Islam Times:
2025-11-18@21:30:34 GMT

شہید مقاومت کنونشن، ایک تاثر

اشاعت کی تاریخ: 1st, October 2025 GMT

شہید مقاومت کنونشن، ایک تاثر

اسلام ٹائمز: شہید مقاومت کنونشن میں کارکنان نے نے برادر سید امین شیرازی کو بطور مرکزی صدر منتخب کیا، جو "کے پی کے" سے تعلق رکھتے ہیں اور دیگر مرکزی عہدیداران کی بہ نسبت کم معروف تھے۔ ہماری تمام تر ہمدردیاں اور صلاحیتیں اس کاروان الہیٰ کی بہتری، ترقی اور مضبوطی کیلئے حاضر ہیں۔ یہاں شخصی یا شخصیت پرستی نہیں بلکہ کاروان الہیٰ جو ہماری درس گاہ کی حیثیت رکھتا ہے، کیلئے تن من دھن سے خدمات پیش کرتے ہوئے افتخار محسوس کیا جاتا ہے۔ پروردگار اس کاروان الہیٰ کو ہر قسم کی آفات و بلیات سے ہمیشہ محفوظ رکھے۔ تحریر: ارشاد حسین ناصر

پاکستان کے نوجوانان امامیہ کی ملک گیر تنظیم امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کا 54واں سالانہ مرکزی کنونشن، جسے سید مقاومت کی برسی کی مناسبت سے "شہید مقاومت کنونشن" کا نام دیا گیا تھا، اپنے روایتی انداز میں تین دن تک جاری رہنے کے بعد نئے ولولوں، بلند عزم اور نئی توانائیوں کیساتھ اختتام پذیر ہوا، اس کنونشن کے بہت سے نکات اور پروگرامز ناصرف قابل تحسین و قابل ذکر ہیں، بلکہ ان کو قابل تقلید بھی سمجھنا چاہیئے۔ مرکزی سطح کی دوسری جماعتوں اور تنظیموں کو اس سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ یہ ایک طلباء تنظیم ہے، مگر اس کے باوجود ہمیشہ امامیہ طلباء کی روایت رہی ہے کہ وہ دیگر قومی و ملی تنظیموں و جماعتوں کیلئے ایک روشن مثال بن کر سامنے آتے ہیں۔ مرکزی سالانہ کنونشنز کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو یہ سامنے آتا ہے کہ گذشتہ باون کنونشن لاہور مین منعقد ہوئے ہیں، یہ دوسرا مرکزی کنونشن ہے، جو اسلام آباد میں جامع امام الصادق ٹرسٹ کے خوبصورت ماحول میں منعقد ہوا اور سالِ گذشتہ کی طرح ہر حوالے سے کامیاب و کامران، عین توقعات منعقد ہوا۔

مرکزی کنونشن کیلئے ایک وسیع پنڈال سجایا گیا تھا، وسیع پنڈال میں ماحول سازی کیلئے دنیا بھر کے شہداء بالخصوص شہدائے مقاومت لبنان و سید مقاومت کی خوبصورت تصاویر اور بینرز و فلیکسز آویزاں کیے گئے تھے۔ ایک مخصوص جگہ پر شہداء کا بورڈ آویزاں تھا، جہاں بہت سے اہم شرکاء، شہداء کے حضور پھولوں کے گلدستے پیش کرکے اپنی محبت کا اظہار کرتے تھے، جبکہ مقاومتی تنظیموں کے قائدین کیساتھ مقاومتی پرچموں اور پٹیوں سے بھی ماحول میں دل آویزی پیدا کی گئی تھی۔ مقررین کے خطابات کے دوران مختلف انقلابی ترانوں کی جھلک سے بھی بھرپور تیاری اور میڈیا ٹیم کی ہم آہنگی ملاحظہ کی جا سکتی تھی۔ پنڈال کے باہر استقبالیہ پر بھی شہدائے مقاومت، شہدائے فلسطین کی دلفریب تصاویر و فرامین ماحول کو جاذب بنا رہے تھے، جبکہ فرش پر امریکہ و اسرائیل کے پرچموں کو روندنے کا پورا موقع مہیا گیا تھا۔ اسی طرح ٹرمپ اور قاتل نیتن یاہو کی تصاویر پر جوتے برسانے اور ان پر تیر اندازی کرنے کا بھی بھرپور موقع دلچسپی سے خالی نہیں تھا۔

