پریس کلب پر پولیس کا دھاوا قابلِ مذمت ہے، صحافیوں کے ساتھ کھڑا ہوں،مولانا فضل الرحمٰن
اشاعت کی تاریخ: 3rd, October 2025 GMT
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں پولیس گردی کے واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس مشکل وقت میں صحافی برادری کے ساتھ کھڑے ہیں۔
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ “پریس کلب میں جو کچھ ہوا، وہ انتہائی افسوسناک اور قابلِ مذمت ہے۔ صحافیوں پر پولیس تشدد کسی طور پر برداشت نہیں کیا جا سکتا۔”
انہوں نے کہا کہ صحافی پرامن اور باشعور لوگ ہیں، جو اپنا دائرہ کار جانتے ہیں۔ “نیشنل پریس کلب ایک مقدس جگہ ہے، اور وہاں موجود صحافی میدان میں نہیں بلکہ اپنی حدود میں موجود تھے۔ ان کے خلاف کسی قسم کی شکایت کا کوئی جواز نہیں تھا، اور نہ ہی انہوں نے قانون کو ہاتھ میں لیا۔”
صحافیوں پر تشدد کا کوئی جواز نہیں بنتا
مولانا فضل الرحمٰن نے اس بات پر زور دیا کہ اسلام آباد پولیس کا صحافیوں کو مارنا پیٹنا، ان کے ساتھ بدسلوکی کرنا، اور املاک کو نقصان پہنچانا کسی صورت قابل قبول نہیں۔ “صحافیوں کا احتجاج ان کا آئینی و جمہوری حق ہے، ہم ان کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔
واقعے کی تفصیلات: پریس کلب کی حرمت پامال
یاد رہے کہ 2 اکتوبر کو آزاد کشمیر میں تشدد کے خلاف چند مظاہرین نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے باہر احتجاج کر رہے تھے۔ جب پولیس موقع پر پہنچی تو کچھ مظاہرین عمارت کے اندر چلے گئے، جس کے تعاقب میں پولیس اہلکار زبردستی پریس کلب کے اندر داخل ہو گئے۔
اس دوران پولیس نے نہ صرف مظاہرین کو گرفتار کیا بلکہ وہاں موجود صحافیوں، فوٹوگرافروں اور کلب کے عملے پر بھی تشدد کیا۔ اطلاعات کے مطابق ایک فوٹوگرافر کا کیمرا توڑ دیا گیا، جبکہ کیفے ٹیریا میں بھی توڑ پھوڑ کی گئی۔
صحافتی اداروں کا شدید ردعمل
اس واقعے پر ملک کی بڑی صحافتی تنظیمیں بھی خاموش نہیں رہیں۔ کونسل آف پاکستان نیوزپیپر ایڈیٹرز (CPNE)، ایسوسی ایشن آف الیکٹرانک میڈیا ایڈیٹرز اینڈ نیوز ڈائریکٹرز (AEMEND) اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (PFUJ) نے مشترکہ بیان میں اسلام آباد پولیس کے اس اقدام کی شدید مذمت کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ واقعے میں ملوث اہلکاروں کے خلاف فوری کارروائی کی جائے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: مولانا فضل الرحم ن اسلام ا باد پریس کلب کے ساتھ
پڑھیں:
نئی گج ڈیم کیس: وفاقی آئینی عدالت نے درخواست کے قابلِ سماعت ہونے پر دلائل جاری
وفاقی آئینی عدالت میں نئی گج ڈیم کیس کی سماعت کے دوران نجی کمپنی کے وکیل مسعود خان نے مؤقف اختیار کیا کہ کیس سے متعلق 3 تحریری جوابات عدالت میں جمع کروائے جا چکے ہیں۔
چیف جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں آئینی عدالت کے 2 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
انہوں نے بتایا کہ اس سے قبل سندھ ہائیکورٹ کے 2 ججز نے اس حوالے سے حکم جاری کیا تھا، تاہم وفاقی آئینی عدالت میں یہ مقدمہ اب تک قابلِ سماعت قرار نہیں دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت سے نئی گچ ڈیم منصوبے کی لاگت پر رپورٹ طلب کرلی
سماعت کے دوران چیف جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ آئین میں ایسا کوئی اصول یا پابندی موجود نہیں جو 2 ججز کا فیصلہ دوسرے 2 ججز کے نہ سننے سے متعلق ہو۔
انہوں نے کہا کہ یہ پابندی سپریم کورٹ رولز کا حصہ ہوا کرتی تھی، آئین کا نہیں۔
وکیل مسعود خان نے موقف اختیار کیا کہ 27ویں آئینی ترمیم کے مطابق اس نوعیت کی تمام درخواستیں وفاقی آئینی عدالت کو منتقل ہو جائیں گی۔
مزید پڑھیں:آئینی عدالتیں شاہی دربار نہیں، جو ججز کیسز نہیں سن سکتے گھر چلے جائیں: اعظم نذیر تارڑ
انہوں نے مزید کہا کہ ایف ون سی کے تحت بھی کیس کے میرٹ کا جائزہ لینے سے پہلے اس کی قابلِ سماعت ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ ضروری ہے۔
وکیل نے یہ مؤقف بھی اپنایا کہ ان کے نزدیک سپریم کورٹ کے قواعد ابھی بھی قابلِ عمل ہیں۔
عدالت نے وکیل کے اعتراضات اور دلائل سننے کے بعد کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
جسٹس امین الدین خان سپریم کورٹ سپریم کورٹ رولز قابل سماعت نئی گج ڈیم کیس وفاقی آئینی عدالت