی کے کر رہے ہیں کی کوشش کر نہیں کھیل پاک بھارت ہو گئی ہے کرکٹ ٹیم ایشیا کپ بھارت کے کرکٹ میچ انھوں نے اس لیے ا کے ساتھ کھیل کو کرنے کی کو کھیل کھیل کے لیکن اب میچ جیت کا بھی جنگ کا ہیں کہ جیت کر کے لیے

پڑھیں:

غزہ میں کوئی بھی انسانی شکار کھیل سکتا ہے

اگر آپ یہودی نہیں ہیں مگر صیہونی نظریے کے حامی ہیں اور آپ کی عمر اٹھارہ تا چوبیس برس ہے تو آپ اسرائیلی فوج میں چودہ ماہ تک غیر عسکری شعبوں میں خدمات انجام دے سکتے ہیں۔اگر آپ دوہری شہریت کے حامل ہیں (یعنی اسرائیلی شہریت کے ساتھ کسی اور ملک کے بھی شہری ہیں)۔ تب آپ اسرائیلی قانون کے تحت تین سال کی لازمی فوجی خدمات کے لیے پابند ہیں۔

اس وقت اسرائیلی فوج میں دوہری شہریت کے حامل بارہ سو امریکی ، ایک ہزار اطالوی ، لگ بھگ ایک سو برطانوی ، بیسیوں فرانسیسی اور درجنوں جنوبی افریقی شہری خدمات انجام دے رہے ہیں۔سات سے دس ہزار وہ فوجی ہیں جو اسرائیل سے باہر پیدا ہوئے۔ اسرائیلی فوج میں شامل کئی غیر ملکی شہریوں کی غزہ میں موت بھی ہوئی ہے اور زخمی بھی ہوئے ہیں۔

گزشتہ برس اکتوبر میں فلسطینی نژاد اسرائیلی صحافی یونس تراوی نے فوج میں شامل غیر ملکی نشانہ بازوں ( سنائپرز ) کی سرگرمیوں پر ایک چونکا دینے والی دستاویزی فلم ریلیز کی۔اس کے بعد کچھ ممالک میں ان نشانہ بازوں کے خلاف قانونی کارروائی شروع ہو گئی۔

ان نشانہ بازوں کا تعلق غزہ میں متحرک تھرٹی فائیو ایربورن انفنٹری ڈویژن کی نائنتھ پلاٹون میں شامل ٹو زیرو ٹو بٹالین کے گھوسٹ یونٹ سے تھا۔اس یونٹ میں لگ بھگ بیس غیر ملکی شہریت رکھنے والے سنائپرز شامل تھے۔ان میں سے چھ نشانچیوں نے نومبر دو ہزار تئیس تا فروری دو ہزار چوبیس کے چار ماہ میں خان یونس کے ناصر اسپتال اور غزہ سٹی کے القدس اسپتال کے اردگرد کے عمارتی کھنڈرات میں مورچے لگا کے نہتے شہریوں کا تاک تاک کے شکار کیا۔فلم پروڈیوسر نے دوہری شہریت رکھنے والے سات نشانچیوں کو شناخت کیا۔ان میں امریکا سے آنے والا ڈینیل راب ، بلجئیم کا ایلن بین سیرا ، جنوبی افریقہ کا ایلن بیہاک ، اٹلی کا رافیل کاجیا ، جرمنی کا ڈینیل گریٹز ، فرانس سے آنے والا ساشا بی اور گیبریل بی ایچ شامل ہیں۔

فلم پروڈیوسر نے امریکی سنائپر ڈینیل راب کا یہ کہہ کر انٹرویو کیا کہ اس کی شناخت ظاہر نہیں کی جائے گی اور یہ فلم غزہ کے مشکل حالات میں اسرائیلی فوج کو درپیش چیلنجز اور کارکردگی کے موضوع پر بنائی جا رہی ہے۔ڈینیل کا تعلق شکاگو سے ہے۔وہ باسکٹ بال کا کھلاڑی اور یونیورسٹی آف الی نوائے سے بائیولوجی گریجویٹ ہے۔

 اس نے بتایا کہ نائنتھ پلاٹون میں شامل ہمارا یونٹ اپنے فیصلوں میں خاصا خود مختار تھا۔ہم نے چار چار کی ٹولیوں میں کام کیا۔میرے ساتھ جرمنی کے شہر میونخ سے تعلق رکھنے والا ڈینیل گریٹز تھا۔ہم دونوں نے غزہ سٹی کے القدس اسپتال کے قریب منیر الرئیس اسٹریٹ کی ایک کثیر منزلہ عمارت میں مورچہ بنایا اور نیچے سڑک پر ایک تصوراتی لکیر کھینچ دی کہ جو بھی اسے پار کرے گا اسے دشمن سمجھ کے مار دیا جائے گا۔

دونوں سنائپرز نے بائیس نومبر دو ہزار تئیس کو چھ افراد کو نشانہ باندھ کے ہلاک کیا۔ان میں سے چار کے بارے میں بعد میں پتہ چلا کہ ان کا تعلق ایک ہی خاندان دوگماش سے تھا۔اس خاندان کے دو بھائی کچرا اور پلاسٹک چن کر گھر والوں کا پیٹ پالنے کی جدوجہد کر رہے تھے۔

