مدرسہ کے پرنسپل شیخ محمد علی توحیدی نے اپنے خطاب میں کہا کہ کسی شخصیت کو پہچاننے کا معیار یہ ہے کہ دشمن اس کے بارے میں کیا کہتا ہے۔ عالمِ استکبار کو جتنا خطرہ شہید سید حسن نصراللہ سے تھا اتنا پورے عرب ممالک سے نہیں تھا۔ شہید کو نشانہ بنانے کے لیے اسی ہزار کلو بم استعمال کیا گیا، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ عالمِ کفر کو ان کے مقاصد سے شدید خطرہ تھا۔ چھوٹی تصاویر تصاویر کی فہرست سلائیڈ شو

جامعۃ النجف سکردو بلتستان میں شہیدِ مقاومت سید حسن نصراللہ کی پہلی برسی کا نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ انعقاد

جامعۃ النجف سکردو بلتستان میں شہیدِ مقاومت سید حسن نصراللہ کی پہلی برسی کا نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ انعقاد

جامعۃ النجف سکردو بلتستان میں شہیدِ مقاومت سید حسن نصراللہ کی پہلی برسی کا نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ انعقاد

جامعۃ النجف سکردو بلتستان میں شہیدِ مقاومت سید حسن نصراللہ کی پہلی برسی کا نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ انعقاد

جامعۃ النجف سکردو بلتستان میں شہیدِ مقاومت سید حسن نصراللہ کی پہلی برسی کا نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ انعقاد

جامعۃ النجف سکردو بلتستان میں شہیدِ مقاومت سید حسن نصراللہ کی پہلی برسی کا نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ انعقاد

جامعۃ النجف سکردو بلتستان میں شہیدِ مقاومت سید حسن نصراللہ کی پہلی برسی کا نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ انعقاد

جامعۃ النجف سکردو بلتستان میں شہیدِ مقاومت سید حسن نصراللہ کی پہلی برسی کا نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ انعقاد

جامعۃ النجف سکردو بلتستان میں شہیدِ مقاومت سید حسن نصراللہ کی پہلی برسی کا نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ انعقاد

جامعۃ النجف سکردو بلتستان میں شہیدِ مقاومت سید حسن نصراللہ کی پہلی برسی کا نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ انعقاد

جامعۃ النجف سکردو بلتستان میں شہیدِ مقاومت سید حسن نصراللہ کی پہلی برسی کا نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ انعقاد

جامعۃ النجف سکردو بلتستان میں شہیدِ مقاومت سید حسن نصراللہ کی پہلی برسی کا نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ انعقاد

جامعۃ النجف سکردو بلتستان میں شہیدِ مقاومت سید حسن نصراللہ کی پہلی برسی کا نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ انعقاد

اسلام ٹائمز۔ جامعۃ النجف سکردو بلتستان میں شہیدِ مقاومت، حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل اور مقاومتی بلاک کے سربراہ سید حسن نصراللہ کی پہلی برسی نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ منائی گئی۔ تقریب کا آغاز حافظ حامد حسین کی تلاوتِ قرآن مجید سے ہوا جبکہ طلبہ حسین بشیر، محمد عباس بسیجی اور واجد علی نے شہداء کی یاد میں ترانہ پیش کیا۔ جامعہ کے وائس پرنسپل شیخ احمد علی نوری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شہید حسن نصراللہ کی پوری زندگی جہاد اور قربانی سے عبارت تھی۔ وہ غریب گھرانے میں پیدا ہوئے، تعلیم کے ساتھ ساتھ مزدوری کرتے رہے، مگر علمی سفر میں کوئی رکاوٹ برداشت نہ کی۔ وہ نوجوانوں کے لیے بہترین نمونہ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ شہید نصراللہ بچپن ہی سے شہید سید موسیٰ صدر اور امام خمینی سے گہرا متاثر تھے۔ وہ پہلے مجلس امل کے رکن رہے اور بعد ازاں حزب اللہ کی قیادت سنبھالی۔ 2006ء کی تینتیس روزہ جنگ میں بنفسِ نفیس قیادت کی۔ شہید ہمیشہ اللہ پر مکمل بھروسہ رکھتے تھے اور حضرت فاطمۃ الزہراء سے متوسل رہتے تھے۔ ولایت فقیہ کے ساتھ ان کی وابستگی ان کی نمایاں خصوصیت تھی۔

