سیلاب اور مستقبل کے لیے پلاننگ
اشاعت کی تاریخ: 4th, October 2025 GMT
آئی ایم ایف نے سیلاب سے نقصانات کی حتمی رپورٹ جلد مانگ لی ہے۔ دوسری طرف پنجاب نے اپنے ہی وسائل سے متاثرین کی امداد کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ اس سیلاب میں مالی نقصان ہی نہیں ہوا بلکہ وہ نقصانات ہوئے ہیں جن کا تعلق دل کی گہرائیوں سے ہے، جذبات سے احساسات سے ہے۔
اس شخص سے پوچھیں اس کا کیا نقصان ہوا ہے۔ وہ اپنے نقصانات کی حتمی رپورٹ جلد از جلد یعنی ایک دو دنوں میں فوری طور پر حکومت کے علم میں لے کر آئے تاکہ اس کے نقصانات کا ازالہ کیا جائے۔ اب وہ کیا حساب جلد بازی میں دے سکتا ہے، اس کے جتنے بھی جانور تھے 10 یا 20 یا 30 سب کے سب پانی میں چلے گئے یا کسی کنارے کسی کے کھیت میں کیچڑ میں لت پت بے جان پڑے ہیں۔ اس نے تو اپنے مال مویشیوں کا حساب کتاب کبھی لگایا ہی نہیں تھا۔ اسے کیا معلوم کتنا نقصان ہو چکا ہے۔ یہاں تو اس کی دنیا ہی لٹ گئی ہے۔ اس کے لیے دودھ کا ایک ایک قطرہ نچوڑ لیا گیا ہے۔
اس کے بکرے جوکہ صحن میں اٹکھیلیاں کرتے رہتے تھے جنھیں دیکھ کر وہ اور اس کے بچے بہت خوش ہوا کرتے تھے وہ ان کے لیے مفت انٹرٹینمنٹ کا ذریعہ بن چکے تھے، لیکن اب وہ ان کے نقصانات کا اندازہ کیسے لگائے۔وزیر اعظم پاکستان کہہ چکے ہیں کہ 50 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔ ابھی اس میں سندھ میں آنے والے سیلاب کے نقصانات کا تذکرہ نہیں ہے جوکہ آیندہ ہفتے تک ہی صورت حال واضح ہوکر رہے گی۔ سندھ کے کئی اضلاع شدید متاثر ہو چکے ہیں۔ اہل کراچی بھی ان بارشوں سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ ان کے ہونے والے نقصانات کا صحیح اندازہ نہیں لگا سکتے۔
سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر کہیں کہیں گڑھے پڑ چکے ہیں جن میں بائیک ایک دفعہ ان گڑھوں کی سیر کر لے تو بائیک پکڑ کر اٹھانا ضروری ہو جاتی ہے۔ آئی ایم ایف مشن سے ہونے والے جاری مذاکرات دوسری ششماہی سے متعلق جائزہ ہے۔ ان مذاکرات میں پاکستانی حکام نے وفد کو معاشی ترقی، افراط زر، ترسیلات زر، درآمدات برآمدات اور سیلاب سے ہونے والے نقصانات پر بریفنگ دے دی۔ آئی ایم ایف وفد کی آمد کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ پاکستان سے اور معیشت سے متعلق تمام تر تفصیلات حاصل کر لی جائیں جس سے ملکی معیشت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس سے قبل 2022 میں سندھ میں آنے والے سیلاب کے نقصانات کا جائزہ لیا گیا تھا۔
اگرچہ کسانوں کا سندھ کے گاؤں دیہات کے باسیوں کا بے انتہا نقصان ہوا، لیکن اس کا عشر عشیر نقصان کا سامنا بھی آئی ایم ایف اور عالمی امداد سے حاصل نہ ہو سکا۔ اس مرحلے پر حکومت سندھ اور وزیر اعلیٰ سندھ، یہاں کی انتظامیہ اور پوری کابینہ مستعد ہو کر سیلابی پانی میں اترتے رہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور دیگر رہنما متاثرہ افراد کے شانہ بشانہ جا کر کھڑے ہوگئے۔ بہت سی تنظیموں نے بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا جوکہ بروقت تھا اور اس کی ضرورت بھی تھی جسے پورا کیا گیا۔ جب کہ عالمی امداد قلیل مقدار میں آئی مگر انتہائی تاخیر کے ساتھ، کیوں کہ ان کا سسٹم ایسا ہے کہ تاخیر کا ہونا لازمی ہوتا ہے۔
آئی ایم ایف کے حکام جلدازجلد نقصانات کا اندازہ طلب کر لیں گے، لیکن اس کے ازالے کے لیے ان کا سسٹم بہت زیادہ وقت طلب ہو سکتا ہے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ متاثرہ کسانوں کے لیے فوری مالی امداد اور فصل کی بحالی کے لیے سبسڈی فراہم کی جائے۔ سڑکیں، پل اور پانی کی نکاسی کے نظام کی فوری مرمت کی جائے۔ اگرچہ حکومت پنجاب اور انتظامیہ اس سلسلے میں دن رات کوشاں ہے لیکن پھر بھی مختلف ادارے جو امداد کرتے ہیں، مخیر حضرات، مقامی اور پورے پاکستان کی کمیونٹی مل کر ان کے وسیع تر ہونے والے نقصانات کا تھوڑا بہت ازالہ کر سکتے ہیں۔
