Jasarat News:
2025-10-04@13:57:12 GMT

ایبسولیوٹلی ناٹ والے کہاں ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 3rd, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

دنیا کے بڑے بڑے دعوے، پرجوش تقریریں اور خودساختہ غیرت کے نعرے وقت کے امتحان میں اکثر کھوکھلے ثابت ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں ایک ایسا ہی نعرہ ’’ایبسولیوٹلی ناٹ‘‘ کے نام سے مشہور ہوا تھا۔ اس نے عوام کو وقتی طور پر جوش و خروش دیا، حکمران طبقے کے خلاف غصہ نکالا اور خودداری کی ایک لہر پیدا کی۔ لیکن آج جب اصل وقت آیا ہے، جب فلسطین لہو میں نہا رہا ہے اور امت مسلمہ کی غیرت کو آزمایا جا رہا ہے، تو وہی ’’ایبسولیوٹلی ناٹ‘‘ والے کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ یہی وہ گھڑی ہے جہاں قائداعظم محمد علی جناح کے اس جملے کو یاد کرنے کی ضرورت ہے کہ: ’’پاکستان کبھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا‘‘۔ یہ محض ایک جملہ نہیں تھا بلکہ ایک اصولی اعلان تھا جس نے پاکستان کے وجود کو ایک نظریے کے ساتھ جوڑ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب اسرائیل وجود میں آیا تو دنیا کے کئی ممالک نے اسے فوری تسلیم کر لیا، مگر پاکستان نے دوٹوک مؤقف اختیار کیا اور واضح کر دیا کہ یہ ریاست غاصبانہ قبضے اور مظلوموں کے خون پر کھڑی کی گئی ہے، لہٰذا اسے تسلیم کرنا پاکستان کی نظریاتی اساس سے غداری ہوگی۔ پاکستان کی سیاست میں ’’ایبسولیوٹلی ناٹ‘‘ کا حوالہ ایک سابق وزیر ِاعظم نے امریکی دباؤ کو مسترد کرنے کے لیے دیا تھا۔ عوام نے اس نعرے کو عزت دی، غیرت کی علامت سمجھا اور اسے اپنی اجتماعی زبان بنا لیا۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ یہ نعرہ محض انتخابی جلسوں اور سیاسی نفع نقصان کا حصہ بن کر رہ گیا۔ اصل امتحان تو آج ہے۔ آج جب غزہ کی زمین پر بمباری ہو رہی ہے، بچے اور عورتیں شہید ہو رہی ہیں، اسپتال اور اسکول ملبے میں بدل رہے ہیں، اور دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، تو پاکستان کے حکمرانوں کو حقیقت میں ’’ایبسولیوٹلی ناٹ‘‘ کہنے کی ضرورت ہے۔

فلسطین محض ایک علاقائی تنازع نہیں، یہ انسانیت کا امتحان ہے۔ پچھلے کئی مہینوں میں اسرائیل نے ایسی جارحیت کی ہے جس کی مثال جدید تاریخ میں کم ملتی ہے۔ امریکا اور مغربی طاقتیں کھلم کھلا اسرائیل کی پشت پناہی کر رہی ہیں، اقوامِ متحدہ بے بس نظر آتی ہے، اور امت مسلمہ کی اکثریت صرف زبانی دعووں پر اکتفا کر رہی ہے۔ کچھ حکمران خاموش ہیں، کچھ منافقانہ بیانات دے کر اپنے دامن بچانے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ فلسطین کے مظلوم عوام تنہا کھڑے ہیں۔ یہ وہ وقت ہے جب پاکستان کو قائداعظم کے اصولی موقف پر ڈٹ کر کھڑا ہونا چاہیے۔ فلسطین کا معاملہ پاکستان کے نظریاتی وجود سے جڑا ہوا ہے۔ ہمارے سیاستدان اور حکمران طبقہ جب اپوزیشن میں ہوتا ہے تو بڑے بڑے دعوے کرتا ہے۔ ’’ہم امریکا کی غلامی قبول نہیں کریں گے‘‘، ’’ہم اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے‘‘ اور ’’ہم فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں‘‘ جیسے بیانات دیے جاتے ہیں۔ لیکن جب اقتدار میں آتے ہیں تو خاموشی، مصلحت اور غلامانہ طرزِ عمل ان کا مقدر بن جاتا ہے۔ یہ تضاد ہماری سیاست کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ عوام کو نعرے دے کر جذباتی بنایا جاتا ہے، لیکن عملی اقدامات صفر ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ’’ایبسولیوٹلی ناٹ‘‘ محض ایک تقریری جملہ بن کر رہ گیا، جبکہ دنیا دیکھ رہی ہے کہ پاکستان کا کردار صرف بیانات تک محدود ہے۔

