WE News:
2025-11-18@21:25:40 GMT

عالیہ بھٹ اپنی ننھی سی بیٹی کے لیے ای میل کیوں لکھتی ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 4th, October 2025 GMT

عالیہ بھٹ اپنی ننھی سی بیٹی کے لیے ای میل کیوں لکھتی ہیں؟

عالیہ بھٹ نے انکشاف کیا ہے کہ وہ اپنی بیٹی راہا کے لیے باقاعدگی سے ای میلز لکھتی ہیں، جو وہ اسے اس وقت تحفے میں دیں گی جب راہا 18 سال کی ہوجائے گی۔

یہ بھی پڑھیں:رنبیر کپور سے شادی کا فیصلہ کیوں کیا، عالیہ بھٹ نے بتا دیا

ریئلٹی شو ’ٹو مچ وِد کاجول اینڈ ٹوئنکل‘ میں گفتگو کے دوران کاجول نے عالیہ سے پوچھا کہ کیا یہ خیال انہیں فلم ’کچھ کچھ ہوتا ہے‘ سے ملا؟

عالیہ نے ہنستے ہوئے کہا، نہیں، کسی نے بتایا تھا کہ ایک ماں اپنی بیٹی کے لیے ایسا کرتی تھی، تو میں نے سوچا کیوں نہ میں بھی یہ کروں، یہ روزانہ کی ای میل نہیں ہوتی، بلکہ مہینے میں ایک ای میل جس میں میں راہا کے بارے میں چھوٹی چھوٹی باتیں لکھتی ہوں، جیسے وہ کس چیز سے خوش ہوئی یا میں اس کے لیے کیا خواہش رکھتی ہوں۔

عالیہ کے مطابق میں چاہتی ہوں جب وہ 18 سال کی ہو تو یہ سب پڑھ کر جانے کہ اس کی ماں اس کے بارے میں کیسا محسوس کرتی تھی، ہو سکتا ہے وہ 12 یا 13 سال کی عمر میں ہی یہ مانگ لے۔

یہ بھی پڑھیں:عالیہ بھٹ فٹ رہنے کے لیے کونسے دیسی کھانے کھاتی ہیں؟

اداکارہ نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے یہ ای میلز راہا کی پیدائش کے دن سے لکھنا شروع کیں۔

اپنی شادی کے حوالے سے عالیہ بھٹ نے بتایا کہ انہوں نے اور رنبیر کپور نے گھر پر چھوٹی تقریب میں شادی کرنے کا فیصلہ کیوں کیا۔

ان کے بقول ہم دونوں بہت گھریلو مزاج کے لوگ ہیں اور زیادہ سماجی تقریبات میں نہیں جاتے، ہم چاہتے تھے کہ ہماری شادی میں صرف وہ لوگ ہوں جو واقعی قریب ہیں، ہم نے سوچا کہ بڑی تقریب کے بجائے چھٹیوں میں ان جگہوں پر جائیں گے جنہیں شادی کے لیے سوچا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ای میل ٹوینکل کہنہ رنبئر کپور روہا عالیہ بھٹ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ای میل رنبئر کپور روہا عالیہ بھٹ عالیہ بھٹ کے لیے

پڑھیں:

واویلا کیوں؟

دوستو! ایک سمسیا یہ ہے کہ افغان پناہ گزینوں کو جب بھی واپس بھیجنے کا اعلان ہوتا ہے، مہاجرین کا واویلہ تو سمجھ میںآتا لیکن پاکستانیوںکا ایک مخصوص گروپ پتہ نہیں کیوں بین ڈالنا شروع کر دیتا ہے۔ بندہ پوچھے! غیرملکیوںکو ان کے اپنے وطن واپس بھیجا جا رہا ہے،کوئی کالا پانی کی سزا تو نہیں دی جا رہی،پھر پاکستانیوں کاایک گروپ کیوں ٹسوے بہا رہے ہیں۔

یورپ اورعرب ممالک آئے روز پاکستانیوں کو ڈی پورٹ کرتے رہتے ہیں، اس پر تو کوئی احتجاج نہیں کرتا، کوئی واویلا نہیں ہوتا لیکن پاکستان اگر غیرملکیوں کونکالے تو ظلم ہے، زیادتی ہے کی دہائی شروع ہوجاتی ہے۔