شہید مقاومت کنونشن روایتی طور پر امامیہ اسکائوٹس کی سلامی و ترانہ سے شروع ہوا۔ امامیہ اسکائوٹس کے چاک و چوبند باوردی دستوں نے جمعہ کے دن سلامی پیش کی۔ "شہید مقاومت کنونشن" کا آغاز اسکاؤٹ سلامی سے کیا گیا، جس میں ملک بھر سے آئے امامیہ اسکاؤٹس نے شرکت کی۔ پروگرام میں سابق امامیہ چیف اسکاؤٹ برادر صفدر رضا بخاری، مرکزی رکن نظارت برادر مشتاق، مرکزی صدر آئی ایس او پاکستان برادر فخر عباس نقوی اور امامیہ چیف اسکاؤٹ برادر ابوذر حیدر نے خطاب کیا۔ کنونشن میں تعلیمی سیشن بھی ہوا، جس میں تعلیمی موضوعات پر ماہرین تعلیم نے بھرپور رہنمائی مہیا کیا۔ ان میں آئی ٹی اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس جیسے جدید موضوعات پر بھی رہنمائی کی گئی تھی۔

ویسے تو ہر نشست ہی دلچسپی اور کشش کا باعث تھی، مگر شب شہداء کا پروگرام نوجوانوں کیساتھ ساتھ بزرگان جو شریک تھے، ان کی روحانی غذا کا ساماں بھی کر رہا تھا۔ کنونشن میں شب شہداء کی اہم ترین نشست میں اسکالر نقی ہاشمی، منقبت خواں شاہد علی بلتستانی، چیئرمین البصیرہ ڈاکٹر علامہ علی عباس نقوی نے اپنے مخصوص انداز میں شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا۔ شبِ شہداء، جس میں شہداء کے خانوادگان نے شرکت کی اور یادگارِ شہداء پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے پھولوں کا گلدستہ پیش کیا۔ اس کنونشن کا عنوان چونکہ سید مقاومت، شہید مقاومت کی ذات تھی، اس لیے کنونشن اور پہلی برسی کے حوالے سے دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں حماس، انصاراللہ یمن، حشد الشعبی، جمہوری اسلامی ایران، حزب اللہ، اسلامی تحریک بحرین، ترکیہ اور عالمی شخصیات سے ویڈیو پیغامات لیے گئے، جو کہ بہت ہی موثر پیغامات پر مشتمل تھے۔ بعض شخصیات کے پیغامات براہ راست نشر ہوئے۔

یوں امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے عالمی روابط اور اسلامی تحریکوں سے وابستگی کا اظہار سامنے آیا، جسے سراہا جانا چاہیئے۔ شہید مقاومت کی پہلی برسی کے عنوان سے نشست میں علامہ علی انور نجفی، جناب سید ناصر عباس شیرازی، علامہ امین شہیدی نے اپنے خیالات عالیہ سے مستفید کیا۔ اس نشست میں خواہران کی بڑی تعداد بھی شریک رہی۔ اس نشست میں پنڈال میں کرسیوں کے علاوہ بھی فرشی نشستوں پر بھی بیٹھنے کی گنجائش نہیں تھی۔ بہت بڑی تعداد بیرون پنڈال شریک تھی، جبکہ اس نشست کو دنیا بھر میں لائیو دیکھنے والوں کی بھی بہت بڑی تعداد تھی۔ اگرچہ تمام نشستیں لائیو ٹیلی کاسٹ ہو رہی تھیں، مغربین کے وقفے کے بعد اس نشست کا دوسرا حصہ ہوا، جس میں شعرائے کرام نے شہید مقاومت کے حوالے سے اپنے کلام پیش کرکے داد وصول کی۔