اصل غیرت یہ ہے کہ پاکستان کھل کر اسرائیل کے وجود کو ناجائز قرار دے اور ہر عالمی پلیٹ فارم پر اس کے بائیکاٹ کا اعلان کرے۔ لیکن یہاں تو اسرائیل سے تعلقات کے دروازے کھولنے کی سازشیں وقتاً فوقتاً سامنے آتی رہتی ہیں۔ کبھی خفیہ ملاقاتوں کی خبریں آتی ہیں، کبھی غیر ملکی دباؤ کا ذکر ہوتا ہے، اور کبھی اقتصادی بحران کو جواز بنا کر یہ کہا جاتا ہے کہ تعلقات قائم کرنے میں فائدہ ہے۔ یہ رویہ نہ صرف قائد کے نظریے کی توہین ہے بلکہ پوری امت مسلمہ کے جذبات سے کھلا مذاق ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے صاف اور دوٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے اور پاکستان اسے کبھی تسلیم نہیں کرے گا۔ یہ وہ بنیاد ہے جس پر ہماری خارجہ پالیسی کھڑی ہے۔ لیکن افسوس کہ آج کے حکمران اس اصولی موقف کو محض کاغذی حقیقت بنا کر رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ عوام کو وقتی بیانات دے کر بہلایا جا سکتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ عوام کے دل میں فلسطین کا درد زندہ ہے اور وہ ہر حال میں اپنے حکمرانوں سے اصولی موقف کی توقع رکھتے ہیں۔ اگر واقعی ’’ایبسولیوٹلی ناٹ‘‘ کہنا ہے تو یہی وقت ہے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی ہر کوشش، ہر سازش اور ہر دباؤ کو دوٹوک جواب دینا ہی قائد کے نظریے کے ساتھ وفاداری ہے۔

آج فلسطین لہو لہان ہے مگر امت مسلمہ کے اکثر حکمران اپنے تجارتی معاہدوں، تیل کی دولت اور مغربی مفادات کے اسیر ہیں۔ کچھ ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر چکے ہیں، کچھ تعلقات قائم کرنے کے لیے بہانے تلاش کر رہے ہیں۔ یہ امت مسلمہ کے لیے سب سے بڑی شرمندگی ہے۔ اگر مسلمانوں کی ایک ارب سے زائد آبادی کے ہوتے ہوئے ایک چھوٹی سی ناجائز ریاست ظلم اور درندگی کے ذریعے اپنی مرضی چلاتی ہے، تو یہ ہماری اجتماعی بے حسی اور کمزوری کا کھلا ثبوت ہے۔ یہی اصل وقت ہے کہ پاکستان دنیا کو دکھائے کہ ابھی بھی کچھ اصول باقی ہیں، ابھی بھی کچھ قومیں اپنی غیرت پر سودا نہیں کرتیں۔ ورنہ تاریخ ہمیں بھی ان غداروں کی فہرست میں لکھ دے گی جنہوں نے فلسطین کو بیچ دیا۔ ہماری آنے والی نسلیں پوچھیں گی کہ جب غزہ پر بم برس رہے تھے تو تم کہاں تھے؟ جب معصوم بچوں کی لاشیں زمین پر بکھری تھیں تو تم نے کیا کیا؟ اور اس وقت ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہوگا۔

حکمران اپنی مصلحتوں میں الجھے رہتے ہیں، مگر اصل طاقت عوام کے پاس ہے۔ پاکستانی عوام ہمیشہ فلسطین کے ساتھ کھڑی رہی ہے۔ سڑکوں پر نکل کر، اپنی آواز بلند کر کے اور سوشل میڈیا پر فلسطین کی حمایت کر کے ہم دنیا کو بتا سکتے ہیں کہ پاکستان کا دل فلسطین کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ اگر حکمران دوغلا پن دکھائیں تو عوام کا فرض ہے کہ انہیں یاد دلائیں: ایبسولیوٹلی ناٹ صرف ایک جملہ نہیں، یہ ایک عہد ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم نعرے اور تقریروں سے آگے بڑھیں۔ اگر واقعی غیرت ہے تو امریکا کے دباؤ کو مسترد کریں، اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کریں، اور قائداعظم کے اصولی مؤقف پر ڈٹ جائیں۔ یہ کوئی سیاسی فائدے کا کھیل نہیں بلکہ نظریاتی جنگ ہے۔ اگر پاکستان اس وقت کمزور ہوا تو صرف فلسطین ہی نہیں بلکہ خود ہمارا وجود بھی سوالیہ نشان بن جائے گا۔

فلسطینی عوام کو ہماری پشت پناہی کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے اب بھی خاموشی اختیار کی تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ پاکستان کو بھی یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ غلامی کے خول میں بند رہنا چاہتا ہے یا عزت کے ساتھ دنیا کے سامنے کھڑا ہونا چاہتا ہے۔ پاکستان کو آج ایک فیصلہ کرنا ہے۔ یا تو ہم تاریخ کے صفحات پر قائداعظم کے وارث کہلائیں گے، یا پھر ان قوموں میں شمار ہوں گے جنہوں نے اپنی غیرت اور ایمان کو دنیاوی مصلحتوں پر قربان کر دیا۔ فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے۔ ایبسولیوٹلی ناٹ — اب صرف نعرہ نہیں، پاکستان کا مستقل اعلان ہونا چاہیے۔

