Express News:
2025-10-04@13:57:05 GMT

چھاتی کا سرطان: آگاہی، احتیاط اور بچاؤ کی ضرورت

اشاعت کی تاریخ: 1st, October 2025 GMT

کراچی:

دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی بیماریوں میں اگر کسی ایک مرض نے خواتین کی زندگیوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے تو وہ چھاتی کا سرطان ہے۔ یہ وہ بیماری ہے جس کا نام سنتے ہی خوف اور بے یقینی کی ایک لہر دل و دماغ پر طاری ہو جاتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں بیماریوں کے بارے میں بات کرنا، بالخصوص خواتین سے متعلق امراض کا ذکر، عموماً معیوب سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر خواتین بروقت تشخیص اور علاج کے موقع سے محروم رہ جاتی ہیں۔ حالانکہ چھاتی کا سرطان ایک ایسا مرض ہے جس کی اگر ابتدائی مرحلے میںتشخیص ہو جائے تو اس کا علاج کامیابی سے ممکن ہے اور مریضہ ایک صحت مند اور نارمل زندگی گزار سکتی ہے۔

چھاتی کے سرطان کی بڑھتی شرح

اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہر نو میں سے ایک خاتون کو زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر چھاتی کے سرطان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ تناسب دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ تشویشناک امر یہ ہے کہ زیادہ تر مریضہ اسپتال میں اس وقت پہنچتی ہیں جب بیماری کافی حد تک بڑھ چکی ہوتی ہے اور علاج کے امکانات محدود ہو جاتے ہیں۔ یہ صورتحال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ خواتین میں زیادہ سے زیادہ آگاہی پیدا کی جائے، تاکہ وہ ابتدائی علامات پر توجہ دے سکیں اور بروقت معائنہ اور علاج کروا سکیں۔

خطرے کے عوامل

چھاتی کے سرطان کی اصل وجوہات ابھی تک سو فیصد واضح نہیں ہیں، لیکن کچھ عوامل ایسے ہیں جو اس مرض کے امکانات کو بڑھا دیتے ہیں۔ ان میں سب سے اہم جینیاتی یا خاندانی پس منظر ہے۔ اگر خاندان کی کسی خاتون کو یہ مرض لاحق ہوا ہو تو دیگر خواتین میں اس کے امکانات زیادہ ہو جاتے ہیں۔

عمر بھی ایک اہم فیکٹر ہے۔ عموماً 40 سال سے زیادہ عمر کی خواتین اس بیماری کی زد میں زیادہ آتی ہیں۔ تاہم، آج کل کم عمر خواتین میں بھی یہ مرض تیزی سے سامنے آ رہا ہے۔ موٹاپا، غیر متوازن غذا، ورزش کی کمی، تمباکو نوشی، زیادہ عرصے تک ہارمونز پر مشتمل ادویات کا استعمال اور پہلی بار دیر سے ماں بننا بھی اس بیماری کے امکانات میں اضافہ کرتا ہے۔

چھاتی کے سرطان کی علامات

اکثر خواتین اس مرض کو اس وقت تک سنجیدہ نہیں لیتیں جب تک بیماری آخری مراحل میں داخل نہ ہو جائے۔ حالانکہ کچھ علامات ایسی ہیں جنہیں نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ مثال کے طور پر:

٭چھاتی میں کسی گلٹی یا سختی کا محسوس ہونا

٭ چھاتی یا بغل کے حصے میں درد یا دباؤ

٭ چھاتی کی جلد پر سرخی، کھنچاؤ یا زخم

٭ نپل (چھاتی کے ابھار) سے غیر معمولی رطوبت یا خون آنا

٭ چھاتی کے سائز یا شکل میں اچانک تبدیلی

یہ تمام علامات فوری توجہ کی متقاضی ہیں۔ ہر خاتون کو چاہیے کہ ایسی کسی بھی تبدیلی کو نظر انداز نہ کرے اور فوراً کسی مستند ڈاکٹر سے رجوع کرے۔

بروقت تشخیص کی اہمیت

چھاتی کے سرطان کے علاج میں سب سے اہم مرحلہ اس کی بروقت تشخیص ہے۔ جدید سائنسی تحقیق اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ اگر یہ مرض ابتدائی درجے میں دریافت ہو جائے تو اس کا علاج نہ صرف ممکن ہے بلکہ مریضہ مکمل صحتیاب بھی ہو سکتی ہے۔ اسی لیے ڈاکٹروں کی جانب سے بار بار یہ تاکید کی جاتی ہے کہ خواتین خود بھی اپنے جسم میں ہونے والی تبدیلیوں پر نظر رکھیں اور باقاعدگی سے میڈیکل چیک اپ کروائیں۔