کنونشن کا تیسرا دن عمومی طور پر مرکزی صدر کے انتخاب کے مراحل پر مشتمل، اعلان مرکزی صدر، جلسہ عام اور حلف برداری کے حوالے سے ہوتا ہے۔ امامیہ برادران کو اس حوالے سے بہت تجسس اور دلچسپی ہوتی ہے کہ کون اگلے تنظیمی سیشن کیلئے میر کاروان کی سعادت سے سرفراز ہوتا ہے۔ امامیہ برادران کا انتخاب کا دستوری طریقہ بہت ہی شفاف اور واضح ہے، جس میں تنظیم کا کوئی بھی ممبر جو طالبعلم ہو، اس کا انتخاب ہوسکتا ہے۔ نظارت کی طرف سے الیکشن کمیشن ہوتا ہے، جو اہل ووٹرز اور کورم کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ مرکزی کونسل اور مرکزی کابینہ کی طرف سے سامنے آنے والے ناموں میں سے جانچ پڑتال کے بعد دو نام فائنل ہوتے ہیں، جن میں سے دو نام فائنل ہو کر مرکزی مجلس عمومی کے سامنے انتخاب ووٹ کیلئے پیش کیے جاتے ہیں تو اراکین یعنی ووٹرز سامنے آنے والے برادران سے خوب سوالات کرتے ہیں۔ یہ مراحل دستوری شفافیت کی نشاندہی کرتے ہیں۔

پاکستان کی دیگر تنظیموں کو بھی اس سے درس لینا چاہیئے۔ اس سے تنظیموں پر  ناجائز قابضین اور مفاد پرستوں یا ابن الوقتوں کو موقع نہیں ملتا۔ امامیہ برادران نے اس حوالے سے بہت سی مثالیں پیش کی ہیں کہ ہارڈ فیورٹ سمجھے جانے والے امیدواران کی بجائے ایک کم معروف برادر میر کاروان کے طور پر منتخب ہو جاتا ہے اور سینیئر سمجھے جانے والے اس کی صدارت و مسئولیت میں ایک کارکن کے طور پر کام کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں۔ سب سے بڑی اور اہم بات یہ ہے کہ دستوری لحاظ سے ایک طالبعلم ہونا لازم ہے۔ واقعی بہت دفعہ ایسے مراحل پر یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کاروان امامیہ پر وقت کے امام کی خاص نظر ہے، ورنہ تنظیموں میں لوگ اوپر کی سطح پر آنے والے نا جانے کیسے کیسے جتن اور سازشیں نہیں کرتے، جبکہ یہاں معاملہ ہی الٹ ہوتا ہے کہ جسے مرکزی ذمہ داری پر آنے کا چانس مل رہا ہوتا ہے، وہ بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔

شہید مقاومت کنونشن میں کارکنان نے نے برادر سید امین شیرازی کو بطور مرکزی صدر منتخب کیا، جو "کے پی کے" سے تعلق رکھتے ہیں اور دیگر مرکزی عہدیداران کی بہ نسبت کم معروف تھے۔ ہماری تمام تر ہمدردیاں اور صلاحیتیں اس کاروان الہیٰ کی بہتری، ترقی اور مضبوطی کیلئے حاضر ہیں۔ یہاں شخصی یا شخصیت پرستی نہیں بلکہ کاروان الہیٰ جو ہماری درس گاہ کی حیثیت رکھتا ہے، کیلئے تن من دھن سے خدمات پیش کرتے ہوئے افتخار محسوس کیا جاتا ہے۔ پروردگار اس کاروان الہیٰ کو ہر قسم کی آفات و بلیات سے ہمیشہ محفوظ رکھے۔
اونچا رہے اپنا علم
حی علی خیر العمل

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: شہید مقاومت کنونشن کرتے ہوئے مقاومت کی حوالے سے ہوتا ہے نے والے پیش کی

پڑھیں:

حزب اللہ کے بانی رہنماء شہید سید عباس موسوی کی بیٹی کا انٹرویو 

اسلام ٹائمز: "بتول الموسوی" نے حزب اللہ میں اپنے والد کے مقام اور کردار کے بارے میں مزید کہا ہے کہ "میرے والد کے رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے ساتھ تعلقات بہت مضبوط اور گہرے تھے اور انہوں نے حزب اللہ کے قیام میں اہم کردار ادا کیا، وہ حزب اللہ کی ممتاز شخصیات اور ابتدائی بانیوں میں سے ایک تھے اور بہت سے لوگوں کی نظر میں، وہ ایک بہترین رہنماء، مثالی انسان اور بہترین شخصیت تھے۔ ایسے بہادر لیڈر جن کو دشمن کا سامنا کرنے میں کوئی خوف نہیں تھا۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ میرے والد، جیسا کہ وہ کہتے تھے، "کفار کے خلاف سخت اور اپنے دوستوں پر مہربان تھے۔" ترتیب و تنظیم: علی واحدی