 

میر بابر مشتاق.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کہ پاکستان فلسطین کے تسلیم کر عوام کو کے ساتھ رہی ہے

پڑھیں:

قائد اعظم کا اسرائیل پر موقف مشعل راہ، امن منصوبے پر پاکستان کے بھی تحفظات، ایکسپریس فورم

 اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جو خونریزی اور نسل کشی کو اپنے مطالبات منوانے کیلیے استعمال کر رہا ہے، نیتن یاہو نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں بھی دھمکیاں دیں لہٰذا ایسے شخص پر کس طرح اعتبار کیا جاسکتا ہے، ٹرمپ کے امن منصوبے پر پاکستان نے بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ اس میں اسلامی ممالک کے ساتھ طے شدہ نکات شامل نہیں، ان نکات کو سامنے لانا چاہیے۔

 پاکستان کیلیے قائداعظمؒ کا اسرائیل پر موقف مشعل راہ ہے، فلسطین اور کشمیر کے ساتھ ہماری جذباتی وابستگی ہے، فلسطین امن معاہدے کے اثرات کشمیر پر بھی ہوں گے ، ٹرمپ غیر متوقع شخصیت ہیں، نیتن یاہو بھی قابل اعتماد شخص نہیں، دنیا پاکستان کی طرف دیکھ رہی ہے لہٰذا ہمیں سمجھداری سے آگے بڑھنا ہوگا۔  ان خیالات کاا ظہار ماہرین امور خارجہ اور سیاسی و دفاعی تجزیہ کاروں نے ’’امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی غزہ امن منصوبے‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں کیا۔ فورم کی معاونت کے فرائض احسن کامرے نے سرانجام دیئے۔ 

  ڈین فیکلٹی آف آرٹس اینڈ ہیومینی ٹیز  جامعہ پنجاب پروفیسر ڈاکٹر محبوب حسین نے کہا کہ  خونریزی اور جنگ کی صورتحال میں مسئلہ فلسطین اور غزہ کا مذاکرات کی میز پر آنابہتر ہے۔

 اس کے پیچھے مسلم اور یورپی ممالک کا امریکا اور اسرائیل پر دباؤ ہے، فلسطین میں انسانی حقوق کی بدترین پامالی پر یورپی ممالک میں انسانی حقوق کی تنظیموں سمیت عوام کی بڑی تعداد نے جس انداز میں مظاہرے کیے انہیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ماہر امور خارجہ محمد مہدی نے کہا کہ جن آٹھ ممالک کے سربراہان نے ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی، ان میں پاکستان واحد ملک سے جس کے اسرائیل کے ساتھ شروع دن سے ہی کوئی تعلقات نہیں اور نہ ہی پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم کیا، ایران نے بھی اسرائیل کو تسلیم کیا تھا، 79ء کے بعد اس نے موقف بدلا اور اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کیا، پاکستان کیلئے یہ صورتحال انتہائی مشکل ہے۔

 ہمارے لیے قائد اعظمؒ کا اسرائیل کے حوالے سے موقف مشعل راہ ہے۔ دفاعی تجزیہ کار کرنل (ر) عابد لطیف نے کہاکہ اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جو دھونس سے علاقے کو تبدیل کرنا چاہتا ہے، وہ کسی بارڈر، عالمی معاہدے، قانون کو نہیں مانتا اور اپنے اردگرد والے علاقوں میں اپنا اثر و رسوخ ہر حال میں قائم کرنا چاہتا ہے، ٹرمپ کا امن منصوبہ ایسا پھل ہے جس کے چاروں اطراف کانٹے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • قائد اعظم کا اسرائیل پر موقف مشعل راہ، امن منصوبے پر پاکستان کے بھی تحفظات، ایکسپریس فورم
  • ہم فلسطین کے حوالے سے قائداعظم کے موقف سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹیں گے، ایم ڈبلیو ایم 
  • فلسطین پر صہیونیوں کا ناپاک قبضہ قابل قبول نہیں، علامہ شبیر حسن میثمی
  • امدادی قافلے پر اسرائیلی حملہ بین الاقوامی پانیوں میں قانون اور انسانیت دونوں کی صریح توہین ہے، صادق جعفری
  • ٹرمپ کے ایجنڈے پر فلسطین کا سودا کرنے والے مسلم حکمران خیانت کار ہیں، علامہ حسن ظفر نقوی
  • امن منصوبے کے نام پر 2 ریاستی فارمولے کو مسترد کرتے ہیں، وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا
  • فلسطین کے مستقبل کا فیصلہ امریکہ نہیں، بلکہ فلسطینی عوام کرینگے، علامہ مقصود ڈومکی
  • امن منصوبے کے نام پر 2 ریاستی فارمولے کو مسترد کرتے ہیں، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا
  • فلسطین کے دو ریاستی حل کی حمایت آئینِ اور قائدِاعظم کے ویژن کی خلاف ورزی ہے، ظہور خٹک