موجودہ دور میں تشخیص کے کئی جدید ذرائع موجود ہیں، جیسے میموگرافی، الٹراساؤنڈ اور بائی اوپسی۔ ان ٹیسٹوں کے ذریعے چھاتی میں کسی بھی مشکوک تبدیلی کو بروقت جانچا جا سکتا ہے۔

علاج کے طریقے

چھاتی کے سرطان کا علاج مریضہ کی حالت اور بیماری کے مرحلے پر منحصر ہوتا ہے۔ عمومی طور پر اس کے علاج میں سرجری، ریڈیو تھراپی، کیموتھراپی اور ہارمونل تھراپی شامل ہیں۔ بعض اوقات ایک سے زیادہ طریقوں کو بیک وقت استعمال کیا جاتا ہے تاکہ زیادہ مؤثر نتائج حاصل کیے جا سکیں۔

یہاںیہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ علاج صرف جسمانی نہیں بلکہ نفسیاتی اور جذباتی پہلوؤں کا بھی متقاضی ہوتا ہے۔ چھاتی کے سرطان سے متاثرہ خواتین عموماً ذہنی دباؤ، خوف اور مایوسی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ اس موقع پر خاندان اور دوستوں کی حوصلہ افزائی اور سماجی تعاون مریضہ کے حوصلے کو بلند رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

احتیاطی تدابیر

چونکہ چھاتی کے سرطان کے امکانات بعض عوامل سے جڑے ہوئے ہیں، اس لیے کچھ احتیاطی تدابیر اختیار کر کے اس کے خطرے کو کم کیا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلے متوازن غذا اور باقاعدہ ورزش کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا ضروری ہے۔ موٹاپا اور غیر صحت مند طرزِ زندگی کئی بیماریوں کی جڑ ہے، جن میں چھاتی کا سرطان بھی شامل ہے۔

اسی طرح تمباکو نوشی اور الکحل سے پرہیز بھی نہایت ضروری ہے۔ خواتین کو چاہیے کہ ہارمونل ادویات کا استعمال ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر نہ کریں۔ شادی اور ماں بننے میں غیر ضروری تاخیر بھی بعض اوقات خطرے کو بڑھا دیتی ہے، اس لیے اس پہلو کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

خود معائنہ: ہر خاتون کی ذمہ داری

ہر خاتون کو ماہانہ بنیاد پر اپنے جسم کا خود معائنہ کرنا چاہیے۔ یہ عمل نہ صرف سادہ ہے بلکہ جان بچانے والا بھی ہو سکتا ہے۔ آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر چھاتی کی شکل، سائز اور جلد کا بغور جائزہ لینا اور ہاتھوں سے چھو کر کسی غیر معمولی گلٹی یا سختی کو محسوس کرنا اس عمل کا حصہ ہے۔ اگر کسی بھی تبدیلی کا پتہ چلے تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔

معاشرتی رویے اور خاموشی کی دیوار

ہمارے معاشرے کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ خواتین اپنے مسائل کو چھپاتی ہیں۔ وہ بیماری کے بارے میں بات کرنے سے کتراتی ہیںیا معاشرتی دباؤ اور شرم و جھجک کے باعث بروقت ڈاکٹر سے رجوع نہیں کرتیں۔ یہی خاموشی اکثر بیماری کو خطرناک مراحل تک پہنچا دیتی ہے۔ ہمیں اس رویے کو بدلنا ہوگا اور خواتین کو یہ یقین دلانا ہوگا کہ اپنی صحت کے بارے میں بات کرنا معیوب نہیں بلکہ زندگی بچانے کے مترادف ہے۔

آگاہی مہمات کی ضرورت

پاکستان جیسے ملک میں جہاں چھاتی کے سرطان کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے، وہاں آگاہی مہمات نہایت ضروری ہیں۔ میڈیا، تعلیمی ادارے، مساجد اور کمیونٹی سینٹرز کو اس ضمن میں کردار ادا کرنا ہوگا۔ ڈاکٹروں، سماجی تنظیموں اور حکومت کو مل کر ایسی حکمت عملی اپنانا ہوگی جو زیادہ سے زیادہ خواتین تک یہ پیغام پہنچا سکے کہ بروقت تشخیص اور علاج ہی اس بیماری سے بچنے کا مؤثر ذریعہ ہے۔