لبنان میں حزب اللہ کے سابق سیکرٹری جنرل شہید سید عباس موسوی ایک ایسی شخصیت ہیں، جن کی زندگی اور راستہ سب کے لیے واضح اور متاثر کن تھا۔ ایک ایسا آدمی جس نے میدان جنگ میں اور خاندانی زندگی میں ہمت، ایمان اور وفاداری کا مظاہرہ کیا۔ وہ نہ صرف ایک سیاسی اور جہادی رہنماء تھے بلکہ ایک ایسے والد بھی تھے، جنہوں نے مزاحمت اور قربانی کی اقدار کو اگلی نسل تک پہنچایا اور امام خمینی (رح) کے خط اور انقلاب سے وفاداری کا راستہ اپنے اردگرد کے لوگوں کے لیے واضح و نمایاں کیا۔ ان کی بیٹی، بتول موسوی، آج ایک انٹرویو میں اس باپ کے سائے میں پرورش پانے کے تجربے کی بات کر رہی ہیں، جس کی مذہب سے محبت، مزاحمت کا عزم اور مقاومت کے اصولوں سے وفاداری کوئی راز نہیں تھا، بلکہ اس  راستے پر چلنے والوں کے لیے ایک واضح اور متاثر کن حقیقت تھی۔ ان کی زندگی جرأت، قربانی اور راہ حق پر قائم رہنے کی زندہ مثال ہے۔

اسلام ٹائمز کے ساتھ ایک انٹرویو میں بتول الموسوی نے اپنے والد کی امام خمینی سے محبت اور ان کی زندگی اور جدوجہد کے راستے پر اس کے اثرات کو اس طرح بیان کیا ہے۔ میرے والد سید عباس موسوی کو امام خمینی سے گہری اور پرجوش محبت تھی۔ وہ لبنان میں استقامت کی بانی شخصیات میں سے ایک تھے اور انقلاب اور امام خمینی (رح) کے لیے جدوجہد کرنے والے اولین گروہ میں سے تھے۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ امام خمینی کے افکار و نظریات میرے والد کے پورے وجود اور عمل میں ظاہر ہوتے تھے۔ امام خمینی (رح) کے انتقال کے بعد میرے والد فرماتے تھے، ہم نے دنیا کو ان کی آنکھوں سے دیکھا۔ میرے والد ہمیشہ امام اور ولایت کے راستے کے وفادار اور مخلص رہے۔

بتول الموسوی مزید کہتی ہیں، امام خمینی کو بھی میرے والد سے بہت محبت اور پیار تھا۔ وہ میرے والد کو طویل نجی ملاقاتوں میں مدعو کرتے اور ان کے ساتھ بیٹھتے اور ان کا خاص احترام کرتے۔ دشمنوں نے میرے والد کو "لبنان کا خمینی" بھی کہا تھا، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ انہوں نے کس طرح لبنان اور خطے کے نوجوانوں میں امام  خمینی (رح) کے انقلاب کی روح کو پھیلایا، جبکہ دشمنان اسلام اس دین اور انقلاب کو کمزور کرنا چاہتے تھے۔ "بتول الموسوی" امام خمینی (رح) کے انقلاب کے مسلمانوں پر اثرات کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں۔ امام نے اپنے انقلاب سے دنیا کے مشرق و مغرب کے مسلمانوں کو بیدار کیا اور اسلام اور مسلمانوں کو وقار کے ساتھ زندہ رہنے کا سبق دیا۔

جب میں بچپن میں تھی تو میں اس وقت سے "نہ مشرق نہ مغرب، اسلامی جمہوریہ" کے نعرے کو جانتی تھی اور میرے والد نے مجھے سکھایا تھا کہ ایک شخص کس طرح اسلام، دین اور قرآن کے لیے اپنے آپ کو قربان کر سکتا ہے اور اس کی حفاظت کے لیے اپنی جان و مال کو فدا کرسکتا ہے۔ یہ وہ سبق ہے، جو ہم نے امام حسین علیہ السلام کے مکتب سے سیکھا: مشکلات کا مقابلہ کیسے کرنا ہے، صبر کرنا ہے اور راہ حق کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنا ہے۔ وہ اسلامی جمہوریہ ایران کے بارے میں اپنے والد کے نقطہ نظر کے بارے میں کہتی ہیں "میرے والد اسلامی جمہوریہ کے بارے میں ایک جامع نظریہ رکھتے تھے، ایک ایسا نظریہ جس میں بیک وقت قرآنی، مذہبی، نظریاتی، سیاسی، تزویراتی، حتیٰ کہ عسکری جہتیں بھی شامل تھیں۔ اسلامی جمہوریہ ہمیشہ مظلوموں، محروموں اور ان لوگوں کی امید رہا ہے، جو اسلامی اقدار کے لیے جدوجہد اور مزاحمت کرتے ہیں۔