افغانستان کی طالبان رجیم بھی کہتی ہے کہ پاکستان میں موجود افغانوں کو نہ نکالا جائے حالانکہ انھیں تو کھلے دل سے اعلان کرنا چاہیے کہ وہ پوری دنیا میں جہاں کہیں بھی افغان بطور مہاجر یا پناہ گزین قیام پذیر ہیں ‘وہ فوری طور پر اپنے وطن واپس آ جائیں اور اپنے وطن کی تعمیر و ترقی میں حصہ ڈالیں۔مگر افغانستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں کی حکومت چاہتی ہے کہ جو لوگ افغانستان چھوڑ گئے ہیں وہ کبھی واپس نہ آئیں اور جو پاکستان یا کسی اور ملک میں پناہ گزین ہیں ‘وہ بھی واویلا کرتے ہیں کہ انھیں وطن واپس نہ بھیجا جائے ۔

 پاکستان واحد ملک نہیں ہے جو غیرملکی مہاجرین کو ان کے وطن واپس بھیج رہا ہے، ایران نے بھی افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے کیونکہ ایران بھی ان مہاجرین کی وجہ سے پیچیدہ معاشی اور سماجی مسائل کا شکار ہورہا ہے۔ پاکستان کومہمان نوازی کا خمیازہ دہشت گردی اور اسمگلنگ کی شکل میں بھگت رہا ہے ، پاکستان کی معاشرت اور معیشت متاثر نہیں بلکہ بحران زدہ ہو رہی ہے۔ ملک کا انفرااسٹرکچر تباہ ہو رہا ہے۔منشیات فروشی، ڈاکا زنی، اغوا برائے تاوان ،دہشت گردوں کی سہولت کاری اور دیگر جرائم کی شرح میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے ، افغان مہاجرین کی اچھی خاصی تعداد ایسے سنگین جرائم میں ملوث پائی گئی ہے ۔ دہشت گردی کی وارداتوں میں ان کے ملوث ہونے کے ناقابل تردید ثبوت حکومت کے پاس موجود ہیں۔حال ہی میںوانا کیڈٹ اسکول اور اسلام آباد میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں افغان باشندے ملوث پاء گئے ہیں۔

متعدد پاکستانی باشندے بھی اس گھناؤنے جرم میں ملوث ہیں۔ یہ لوگ سادہ لوحی، لاعلمی، مالی لالچ،نسلی و لسانی عصبیت یا دیگر مفادات کے باعث سہولت کاری میں ملوث ہوسکتے ہیں۔ اس لیے پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی پاکستان اور اس کے عوام کے مفادات کے تحفظ کے لیے انتہائی ضروری ہے ۔ اس معاملے پرکسی قسم کی مفاہمت یا نرم رویہ اختیارکرنے کی ہرگزگنجائش نہیں نکلتی۔ کیونکہ یہ پاکستان کی سلامتی کا معاملہ ہے۔ افغانستان کے شہریوں کا پاکستان کے خلاف دہشت گرد کارروائیوں میں استعمال ہونا، ملک کی سالمیت کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ افغان عبوری حکومت کو اس پہلو پر ضرور غورکرنا چاہیے کیونکہ شرپسند اور دہشت گرد عناصر افغانستان کے بھی ہمدرد نہیں ہیں۔

 پاکستان کالعدم ٹی ٹی پی کی دہشت گردی کے خلاف نبرد آزما ہے، داعش کیخراسان اور کالعدم ٹی ٹی پی کی سسٹر آرگنائزیشنز بھی پاکستان میں سرگرم ہیں۔ بلوچستان میں بی ایل اے اور دیگر دہشت گرد تنظیموں اور ٹی ٹی پی کے درمیان گہرے اسٹرٹیجک تعلقات استوار ہوچکے ہیں۔ دونوں گروہ ایک دوسرے کے لیے سہولت کاری کررہے ہیں۔ پاکستان کے اندر سے بھی انھیں سہولت کار میسر ہیں۔ افغان طالبان دوحہ معاہدے کی شرائط پر بھی عمل نہیں کررہے ۔حالیہ استنبول مذاکرات کی ناکامی بھی سب کے سامنے ہے۔