سنجیدہ لیکن قابل علاج مرض

چھاتی کا سرطان ایک سنجیدہ مگر قابلِ علاج مرض ہے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ خواتین اپنی صحت کے بارے میں سنجیدہ ہوں، علامات کو نظر انداز نہ کریں اور وقت پر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ معاشرے کو بھی چاہیے کہ وہ خواتین کی حوصلہ افزائی کرے، انہیں سہارا دے اور بیماری کے خلاف ان کی جنگ میں ان کا ساتھ دے۔

یاد رکھیے، زندگی قیمتی ہے۔ چند لمحے نکال کر خود معائنہ کرنے، باقاعدہ چیک اپ کروانے اور صحت مند طرزِ زندگی اختیار کرنے سے نہ صرف بیماری سے بچاؤ ممکن ہے بلکہ ایک بہتر اور محفوظ مستقبل بھی یقینی بنایا جا سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: چھاتی کے سرطان کی ڈاکٹر سے رجوع ہے کہ خواتین کے بارے میں کے امکانات بیماری کے خاتون کو سے زیادہ اور علاج جا سکتا سکتا ہے ا گاہی

پڑھیں:

سرکاری اسپتال لیڈی ریڈنگ کے روم چارجز 10 ہزار روپے مقرر، اصل ماجرا کیا ہے؟

خیبر پختونخوا کے سب سے بڑے سرکاری تدریسی اسپتال، لیڈی ریڈنگ پشاور کی انتظامیہ نے اسپتال کے پرائیویٹ روم کے چارجز 10 ہزار روپے روزانہ مقرر کر دیے۔

یہ بھی پڑھیں: پشاور: لیڈی ریڈنگ اسپتال کے زنانہ انتظار گاہ سے معذور بچی کی لاش برآمد

اسپتال کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق اسپتال میں پرائیویٹ علاج کے لیے آنے والے مریضوں کے لیے پرائیویٹ رومز کی فیس میں اضافہ کیا گیا اور اب روم چارجز 10 ہزار روپے روزانہ ہوں گے۔

ترجمان ایل آر ایچ محمد عاصم خان نے نوٹیفکیشن کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ پرائیویٹ روم ان مریضوں کے لیے ہیں جو وارڈ میں داخل ہونا نہیں چاہتے۔

’روم چارجز پرائیویٹ مریضوں کے لیے ہیں’

اسپتال کے ترجمان محمد عاصم خان نے بتایا کہ ایل آر ایچ میں 80 کے قریب پرائیویٹ رومز ہیں اور مریض اپنی مرضی سے چارجز ادا کر کے لیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر یہ کمرے پرائیویٹ مریضوں کے لیے ہیں جو شام کے وقت پرائیویٹ کلینک میں آتے ہیں اور داخل ہوتے ہیں۔

محمد عاصم خان نے بتایا کہ اسپتال میں صبح کے وقت او پی ڈی میں تمام علاج مفت ہے جبکہ ایمرجنسی 24 گھنٹے مفت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ تدریسی اسپتالوں میں شام کے وقت پرائیویٹ علاج کی سہولت بھی موجود ہے جسے آئی بی پی پی کہا جاتا ہے۔

مزید پڑھیے: پشاور: دنیا سے رخصت ہوتا 14 سالہ ہیرو 5 خاندانوں کو انمول خوشیاں دے گیا

ان کا کہنا تھا کہ کچھ مریض پرائیویٹ اوقات میں آتے ہیں اور اپنی مرضی کے ڈاکٹر سے علاج کراتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ شام کے وقت آئی بی پی پی میں فیس مقرر ہے اور پرائیویٹ علاج مفت نہیں ہوتا تاہم مریض کو صحت کارڈ کی مفت سہولت دستیاب ہے۔

محمد عاصم خان نے مزید کہا کہ پرائیویٹ رومز کے چارجز سے عام مریض کے علاج پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ اسپتال میں مفت علاج اور صحت کارڈ کی سہولت موجود ہے اور مریضوں کے لیے وارڈز بھی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’مریضوں کے لیے وارڈز موجود ہیں اور سب کا ایک جیسا علاج ہوتا ہے جبکہ مذکورہ کمرے صرف ان کے لیے ہیں جو اپنی مرضی سے پیسے دے کر لینا چاہتے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ کسی کو زبردستی پرائیویٹ روم میں داخل نہیں کیا جاتا۔ انہوں نے کہا کہ پرائیویٹ رومز کے پہلے بھی چارجز ہوتے تھے جو پہلے 3 ہزار روپے تھے جو اب 10 ہزار کر دیے گئے ہیں۔

