Juraat:
2025-10-04@14:01:15 GMT

اداروں کی تباہی کی بانسری بجانے والا ' نیورو'

اشاعت کی تاریخ: 3rd, October 2025 GMT

اداروں کی تباہی کی بانسری بجانے والا ' نیورو'

اونچ نیچ
۔۔۔۔۔۔۔
آفتاب احمد خانزادہ

ایک معاشرہ تب ہی مضبوط ہوتا ہے جب اس معاشرے کے ادارے مضبوط ہوں یعنی مضبوط ادارے مضبوط معاشرے کی بنیاد ہوتے ہیں۔ اگر آپ کسی بھی معاشرے یا ملک کو کمزور یا کمزور کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو اس کے اداروں کو کرپشن کی بنیاد پر کھڑا کرنا چاہیے۔ اس کے نتیجے میں یہ ادارے بتدریج کمزور اور کمزور ہوتے جائیں گے اور آخر کار وہ معاشرہ یا ملک بھی کمزور اور کمزور ہوتا جائے گا اور منہدم ہو جائے گا۔ یہ مثال ہمیں اکثر یاد رہتی ہے اور ہم نجی گفتگو، محفلوں اور تحریروں میں یہ دہراتے رہتے ہیں کہ ”روم جل گیا اور طاقت نے بانسری بجائی”! لیکن کیا ہم نے کبھی اس بات پر توجہ دی ہے کہ روم کے زوال اور اقتدار کی بانسری بجانے کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے، بلکہ اس کا تسلسل ہمیں اس سے بھی زیادہ طاقتور اور پرجوش انداز میں ستا رہا ہے؟ نہیں! اس بارے میں ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں اور نہ ہی کبھی اس بارے میں سوچنے کی ضرورت محسوس کی! یہ شاید اس لیے ہے کہ جس ملک میں ہم رہتے ہیں، سانس لیتے ہیں اور پھلتے پھولتے ہیں، یہ رواج اس قدر عام ہے کہ اب ایسے سانحات ہماری زندگی کا حصہ یا روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں! یہی وجہ ہے کہ ہم سب ایک نہ ایک طرح سے ”نیلے” ہیں، جو ہر روز خاموشی کی بانسری بجاتے رہتے ہیں اور ہر روز ہمارے سامنے کوئی نہ کوئی ”روم” کرپشن کے شعلوں میں جلتا رہتا ہے!
ہمارے ملک میں اداروں کی تباہی اور بربادی اسی دن سے شروع ہو چکی تھی جب کمیونسٹ دور حکومت، اداروں کے اندر سیاسی مداخلت اور کرپشن کی روایت قائم ہو رہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے کسی بھی ادارے کو دیکھیں تو وہ سیدھا نہیں ہوتا! یہی وجہ ہے کہ یہ ملک ترقی کی وہ بلندیاں طے نہیں کر سکا جو اسے ہونی چاہیے تھی۔ اس ملک میں کیا نہیں تھا؟ اور اس ملک میں کیا نہیں ہے؟ زراعت ایک بہترین زرعی نظام ہوا کرتی تھی اور ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی تھی، آج ہم نے اس زراعت کو کتنی تباہی سے دوچار کیا ہے! قدرت نے اس ملک کو ہر قسم کی معدنیات سے مالا مال کیا ہے لیکن ہماری معدنیات کا کیا ہو رہا ہے؟ کسی کو پرواہ نہیں! قدرتی مناظر سے مزین اس ملک کے تفریحی مقامات ایسی تباہی کا شکار ہو چکے ہیں کہ سیاح وہاں جانے سے پہلے سو بار سوچتے ہیں اور وہاں کا امن و امان آج بھی سوالیہ نشان ہے! اس کے علاوہ ملک کی معیشت کو سہارا دینے والے بڑے اداروں کی حالت ہمیں رلا دیتی ہے۔ ہمیں ایک اہم بات کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے کہ وہ ادارے جو حکومتوں کی عدم توجہی، اشرافیہ کی لالچ، اہلکاروں کی کرپشن اور عوام کی بے حسی کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں یا تباہ ہوچکے ہیں، وہ سب اپنی جگہ موجود ہیں، لیکن وہ نہیں ہیں۔ تاہم ملک میں کچھ ادارے ایسے بھی ہیں جہاں غریب لوگوں کی رسائی ہے، جہاں سے ناپہنچنے والوں کو بہترین اور مثبت فیڈ بیک ملتا ہے، حتیٰ کہ حکومتیں اور اہلکار بھی ان اداروں کو کرپشن کے پھیلاؤ سے بچانے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ان اداروں میں کرپشن یا بدانتظامی نہیں ہوتی، کیونکہ کالی بھیڑیں ہر جگہ موجود ہیں، لیکن اس کے باوجود معاشرے میں ان اداروں کے مثبت کردار اور اہمیت سے کسی طور انکار نہیں کیا جا سکتا۔ آئیے سندھ کی مثال لے لیں، سندھ کے اہم ادارے سندھ پبلک سروس کمیشن نے سندھ کے پسماندہ، غریب، ناپختہ اور ذہین طلبہ کو جو مواقع فراہم کیے ہیں، ہمیں ہزار اختلاف کے باوجود تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ میں اپنی زندگی میں ایسے کئی کمیشن پاس افسران سے ملا ہوں، جن کا ماضی غربت، محرومیوں اور مشکلات سے بھرا ہوا ہے، لیکن چونکہ وہ ذہین تھے، انہوں نے محنت کی اور سندھ پبلک سروس کمیشن جیسے ادارے نے انہیں رنگ، نسل، زبان، ذات پات اور مذہب سے بالاتر ہوکر ایک ایسا پلیٹ فارم دیا جہاں انہوں نے اپنی محنت اور ذہانت کے بل بوتے پر نہ صرف کمیشن کے امتحانات پاس کیے بلکہ معاشرے میں ایک اچھے عہدے اور نام کو بھی روشن کیا۔ اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔کچھ دنوں سے میں سوشل میڈیا پر سندھ پبلک سروس کمیشن کے بارے میں بہت پراپیگنڈہ پوسٹس دیکھ رہا ہوں، گو کہ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے، لیکن ابھی کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ اخبارات میں ایک خبر نے میری توجہ اپنی جانب کھینچی اور وہ خبر اس کالم لکھنے کی وجہ بھی بنی۔ سندھ پبلک سروس کمیشن نے اپنی سالانہ رپورٹ 2024 میں انکشاف کیا ہے کہ سال 2022 سے اب تک سندھ پبلک سروس کمیشن کی جانب سے مختلف شعبوں میں مجموعی طور پر 109 تحریری امتحانات کا انعقاد کیا گیا جس میں 381960 امیدواروں نے شرکت کی۔ ان میں سے 26722 امیدوار اگلے مرحلے کے لیے کوالیفائی کر چکے ہیں۔ تحریری امتحانات کے بعد کمیشن نے 25921 انٹرویوز کیے جس کے نتیجے میں مختلف اداروں میں بھرتی کے لیے 6077 امیدواروں کی سفارش کی گئی۔ رپورٹ کے مطابق کمیشن نے بھرتیوں اور انتخاب کے عمل کو جدید بنانے میں سال بھر نمایاں پیش رفت کی ہے۔ سال 2024 کا ایک اہم سنگ میل حیدرآباد ہیڈ آفس میں ایک جدید کمپیوٹر بیسڈ ٹیسٹنگ (CBT) لیب کا افتتاح ہے۔ یہ سہولت بھرتی کے عمل کو بین الاقوامی معیار کے مطابق لانے کے لیے قائم کی گئی ہے۔ لیب ایک خاص کنٹرول اور ماحول فراہم کرتی ہے جو غلطیوں اور بدعنوانی کے امکانات کو بہت حد تک کم کر دیتی ہے۔ یہ کمیشن سندھ پبلک سروس کمیشن ایکٹ 2022 کے تحت کام کر رہا ہے، جو کہ صوبائی اسمبلی کے پاس کردہ ایک قانون ہے، جس کا مقصد بھرتی کے عمل میں شفافیت، احتساب اور میرٹ کو بڑھانا ہے۔ اس ایکٹ کے تحت، کمیشن کو یہ اختیار حاصل ہے کہ:سرکاری اداروں میں بھرتی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مختلف اشتہارات اور انتخابی مشقیں کی گئیں۔ رپورٹ کے مطابق جولائی 2022 سے 2025 تک کمیشن نے مختلف سرکاری اداروں میں تقرری کے لیے 18,580 امیدواروں کا انتخاب کیا اور ان کی سفارش کی۔ ان میں سے 2022 میں بھرتی کے لیے 1,282 امیدواروں کی سفارش کی گئی تھی، 2023 میں 5,572، 2024 میں 6,077 اور 2025 میں 5,629 امیدواروں کی بھرتی کی سفارش کی گئی تھی۔ ڈیجیٹل، اختراعی اور میرٹ کے ذریعے سندھ پبلک سروس کمیشن کو مزید تقویت دینے کے لیے اپنے عزم کو مزید تقویت دے رہا ہے۔ سندھ کے نوجوان شفافیت، ساکھ اور مساوات کی بنیاد پر پرعزم ہیں۔سندھ پبلک سروس کمیشن کی اس رپورٹ کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ اس ادارے نے نہ صرف بہت سے ذہین، باصلاحیت اور غریب نوجوانوں کو ملازمتیں دی ہیں بلکہ ان کے خاندانوں کے لیے بھی معاشرے میں عزت اور وقار کے ساتھ رہنے کا ماحول بنایا ہے۔ چار سالوں میں، اس نے نہ صرف 18,580 نوجوانوں کی زندگیوں کو بہتر بنایا ہے بلکہ بہت سے خاندانوں کو بھی مالی طور پر محفوظ بنایا ہے۔ سندھ میں جہاں بے روزگاری، غربت اور مہنگائی جیسے مسائل کی بوتلیں ناچ رہی ہیں، اگر کوئی ادارہ بغیر کسی تفریق کے بے روزگار، ذہین نوجوانوں کو باہر نکال کر ان کی قسمت اور ذہانت کو بغیر کسی تفریق کے میرٹ کی بنیاد پر پرکھنے کے لیے ایک بہترین پلیٹ فارم مہیا کرے، وہ لوگ جو اپنے ذاتی مفادات کے لیے سوشل میڈیا پر آواز اٹھاتے ہیں ان کے خلاف آواز بلند نہیں کر سکتے۔ ان غریب والدین کے خیر خواہ، جو اپنی پوری زندگی اپنے بچوں پر صرف کرتے ہیں، یا اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے دن رات محنت کرتے ہیں، اس امید پر کہ وہ پڑھائی، محنت کریں، اور اپنی اور اپنے خاندان کی زندگیوں کو بہتر بنائیں۔یاد رہے کہ اس تاریک ماحول میں سندھ پبلک سروس کمیشن جیسا ادارہ غریب اور پسماندہ نوجوانوں کے لیے امید کی کرن ہے۔ جو لوگ اس امید کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا اپنے ذاتی لالچ اور لالچ کی وجہ سے اسے متنازع بنا کر اس کے کام سے روکتے ہیں وہ کبھی بھی سندھ اور سندھی عوام کے خیر خواہ نہیں ہو سکتے۔ ایسے لوگوں کو ہر ممکن طریقے سے روکا جائے۔ کیونکہ درحقیقت یہ اس دور کے ”بلو” ہیں جو اداروں کی تباہی کی بانسری بجا رہے ہیں۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: سندھ پبلک سروس کمیشن کی سفارش کی اداروں کی کی بانسری کی بنیاد کرتے ہیں بھرتی کے میں ایک چکے ہیں ملک میں ہیں اور اس ملک کے لیے کی گئی کو بہت رہا ہے آج بھی