مدرسہ کے پرنسپل شیخ محمد علی توحیدی نے اپنے خطاب میں کہا کہ کسی شخصیت کو پہچاننے کا معیار یہ ہے کہ دشمن اس کے بارے میں کیا کہتا ہے۔ عالمِ استکبار کو جتنا خطرہ شہید سید حسن نصراللہ سے تھا اتنا پورے عرب ممالک سے نہیں تھا۔ شہید کو نشانہ بنانے کے لیے اسی ہزار کلو بم استعمال کیا گیا، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ عالمِ کفر کو ان کے مقاصد سے شدید خطرہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ شہید نصراللہ امریکہ و اسرائیل جیسے اسلام اور انسانیت کے بڑے دشمنوں کے خلاف عملی میدان میں برسرِ پیکار رہے۔ ان کی شخصیت میں عقلانیت اور جذباتیت کا حسین امتزاج تھا۔ وہ کفار کے مقابلے میں سخت اور یتیموں و مساکین کے لیے نہایت شفیق دل رکھتے تھے۔ اتحاد کے داعی ہونے کے ساتھ ساتھ اصولوں پر کاربند رہنا اور قیادت و فداکاری دونوں اوصاف ان میں بدرجۂ اتم موجود تھے۔ تقریب کے اختتام پر آغا سید محمد علی شاہ الحسینی نے دعائے امام زمانہ علیہ السلام سے بابرکت دعا کروائی۔ نظامت کے فرائض طالب علم احسان دانش نے خوش اسلوبی سے انجام دیئے۔.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: جامعۃ النجف سکردو بلتستان میں شہید کہا کہ کے لیے

پڑھیں:

حزب اللہ کے بانی رہنماء شہید سید عباس موسوی کی بیٹی کا انٹرویو 

اسلام ٹائمز: "بتول الموسوی" نے حزب اللہ میں اپنے والد کے مقام اور کردار کے بارے میں مزید کہا ہے کہ "میرے والد کے رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے ساتھ تعلقات بہت مضبوط اور گہرے تھے اور انہوں نے حزب اللہ کے قیام میں اہم کردار ادا کیا، وہ حزب اللہ کی ممتاز شخصیات اور ابتدائی بانیوں میں سے ایک تھے اور بہت سے لوگوں کی نظر میں، وہ ایک بہترین رہنماء، مثالی انسان اور بہترین شخصیت تھے۔ ایسے بہادر لیڈر جن کو دشمن کا سامنا کرنے میں کوئی خوف نہیں تھا۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ میرے والد، جیسا کہ وہ کہتے تھے، "کفار کے خلاف سخت اور اپنے دوستوں پر مہربان تھے۔" ترتیب و تنظیم: علی واحدی

لبنان میں حزب اللہ کے سابق سیکرٹری جنرل شہید سید عباس موسوی ایک ایسی شخصیت ہیں، جن کی زندگی اور راستہ سب کے لیے واضح اور متاثر کن تھا۔ ایک ایسا آدمی جس نے میدان جنگ میں اور خاندانی زندگی میں ہمت، ایمان اور وفاداری کا مظاہرہ کیا۔ وہ نہ صرف ایک سیاسی اور جہادی رہنماء تھے بلکہ ایک ایسے والد بھی تھے، جنہوں نے مزاحمت اور قربانی کی اقدار کو اگلی نسل تک پہنچایا اور امام خمینی (رح) کے خط اور انقلاب سے وفاداری کا راستہ اپنے اردگرد کے لوگوں کے لیے واضح و نمایاں کیا۔ ان کی بیٹی، بتول موسوی، آج ایک انٹرویو میں اس باپ کے سائے میں پرورش پانے کے تجربے کی بات کر رہی ہیں، جس کی مذہب سے محبت، مزاحمت کا عزم اور مقاومت کے اصولوں سے وفاداری کوئی راز نہیں تھا، بلکہ اس  راستے پر چلنے والوں کے لیے ایک واضح اور متاثر کن حقیقت تھی۔ ان کی زندگی جرأت، قربانی اور راہ حق پر قائم رہنے کی زندہ مثال ہے۔