کیا پرائیویٹ علاج بہتر رہتا ہے؟

ایل آر ایچ کے ترجمان نے بتایا کہ اسپتال میں تمام مریضوں کا ایک جیسا علاج ہوتا ہے اور جس ڈاکٹر کا مریض ہوتا ہے وہی چیک کرتا ہے۔

پرائیویٹ رومز میں صرف تھوڑی پرائیویسی ہوتی ہے جسے کچھ مریض ترجیح دیتے ہیں باقی میڈیکل سہولیات وہی ہیں جو عام وارڈ میں دستیاب ہیں۔

یہ سرکاری اسپتالوں کی پرائیویٹائزیشن ہے، ہیلتھ رپورٹر کاشان اعوان

ایل آر ایچ انتظامیہ کی جانب سے 10 ہزار روپے روم چارجز پر صوبائی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

ہیلتھ رپورٹر کاشان اعوان کے مطابق سرکاری اسپتال میں 10 ہزار روپے روم رینٹ ناانصافی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’سرکاری اسپتال کا مطلب مناسب قیمت پر بہتر علاج کرنا ہے نہ کہ کمائی کا ذریعہ۔‘

کاشان نے صوبائی حکومت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے سنہ 2014 میں تبدیلی کے نام پر تدریسی اسپتالوں کو خودمختار بنایا اور بی او جی کو فیصلے کا اختیار دیا جبکہ تمام معاملات عمران خان کے کزن دیکھتے ہیں۔

مزید پڑھیں: پشاور میں شوکت خانم اسپتال کے ڈاکٹر اغوا، مغوی کے والد نے کیا بتایا؟

انہوں نے کہا کہ حکومت سالانہ ایل آر ایچ کو گرانٹ دیتی ہے اور صحت کارڈ سے بھی بہت زیادہ کمائی ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود علاج مہنگا کیا جا رہا ہے۔

کاشان کے مطابق صبح کے وقت او پی ڈی کے لیے محدود تعداد میں ٹوکن دیے جاتے ہیں جبکہ 2 بجے کے بعد کوئی ڈاکٹر نہیں ہوتا اور مریضوں کو شام کے پرائیویٹ سیشن میں آنے کا مشورہ دیا جاتا ہے جو مہنگا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عمارت سرکاری اور تمام سہولتیں بھی سرکاری ہیں لیکن فیسیں اتنی زیادہ کیوں ہیں؟

کاشان نے سوال کیا کہ کیا یہ کوئی فائیو اسٹار ہوٹل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کو اسپتالوں پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے اور فیسوں میں اضافے سے پہلے تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیے: بنیادی سہولیات سے محروم پشاور کا باڑہ شیخان پی ٹی آئی پر ایک سوالیہ نشان!

ہیلتھ رپورٹر نے کہا کہ ’یہ پرائیویٹائزیشن ہے جو پرویز خٹک دور میں تبدیلی کے نام پر شروع ہوئی تھی‘۔ انہوں نے مزید کہا پھر سرکاری اسپتالوں میں پرائیوٹ پریکٹس شروع کی گئی اور اب بھاری چارجز بھی عائد ہوگئے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ایل آر ایچ پرائیویٹ روم چارجز لیڈی ریڈنگ اسپتال لیڈی ریڈنگ اسپتال پشاور لیڈی ریڈنگ اسپتال روم چارجز

متعلقہ مضامین

  • غزہ: زخمیوں کو کئی سالوں تک دیکھ بھال کی ضرورت رہے گی، ڈبلیو ایچ او
  • موجودہ حالات میں پاکستان کو سب سے زیادہ معاشی استحکام کی ضرورت ہے، گورنر سندھ
  • سردار عبدالرحیم اسپتال میں زیر علاج، دعاؤں کی اپیل
  • بی آر ٹی منصوبے میں تاخیر، عدالت کو آگاہی کیلیے مہلت طلب
  • امریکی تحقیق کے مطابق بچوں میں بڑھتے ہوئے آٹزم کا ایک ممکنہ کردار
  • الزائمر اور پارکنسنز کے علاج میں ’آسٹروکیپسولز‘ نئی امید بن گئے
  • سرکاری اسپتال لیڈی ریڈنگ کے روم چارجز 10 ہزار روپے مقرر، اصل ماجرا کیا ہے؟
  • اکتوبر کو چھاتی کے کینسر سے آگاہی کے مہینے کے طور پر منایا جائیگا: آصفہ بھٹو 
  • ہمدرد یونیورسٹی میں پی سی او ایس آگاہی پروگرام کا انعقاد