پڑھیں:

صوبہ سندھ میں لوٹ مار کا سسٹم

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251002-03-7
اے ابن آدم یہ لوٹ مار کا حکومتی نظام پورے ملک میں بڑی شان وشوکت سے چل رہا ہے، اشرافیہ اور مراعات یافتہ طبقہ اس لوٹ مار پر فخر کرتا ہے مرکز سے لے کر چاروں صوبوں میں کرپشن کا بازار گرم ہے، ہمارے حکمران تو سیلاب کو بھی اپنے لیے کسی نعمت سے کم نہیں سمجھتے یہ وہ لوگ ہیں جو صرف سیلاب زدہ علاقے کے دورہ بھی اپنی سیاست کو چمکانے کے لیے کرتے ہیں، حکومت برطانیہ کا 30 لاکھ پائونڈ امداد کا اعلان حکومت نے عالمی اداروں سے بھی امداد کی اپیل کردی ہے۔ سنگاپور امداد کے لیے 50 ہزار ڈالر دے گا۔ کاش ہم اپنے پیروں پر کھڑے ہوتے تو ہمیں دوسرے ممالک سے بھیک مانگنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ہمارے حکمرانوں کی عیاشیاں اپنے عروج پر ہیں، غیر ضروری اخراجات بھی اربوں میں ہیں، کون سی ایسی مراعات ہے جو حکمران طبقہ وصول نہیں کرتا، غریب عوام کے پیسوں پر عیاشی کرنے والے حکمران اپنی عیاشیوں کو پورا کرنے کے لیے طرح طرح کے ٹیکس لگاتے رہتے ہیں اگر صرف بجلی کے بل کے ٹیکس دیکھ لیں تو ہوش اُڑ جاتے ہیں۔ کراچی میں کمرشل بلوں میں ایک ہزار کا بھتا لگا ہوا ہوتا ہے اس کے علاوہ کے ایم سی کے 150 روپے الگ آتے ہیں۔ اللہ بھلا کرے جماعت اسلامی کا کہ اُس نے بجلی کے بلوں میں موجود کے ایم سی چارجز پر عدالت میں مقدمہ کردیا ہے۔ میری جماعت اسلامی سے اپیل ہے کہ کراچی میں جو بجلی کے کمرشل بل موصول ہوتے ہیں ان میں موجود 1000 جو فکس چارجز کے نام سے یہ مافیا وصول کررہی ہے اس پر بھی مقدمہ کیا جائے، کرپشن کے خلاف آواز حق صرف جماعت اسلامی ہی بلند کرتی ہے۔ کراچی کے تاجروں نے کے ایم سی ٹیکس اور اس میں مزید اضافے پر شدید احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ اب کراچی کے عوام ماہانہ 285 کروڑ روپے میونسپل ٹیکس ادا کریں گے۔ لیکن کراچی کی عوام اور تاجروں کو بارش کی تباہ کاریوں سے بچانے کے لیے کوئی حفاظتی اقدامات نہیں کیے جارہے۔