ڈینیل راب نے بتایا کہ سب سے پہلے ہم نے چھبیس سالہ محمد دوگماش کا نشانہ لیا۔جب اس کے چھوٹے بھائی انیس سالہ سالم دوگماش نے بھائی کی لاش اٹھانے کی کوشش کی تو میں نے اس کا بھی نشانہ لیا۔جب ان دونوں کا والد منتصر بھاگابھاگا آیا تو میرے ساتھی نے اس کو ہدف بنایا۔منتصر شدید زخمی ہوا اور اگلے دن مر گیا۔اس کے بعد ہم نے منتصر کے کزن خلیل کا نشانہ لیا اور اس کا بازو شدید زخمی ہو گیا۔

چنانچہ گلی میں پڑی لاشیں اٹھانے گزشتہ روز تک پھر کوئی نہیں آیا۔ایک اور سنائپر نے سینتالیس سالہ فرید کو مارا۔یہ دوگماش خاندان کا دور کا رشتہ دار تھا۔راب نے بتایا کہ دو دن میں ہم نے منیر الرئیس اسٹریٹ پر آٹھ لوگ مارے۔ان میں سے چھ دوگماش خاندان سے تھے۔راب نے بتایا کہ ہمارے گھوسٹ یونٹ نے غزہ میں اپنی تعیناتی کے دوران ایک سو پانچ لوگوں کو مارا۔

راب کے انٹرویو سے یہ بھی پتہ چلا کہ علاقے میں موجود کوئی بھی فوجی کمانڈر اچانک کسی گلی یا آدھی گلی کو فوجی زون قرار دیتا ہے مگر علاقے کے مکین اس بات سے لاعلم رہنے کے سبب اس زون میں نادانستہ طور پر داخل ہوتے ہیں اور مارے جاتے ہیں۔حالانکہ اسرائیلی فوج کے ضابطہ اخلاق میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ کوئی لاش اٹھانے والا یا کسی زخمی کی مدد کرنے والا غیر مسلح شخص جائز فوجی ہدف نہیں۔

دوگماش خاندان اور دیگر نہتے فلسطینیوں کی ہلاکت کے لمحات کی ڈرون فوٹیج اس واقعہ کے تقریباً پانچ ماہ بعد ایک اسرائیلی فوجی شالوم گلبرٹ نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کردی اور پھر یہ وائرل ہو گئی۔

جب ان سنائپرز کے بارے میں دستاویزی فلم گزشتہ سال اکتوبر میں ریلیز ہوئی تو اس کے بعد انسانی حقوق کی تنظیموں نے مشترکہ طور پر ان چھ نشانچیوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے قانونی چارہ جوئی شروع کر دی جن کا اس فلم میں تذکرہ ہوا ہے ۔تاہم ایسے جرائم کی سماعت کی مرکزی جگہ جنگی جرائم کی بین الاقوامی عدالت ہے۔

مگر مسئلہ یہ ہے کہ اسرائیل یہ عدالت سرے سے تسلیم نہیں کرتا اور امریکا نے اس عدالت کے ججوں پر تادیبی پابندیاں لگانے کی دھمکی دے رکھی ہے۔ہاں اگر یہی نشانچی اسرائیل کے بجائے داعش جیسے کسی گروپ میں شامل ہو کر اپنی اپنی ریاستوں میں واپس جاتے تو ان کی شہریت بھی منسوخ ہو سکتی تھی۔

فرض کریں اسرائیلی فوج کے گھوسٹ یونٹ کے ان چھ نشانچیوں کا تمام ثبوتوں کے ساتھ عالمی عدالت میں مقدمہ چلے۔تب بھی کون جانتا ہے کہ فیصلہ دس برس میں آئے گا یا پندرہ برس بعد ؟

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

متعلقہ مضامین

  • سیاسی وجوہات کی بنا پر بنگلادیش ویمن کرکٹ ٹیم کا دورہ بھارت ملتوی
  • غزہ میں کوئی بھی انسانی شکار کھیل سکتا ہے
  • ’واٹ آ سنڈے‘ پاکستان میں کیوں ٹرینڈ کرتا رہا؟
  • پاکستا ن اور بھارت کی بلائنڈ ویمن کرکٹ ٹیم نے ہاتھ ملایا اورایک دوسرے کا خیرمقدم کیا
  • پاکستان کرکٹ کا مستقبل روشن ہے: محسن نقوی کی بھارت کو شکست دینے پر پاکستان شاہینز کو مبارکباد
  • بلائنڈ ویمن کرکٹ ورلڈ کپ، بھارت نے پاکستان کو 8 وکٹ سے ہرا دیا
  • رائزنگ اسٹارز ایشیا کپ، بھارت کی پاکستان کے خلاف بیٹنگ جاری
  • بلائنڈ ویمن کرکٹ ورلڈ کپ: بھارت پاکستان کو 8وکٹوں سے شکست دے دی
  • کلکتہ ٹیسٹ: پہلے دو روز میں 27 وکٹیں گرنے پر بھارت کو شدید تنقیدکا سامنا
  • دہشتگردی ہار گئی، کھیل اور امن جیت گیا، سازشیں ہمیشہ ناکام ہوں گی: مریم نواز