حالیہ سیلاب نے پنجاب میں تباہی مچانے کے بعد صوبہ سندھ کو وسیع پیمانے پر اپنی لپیٹ میںلے لیا، اس میں اب نقصان صرف مال مویشی، مال و اسباب، زمین، مکان کا ہی نہیں ہوا بلکہ انسانی زندگی، سماجی ڈھانچے، لوگوں کی معیشت کے ساتھ پوری دیہی معیشت کو زمیں بوس کر چکا ہے جس کے لیے حکومت اب وسیع اور مستقل بنیادوں پر کام کرے گی۔ اس سلسلے میں آئی ایم ایف کی بھرپور معاونت بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔ فی الحال حکومت اور دیگر ادارے اور کمیونٹی کے مختلف افراد اور گروپ مل کر ہی ان کسانوں کو فوری امداد فراہم کر سکتے ہیں تاکہ یہ اپنے پیروں پر کھڑے ہو جائیں اور مستقل سرمایہ کاری کی جائے تاکہ آیندہ چل کر مستقل بنیادوں پر مضبوطی سے قائم رہیں۔
اب یہ معاملہ موسمیاتی تبدیلی سے جڑ چکا ہے اور موسمیاتی تبدیلی کارخانوں کے کالے دھوؤں، چمنیوں سے نکلنے والے آگ کے شعلے، فضا میں پھیلنے والے زہریلے مواد، قدرت کی حدوں کو توڑنے والے ممالک، ان سب کے ساتھ موسمیاتی تبدیلی نے اتنا گہرا تعلق قائم کر لیا ہے۔ وزیر اعظم کہہ چکے ہیں کہ صنعتی ممالک کا ہی قصور ہے۔ ہمارا شیئر نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ پڑوسی ملک بھارت ایک بہت بڑا صنعتی اور کارخانوں سے لدا ہوا ملک ہے اور زرعی فصل اٹھانے والا ملک ہے۔ وہاں سے آنے والا اسموگ ہماری زندگی کی رفتار کو نکیل ڈال دیتا ہے۔
سردیوں میں ہر طرف دھند ہی دھند چھائی رہتی ہے۔ آسمان پر پہنچنے والا زہریلا مواد جب اپنا انتقام لیتا ہے تو بھارت بارش کے پانی کے ذخیرے کو اپنے ملک میں محفوظ رکھنے کے بجائے ڈیم میں جمع کرکے ہماری طرف چھوڑ دیتا ہے۔ یوں ہمارے دیہات اور بستیوں کی سیلابی لہریں مزید کئی کئی گز اونچی ہو جاتی ہیں۔ لہٰذا اب اس کا مستقل حل تلاش کیا جانا ضروری ہے۔ نقصانات کا اندازہ لگانا ہے تو آج کا بھی لگائیں اور آیندہ کے لیے تخمینہ لگانا ضروری ہے تاکہ اس سے بچنے کے لیے ابھی سے اقدامات کیے جا سکیں۔ لہٰذا ابھی سے ہی سیلاب سے متعلق مستقبل کی پلاننگ کرلی جائے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے نقصانات کا آئی ایم ایف کا اندازہ ہونے والے چکے ہیں کے لیے
پڑھیں:
آئی ایم ایف کی ہدایات، حکومت نے سیلابی نقصانات کا نظرثانی شدہ ابتدائی تخمینہ تیار کرلیا
—فائل فوٹوانٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کی ہدایات پر وفاقی حکومت نے صوبوں میں سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا نظرثانی شدہ ابتدائی تخمینہ تیار کر لیا۔
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ششماہی اقتصادی جائزہ مذاکرات جاری ہیں اور پاکستانی حکام کی جانب سے آئی ایم ایف وفد کو سیلابی نقصانات، لیبر فورس اور ہاؤس ہولڈ سروے پر بریفنگ دی گئی۔
ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت نے سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا نظرثانی شدہ ابتدائی تخمینہ تیار کر لیا ہے۔ آئی ایم ایف کو فصلوں، انفرا اسٹرکچر اور لائیو اسٹاک سمیت نقصانات پر بریفنگ دی اور بتایا گیا کہ سیلاب سے مختلف صوبوں میں ہونے والے نقصانات 700 ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو 11 فیصد پر لانے کے لیے پر عزم ہیں، عدالتوں میں کئی ٹیکس مقدمات ہیں، ان میں ٹیکس وصولیوں کا امکان ہے، اضافی ٹیکس اقدمات نہیں لے رہے۔
ذرائع وزارت خزانہ کے مطابق سیلاب سے ابتدائی مجموعی نقصانات کا تخمینہ 360 ارب روپے تھا۔ لیبر فورس اور ہاؤس ہولڈ سروے سے متعلق آئی ایم ایف کی ڈیڈ لائن سے پہلے ہی پیشرفت ہو گئی اور وفاقی حکومت نے نئے پاکستان لیبر فورس سروے کے نتائج آئندہ ہفتے جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے سروے رپورٹ میں پاکستان میں غربت، بے روزگاری، گھرانوں کی آمدن، اخراجات کے رجحان کا ڈیٹا جاری ہو گا، پاکستان سوشل اینڈ لیونگ اسٹینڈرڈ سروے کے نتائج بھی رواں ماہ جاری کیے جائیں گے۔
ذرائع کا بتانا ہے کہ آئی ایم ایف کو اہم سروے کے فیلڈ ورک اور نتائج کی تیاری پر اعتماد میں لیا گیا، آئی ایم ایف نے سروے کے نتائج دسمبر 2025ء تک تیار کرنے کی ڈیڈ لائن دی تھی۔
ذرائع وزارت خزانہ نے کہا کہ ادارہ شماریات کی جانب سے اضلاع، صوبوں کی سطح پر مکمل ڈیٹا بیس کی تیاری پر کام جاری ہے اور سیلاب سے نقصانات کا تخمینہ لگانے کا کام ابھی جاری ہے۔