پریس کانفرنس میں تاجروں نے برسات کے موقع پر مرتضیٰ وہاب اور وزیراعلیٰ سندھ کے رویے کو انتہائی ظالمانہ اور سنگدلانہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ بارش کی پیشگی اطلاعات کے باوجود میئر کراچی نے عوام اور تاجروں کو بارش سے بچانے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے۔ تاجروں نے کہا کہ کیماڑی سے سہراب گوٹھ تک گلشن اقبال سے سعدی ٹائون اور لانڈھی تک مارکیٹوں اور آبادیوں میں 5 سے 10 فٹ تک پانی داخل ہوگیا جس کی وجہ سے تاجروں اور عوام کا سب کچھ پانی میں ڈوب گیا جس سے ان کا اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔ ابن آدم کہتا ہے یہ نقصان کیا بلدیہ ادا کرے گی۔ قارئین اس حوالے سے بڑی اہم خبر میری نظر سے گزری، یہ خبر کراچی کی نہیں ہے مگر ایک بڑا سچ ضرور ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں سی ڈی اے سے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات نہ ہونے کا تذکرہ ہوا۔ عدالت عالیہ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے مقدمے کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ قانون کے مطابق تمام اختیارات سی ڈی اے سے ایم سی آئی کو منتقل ہونا تھے جو کچھ سی ڈی اے بورڈ کررہا ہے یہ لوکل گورنمنٹ کے ادارے کو کرنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ایک روپے کے استعمال کا اختیار لوکل گورنمنٹ کا ہے۔ آئین کہتا ہے کہ عوام کے منتخب نمائندے اپنا اختیار استعمال کریں گے۔

عدالت عالیہ نے 4 اور عدالت عظمیٰ نے ایک فیصلہ دیا لیکن حکومت نے اسلام آباد میں بلدیاتی الیکشن نہیں ہونے دیے۔ جسٹس محسن کیانی نے سوال کیا کہ مجھے پاکستان کا کوئی ایک ادارہ بتائیں جو اپنا کام ہینڈل کرنے کے قابل رہا ہو؟ مجھے عدالتوں سمیت کوئی ایک ادارہ بتادیں جو وہ کام کررہا ہو جو ان کو کرنا چاہیے تھا۔ ابن آدم سچ بولنے پر جسٹس محسن کیانی صاحب کو سلام پیش کرتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ عدالت بھی حکومت کی زبان بولتی ہے۔ حکمران اپنی مرضی کے فیصلے کرواتے ہیں۔ اداروں میں میرٹ نام کی کوئی چیز نہیں رہی، ہر ادارے میں سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہوتی ہے، ٹھیکے من پسند لوگوں کو ملتے ہیں جس کام کے پیسے ٹھیکے دار کو دیے جاتے ہیں وہ سب حصوں میں بٹ جاتے ہیں۔ کاغذات میں کام کردیا جاتا ہے اور مال ہڑپ کرلیا جاتا ہے، برسوں سے لوٹ مار کا یہ نظام سرکاری اداروں میں پھل پھول رہا ہے، افسران اور ٹھیکے دار راتوں رات کروڑ پتی اور ارب پتی بن جاتے ہیں، پھر من پسند افسران اپنے سیاسی آقائوں کو ان کا حصہ باعزت طریقے سے دے کر آتے ہیں تا کہ ان کی کرسی مضبوط تر ہوجائے۔