 امریکا 2021میں اپنے انخلا کے وقت افغانستان میں اپنا جدید اسلحہ چھوڑ کر گیا تھا، ایک طرح سے یہ ہتھیار طالبان کے سپرد کیے گئے تھے ، افغان نیشنل آرمی کے پاس جو اسلحہ تھا، وہ بھی امریکا نے واپس نہیں لیا تھا، اس کی مالیت اربوں ڈالرز بنتی ہے، پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی کئی وارداتوں میں یہ اسلحہ استعمال ہوا ہے ، افغانستان کی طالبان حکومت کے بڑوں کو اس حقیقت کا بخوبی علم ہے، پاکستان کی حکومت بھی انھیں حقائق سے آگاہ کرچکی ہے ، امریکا کے صدر ٹرمپ نے افغانستان سے کہہ رکھا ہے کہ وہ امریکی اسلحہ واپس کردے لیکن افغان طالبان اس حوالے سے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اگر افغان طالبان کی جانب سے من مانیوں اور دہشت گردوں کی حمایت کا سلسلہ اسی طرح بلا روک ٹوک جاری رہا توپھر ہمسایہ ممالک اقوام عالم کیسے خاموش بیٹھی رہی گی۔

سوچنے والی بات یہ بھی ہے کہ بی ایل اے اور افغانستان کے دہشت گرد دو الگ الگ گروپ ہیں مگر انھیں اکٹھا کون کررہا ہے؟، ٹریننگ دے کر، پیسے دے کر پاکستان کے خلاف اکٹھا کون کررہا ہے؟ اس حوالے سے بہت سے حقائق منظر عام پر بھی آچکے ہیں۔ افغانستان کی سرزمین پر ٹی ٹی پی ، داعش، بی ایل اے وغیرہ جیسی دہشت گرد تنظیمیں کھلے عام اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ۔

پاکستان جغرافیائی طور پر ایسی جگہ واقع ہے جہاںمشرق میں بھارت ہے جو ہر وقت پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے کوششیں جاری رکھتا ہے جب کہ شمال مغرب میں افغانستان ہے جس کے ساتھ سیکڑوں کلومیٹر طویل سرحدی پٹی ہے جہاں پر باڑ لگانے کے باوجود افغان حکومت کی زیر سرپرستی در اندازیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔سب کو یاد ہے کہ گزشتہ برس 20 دسمبر کو بلوچستان میں سرگرم ایک کالعدم تنظیم کے کمانڈر سرفراز احمد بنگلزئی نے اپنے 72 ساتھیوں سمیت ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل ہونے کا باقاعدہ اعلان کیا تھا۔

اس وقت اس کمانڈر نے انکشاف کیا تھا کہ کس طرح بلوچستان کا امن تباہ کرنے کے لیے بھارت فنڈنگ کرتا ہے ، اس کے علاوہ مزاحمتی تحریک اور کالعدم تنظیمیں منشیات فروشی، بھتہ خوری کے علاوہ لوگوں کو اغوا بھی کرتی ہیں ۔ دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ پاکستان اس وقت مختلف چیلنجز سے گزر رہا ہے۔ گلوبل ٹیرر ازم انڈیکس 2025 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دہشت گردی سے متاثرہ ممالک میں دوسرے نمبر پر آگیا ہے۔ 2024میں کالعدم ٹی ٹی پی نے پاکستان میں 600 سے زائد حملے کیے، جس میں سیکڑوں بے گناہ شہریوں کا خون بہا اور پاکستان کو معاشی نقصانات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ افغانستان کے صوبے کنڑ، ننگرہار، خوست اور پکتیکا میں تربیتی مراکز قائم کیے گئے ہیں۔

پاکستان کی جانب سے افغانستان حکومت پر مسلسل اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکیں لیکن اس کے باوجود افغانستان کی عبوری حکومت نے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔ استنبول مذاکرات کی ناکامی بھی اسی وجہ سے ہے کیونکہ افغانستان کوئی تحریری ضمانت دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔

 اس وقت سب سے بڑی ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے ملک میں ان دہشت گردوں کو جو لوگ سپورٹ کرتے ہیں، انھیں پناہ گاہیں فراہم کرتے ہیں، ان کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں، ان سب کو نہایت سرعت کے ساتھ بے نقاب کر کے عوام کے سامنے لایا جائے، جو نام نہاد ہمدرد حلقے افغان مہاجرین اور دیگر غیرملکیوں کی واپسی کے حوالے سے نرم رویہ اپنانے کی بات کرتے ہیں، تو کیا ایران سے افغان مہاجرین کو بیدخل نہیںکیا گیا ہے، کیا ایران نے نرمی برتی ہے؟ ایسا معاملہ جس سے پاکستان کی سالمیت، اس کی معیشت اور معاشرت کو نقصان ہورہا ہو، اس حوالے سے کوئی دوسری رائے نہیں ہونی چاہیے۔

کسی ملک کے شہریوں کو ان کے اپنے ملک میں واپس بھیجنا کوئی ظلم یا زیادتی نہیں ہوتی۔افغان مہاجرین کو کسی دشمن ملک کے حوالے نہیں کیا جا رہا بلکہ ان کے اپنے ملک میں واپس بھیجا جا رہا ہے، افغان مہاجرین کو تو خوشی خوشی اپنے ملک واپس جانا چاہیے۔ سب کو یاد ہے کہ امریکا میں صدر ٹرمپ نے اقتدار سنبھالا تو انھوں نے بھی غیر ملکیوں کو واپس بھیجنے کا حکم دیا تھا۔امریکی اداروں نے ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں جکڑ کر غیر قانونی غیرملکیوں کو جہازوں پر لادا اور ان کے آبائی ملکوں میں روانہ کیا اور ان کے آبائی ملک سے ٹرانسپورٹیشن کا خرچہ بھی وصول کیا ہے۔

ہر ملک کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے جو بہتر سمجھے وہ اقدام کرے۔افغانستان کے شہریوں کو سہولتیں فراہم کرنا، طالبان حکومت کی پہلی اور آخری ذمے داری ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ انھیں جو حاکمیت کا حق حاصل ہے، وہ فرائض اور ذمے داریوں سے ماوراء ہے۔ ویسے بھی افغانستان میں اس وقت بقول افغان طالبان حکومت کے، امن و استحکام ہے، معیشت بہتر ہے، افغانستان کی کرنسی کی قدر پاکستانی روپے سے زیادہ ہے۔اب تو افغانستان نے پاکستان کے ساتھ ہر قسم کی تجارت بھی بند کر دی ہے ‘ایسا کرتے ہوئے یہ اعلان کیا گیا کہ ہم پاکستان کے ساتھ تجارت کے بغیر بھی گزارا کر سکتے ہیں۔لہٰذا اب تو پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کے قیام کی تو گنجائش ہی باقی نہیں رہی۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت میں گرل فرینڈ نے جنسی ہراسانی پر سابق دوست کی زبان چبا ڈالی
  • بھارتی اداکارہ میرا وسودیون کا اپنی تیسری طلاق کا اعلان
  • واویلا کیوں؟
  • بیٹے نے دوسری شادی کرنے پر ماں کو کلہاڑی کے وار سے موت کے گھاٹ اُتار دیا
  • قصور، ناخلف بیٹے نے دوسری شادی کرنے پر ماں کو کلہاڑی کے وار سے موت کے گھاٹ اُتار دیا
  • حزب اللہ کے بانی رہنماء شہید سید عباس موسوی کی بیٹی کا انٹرویو 
  • لالو کی بیٹی روہنی نے خاندان سے لاتعلقی کی اصل وجہ بتا دی
  • ویسا باپ نہیں بنوں گا جیسے میرے والد تھے: عثمان مختار نے بچپن کی تلخ یادیں شیئر کردیں
  • میں ویسا باپ نہیں بنوں گا جیسے میرے والد تھے: عثمان مختار
  • انتخابات میں شکست: لالو پرساد یادو کی بیٹی نے سیاست اور خاندان سے لاتعلقی کا اعلان کردیا