"بتول الموسوی" نے حزب اللہ میں اپنے والد کے مقام اور کردار کے بارے میں مزید کہا ہے کہ "میرے والد کے رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے ساتھ تعلقات بہت مضبوط اور گہرے تھے اور انہوں نے حزب اللہ کے قیام میں اہم کردار ادا کیا، وہ حزب اللہ کی ممتاز شخصیات اور ابتدائی بانیوں میں سے ایک تھے اور بہت سے لوگوں کی نظر میں، وہ ایک بہترین رہنماء، مثالی انسان اور بہترین شخصیت تھے۔ ایسے بہادر لیڈر جن کو دشمن کا سامنا کرنے میں کوئی خوف نہیں تھا۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ میرے والد، جیسا کہ وہ کہتے تھے، "کفار کے خلاف سخت اور اپنے دوستوں پر مہربان تھے۔" ان کے الفاظ، خطبات، روح اور ثقافت آج بھی حزب اللہ کے پیروکاروں اور دنیا کے تمام آزاد لوگوں کے درمیان زندہ ہے۔ وہ اپنی علمی، جہادی اور اخلاقی زندگی میں ایک منفرد نمونہ تھے۔ میرے دل اور دماغ میں ان کی موجودگی کا اب بھی احساس ہوتا ہے۔

"بتول الموسوی" نے مزید کہا ہے کہ میں ہمیشہ دعا کرتی ہوں کہ ان کی شفاعت مجھ پر اور میرے اہل خانہ تک پہنچے اور میں ان کا اطمینان حاصل کروں، کیونکہ والدین کا اطمینان بچوں کی زندگیوں پر بہت زیادہ اثر ڈالتا ہے اور یہ اطمینان خدا کی رضا کی کنجی ہے۔ زندگی میں مجھے جو بھی کامیابی ملی ہے، وہ میرے والدین کی دعاؤں اور ان کے صبر کی وجہ سے ہے، جو انہوں نے برداشت کیا ہے۔ آخر میں بتول الموسوی نے شہداء کے اہل خانہ کے بارے میں کہا کہ شہداء کے اہل خانہ کا صبر و استقامت انہیں شہداء کے ثواب میں شریک کرتا ہے۔ جیسا کہ امام خامنہ ای اور امام خمینی (رح) نے تاکید کی ہے کہ شہداء کے اہل خانہ اپنی ثابت قدمی اور ایمان کے ساتھ شہید کی راہ میں شریک ہوتے ہیں اور ان کی قربانیوں کا ثمر معاشرے اور راہ حق میں منتقل ہوتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پیپلز پارٹی شہید بھٹو کے انٹرا پارٹی انتخابات تسلیم کر لیے گئے
  • غزہ: اسرائیلی حملے‘ 3 شہید‘ متعدد ز خمی‘فلسطینی ریاست کی مخالفت جاری رہے گی‘ نیتن یاہو
  • جھنگ، ایم ڈبلیو ایم کے ضلعی صدر مولانا روح اللہ کاظمی کی شیعہ علماء کونسل کے کنونشن میں شرکت 
  • وزیراعظم کی ہدایت پر سجاد حسین شاہ کے اہلخانہ کو شہید پیکج ملے گا: بلال اظہر کیانی
  • حزب اللہ کے بانی رہنماء شہید سید عباس موسوی کی بیٹی کا انٹرویو 
  • ڈی جی خان، آئی ایس او کا ضلعی کنونشن، رضوان حیدر نئے آرگنائزر منتخب 
  • مولانا فضل الرحمان نے مرکزی مجلس شوریٰ کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا
  • نیو کراچی میں شہریوں کے لیے فری میڈیکل کیمپ
  • وکلا کے پرامن کنونشن کے دوران حملہ قابل مذمت ہے ،سید زین شاہ
  • 27ویں ترمیم سندھ کو لوٹنے کی سازش ہے، عوامی تحریک