اسلام ٹائمز کے ساتھ ایک انٹرویو میں بتول الموسوی نے اپنے والد کی امام خمینی سے محبت اور ان کی زندگی اور جدوجہد کے راستے پر اس کے اثرات کو اس طرح بیان کیا ہے۔ میرے والد سید عباس موسوی کو امام خمینی سے گہری اور پرجوش محبت تھی۔ وہ لبنان میں استقامت کی بانی شخصیات میں سے ایک تھے اور انقلاب اور امام خمینی (رح) کے لیے جدوجہد کرنے والے اولین گروہ میں سے تھے۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ امام خمینی کے افکار و نظریات میرے والد کے پورے وجود اور عمل میں ظاہر ہوتے تھے۔ امام خمینی (رح) کے انتقال کے بعد میرے والد فرماتے تھے، ہم نے دنیا کو ان کی آنکھوں سے دیکھا۔ میرے والد ہمیشہ امام اور ولایت کے راستے کے وفادار اور مخلص رہے۔

بتول الموسوی مزید کہتی ہیں، امام خمینی کو بھی میرے والد سے بہت محبت اور پیار تھا۔ وہ میرے والد کو طویل نجی ملاقاتوں میں مدعو کرتے اور ان کے ساتھ بیٹھتے اور ان کا خاص احترام کرتے۔ دشمنوں نے میرے والد کو "لبنان کا خمینی" بھی کہا تھا، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ انہوں نے کس طرح لبنان اور خطے کے نوجوانوں میں امام  خمینی (رح) کے انقلاب کی روح کو پھیلایا، جبکہ دشمنان اسلام اس دین اور انقلاب کو کمزور کرنا چاہتے تھے۔ "بتول الموسوی" امام خمینی (رح) کے انقلاب کے مسلمانوں پر اثرات کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں۔ امام نے اپنے انقلاب سے دنیا کے مشرق و مغرب کے مسلمانوں کو بیدار کیا اور اسلام اور مسلمانوں کو وقار کے ساتھ زندہ رہنے کا سبق دیا۔

جب میں بچپن میں تھی تو میں اس وقت سے "نہ مشرق نہ مغرب، اسلامی جمہوریہ" کے نعرے کو جانتی تھی اور میرے والد نے مجھے سکھایا تھا کہ ایک شخص کس طرح اسلام، دین اور قرآن کے لیے اپنے آپ کو قربان کر سکتا ہے اور اس کی حفاظت کے لیے اپنی جان و مال کو فدا کرسکتا ہے۔ یہ وہ سبق ہے، جو ہم نے امام حسین علیہ السلام کے مکتب سے سیکھا: مشکلات کا مقابلہ کیسے کرنا ہے، صبر کرنا ہے اور راہ حق کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنا ہے۔ وہ اسلامی جمہوریہ ایران کے بارے میں اپنے والد کے نقطہ نظر کے بارے میں کہتی ہیں "میرے والد اسلامی جمہوریہ کے بارے میں ایک جامع نظریہ رکھتے تھے، ایک ایسا نظریہ جس میں بیک وقت قرآنی، مذہبی، نظریاتی، سیاسی، تزویراتی، حتیٰ کہ عسکری جہتیں بھی شامل تھیں۔ اسلامی جمہوریہ ہمیشہ مظلوموں، محروموں اور ان لوگوں کی امید رہا ہے، جو اسلامی اقدار کے لیے جدوجہد اور مزاحمت کرتے ہیں۔