ایک بہت بڑی ناانصافی محکمہ تعلیم میں ہورہی ہے وہ استاد جو آئی بی اے کے امتحان میں اور قابلیت کی بنیاد پر محکمہ تعلیم میں بھرتی ہوئے ان کی کوئی پنشن نہیں، تنخواہ ایک کلرک کے برابر جبکہ نااہل پرانے استاد جو آج 19 اور 20 گریڈ تک پہنچ گئے ان کو آج بھی لکھنے اور بولنے کی تمیز نہیں ہے۔ ایک نسل برباد کرکے رکھ دی ان کی تنخواہیں لاکھوں میں پنشن نہایت پرکشش جب چاہتے ہیں چھٹی کرلیتے ہیں سارا دن سیاسی گفتگو اور چائے پی کر گھر چلے جاتے ہیں جبکہ وہ استاد جو آئی بی اے سے امتحان پاس کرکے خالص میرٹ پر بھرتی ہوئے ہیں نہ تو وہ چھٹی کرسکتے ہیں۔ نہ ان کی گھر کے قریب پوسٹنگ وغیرہ ہوسکتی ہے، ان استادوں میں خواتین استاد بھی شامل ہیں جو دور دراز کا سفر طے کرکے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے آتی ہیں، آدھی سے زیادہ تنخواہ تو ان کی کرایہ میں لگ جاتی ہے۔ ابن آدم حکومت سندھ سے مطالبہ کرتا ہے کہ ان سب کی تنخواہوں میں 100 فی صد فوری اضافے کا اعلان کریں ساتھ ان کو پنشن کی سہولت بھی دی جائے، ایک مسئلہ اور نظر سے گزرہ ہے کہ جب نئے استادوں کے پرانے واجبات مطلب تنخواہ کا Arrear جب اے جی سندھ جاتا ہے تو محکمہ تعلیم والے اس پر ان سے اپنا کمیشن طلب کرتے ہیں، نام استعمال کرتے ہیں، اے جی سندھ کے دفتر کا، ہوسکتا ہے مل کر دونوں طرف کمیشن کھایا جاتا ہو کیونکہ بغیر رشوت کے تو کوئی ممکن ہی نہیں ہے۔

امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے پریس کانفرنس میں کہا کہ سندھ میں حکومت کے نام پر لوٹ مار اور کرپشن کا سسٹم چل رہا ہے اس کی ذمے داری ان پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے فارم 47 کے ذریعے ان لوگوں کو مسلط کیا۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کراچی اور سندھ کی تباہی کی سب سے زیادہ ذمے دار ہیں اور یہ دونوں آج بھی وفاق کا حصہ ہیں۔ 20 سال گزر گئے K4 منصوبہ مکمل نہیں ہوا۔ تین حکومتیں گزر گئیں گرین لائن پروجیکٹ مکمل ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ ریڈ لائن منصوبہ اہل کراچی کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں۔ 15 سال سے پی ایف سی ایوارڈ نہیں جاری کیا گیا۔ سندھ حکومت 15 سال میں کراچی کے 3360 ارب روپے کھا چکی ہے جس میں وفاق کا حصہ بھی شامل ہے۔ سندھ حکومت کراچی کو صوبے کا حصہ نہیں سمجھتی صرف مال بنانے کے لیے اہل کراچی پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی ایک خاندان اور 40 وڈیروں کا دوسرا نام ہے۔ مرتضیٰ وہاب اہل کراچی کے ترجمان بننے کے بجائے وڈیروں اور جاگیرداروں کے ترجمان بنے ہوئے ہیں۔

شجاع صغیر سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • سمندری طوفان بوالوئی سے ویتنام میں تباہی‘ ہلاکتیں 51 ہوگئیں
  •  امریکی سرپرستی میں پیش کیا جانے والا نام نہاد غزہ امن منصوبہ مسترد کرتے ہیں، صہیب عمار صدیقی
  • گلے شکوے کا حل ریاست کیخلاف بندوق اٹھانا نہیں ہے: سرفراز بگٹی
  • سیلاب سے نقصانات کا درست تخمینہ لگانے کیلیے عالمی اداروں سے مدد طلب
  • آئی ایم ایف سے مذاکرات، صوبائی سرپلس، ریونیو شارٹ فال پر توجہ مرکوز
  • اسپین میں بارش اور سیلاب سے تباہی ‘ امداد کے لیے فوج طلب
  • کراچی: تعلیمی اداروں میں منشیات کی روک تھام کے لیے اسپیشل فورس قائم
  • صوبہ سندھ میں لوٹ مار کا سسٹم
  • زبان بند، ہاتھ توڑ دوں گی والا لہجہ مناسب نہیں، قمر زمان کائرہ، مریم نواز پر برس پڑے
  • زبان بند، ہاتھ توڑدوں گی والا لہجہ مناسب نہیں: قمرزمان کائرہ وزیراعلیٰ پر برس پڑے