"بتول الموسوی" نے حزب اللہ میں اپنے والد کے مقام اور کردار کے بارے میں مزید کہا ہے کہ "میرے والد کے رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے ساتھ تعلقات بہت مضبوط اور گہرے تھے اور انہوں نے حزب اللہ کے قیام میں اہم کردار ادا کیا، وہ حزب اللہ کی ممتاز شخصیات اور ابتدائی بانیوں میں سے ایک تھے اور بہت سے لوگوں کی نظر میں، وہ ایک بہترین رہنماء، مثالی انسان اور بہترین شخصیت تھے۔ ایسے بہادر لیڈر جن کو دشمن کا سامنا کرنے میں کوئی خوف نہیں تھا۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ میرے والد، جیسا کہ وہ کہتے تھے، "کفار کے خلاف سخت اور اپنے دوستوں پر مہربان تھے۔" ان کے الفاظ، خطبات، روح اور ثقافت آج بھی حزب اللہ کے پیروکاروں اور دنیا کے تمام آزاد لوگوں کے درمیان زندہ ہے۔ وہ اپنی علمی، جہادی اور اخلاقی زندگی میں ایک منفرد نمونہ تھے۔ میرے دل اور دماغ میں ان کی موجودگی کا اب بھی احساس ہوتا ہے۔

"بتول الموسوی" نے مزید کہا ہے کہ میں ہمیشہ دعا کرتی ہوں کہ ان کی شفاعت مجھ پر اور میرے اہل خانہ تک پہنچے اور میں ان کا اطمینان حاصل کروں، کیونکہ والدین کا اطمینان بچوں کی زندگیوں پر بہت زیادہ اثر ڈالتا ہے اور یہ اطمینان خدا کی رضا کی کنجی ہے۔ زندگی میں مجھے جو بھی کامیابی ملی ہے، وہ میرے والدین کی دعاؤں اور ان کے صبر کی وجہ سے ہے، جو انہوں نے برداشت کیا ہے۔ آخر میں بتول الموسوی نے شہداء کے اہل خانہ کے بارے میں کہا کہ شہداء کے اہل خانہ کا صبر و استقامت انہیں شہداء کے ثواب میں شریک کرتا ہے۔ جیسا کہ امام خامنہ ای اور امام خمینی (رح) نے تاکید کی ہے کہ شہداء کے اہل خانہ اپنی ثابت قدمی اور ایمان کے ساتھ شہید کی راہ میں شریک ہوتے ہیں اور ان کی قربانیوں کا ثمر معاشرے اور راہ حق میں منتقل ہوتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پیپلز پارٹی شہید بھٹو کے انٹرا پارٹی انتخابات تسلیم کر لیے گئے
  • غزہ: اسرائیلی حملے‘ 3 شہید‘ متعدد ز خمی‘فلسطینی ریاست کی مخالفت جاری رہے گی‘ نیتن یاہو
  • خودکشی کی روک تھام کیلئے سکردو میں علماء، عمائدین اور سرکاری حکام کا اجلاس
  • وزیراعظم کی ہدایت پر سجاد حسین شاہ کے اہلخانہ کو شہید پیکج ملے گا: بلال اظہر کیانی
  • اتحاد امت وقت کی اہم ضرورت ہے‘ حافظ نصراللہ
  • حیدرآباد: جماعت اسلامی سندھ کے نائب امیر حافظ نصراللہ چنا جماعت اسلامی کے رہنما مولانا دلشیر چنا کی وفات پر لواحقین سے تعزیت کے بعد دعا کررہے ہیں
  • جمعیت اتحاد العلماء و مشائخ سندھ کے صدر حافظ نصراللہ چنا ، پیر سید منیر شاہ ذاکری سے ملاقات پر گروپ فوٹو
  • حزب اللہ کے بانی رہنماء شہید سید عباس موسوی کی بیٹی کا انٹرویو 
  • شہدائے نومبر کی برسی، قوم اپنے بہادر سپوتوں کو سلامِ عقیدت پیش کرتی ہے
  • سابق وفاقی وزیر محمود علی مرحوم کی 19ویں برسی کے موقع پر ان کی یاد میں ریفرنس (کل)ہوگا