آزاد جموں و کشمیر کی حالیہ کشیدگی
اشاعت کی تاریخ: 5th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251005-03-5
ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی
آزاد جموں و کشمیر میں حالیہ دنوں پیدا ہونے والی کشیدگی اور احتجاجی تحریک نہ صرف مقامی حالات کی ترجمانی کر رہی ہے بلکہ یہ پورے پاکستان اور خطے کی سیاست، معیشت اور سفارتی صورتحال کے لیے بھی سنگین سوالات پیدا کر چکی ہے۔ پانچ روز سے جاری احتجاج، انٹرنیٹ اور موبائل سروس کی معطلی، بازاروں اور ٹرانسپورٹ کی بندش، اسکولوں میں طلبہ کی غیر حاضری اور طبی سہولتوں تک رسائی میں مشکلات، یہ سب محض وقتی رکاوٹیں نہیں بلکہ ایک بڑے بحران کی علامت ہیں، جو اپنی جڑوں میں معاشی، سیاسی اور انتظامی محرومیوں سے جڑا ہے۔ آزاد کشمیر میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے تحت ہونے والے احتجاج محض جزوی مطالبات پر مبنی نہیں، بلکہ عوامی محرومیوں، عدم مساوات اور مہنگائی کے خلاف ایک طویل عرصے سے جمع شدہ غصے کی جھلک ہیں۔ عوام بجلی کے بلوں، اشیائے خورو نوش کی قیمتوں، گورننس کی ناکامی اور عدم شفافیت پر سراپا احتجاج ہیں۔ ابتدائی طور پر پْرامن دھرنوں اور جلسوں کی شکل میں شروع ہونے والی یہ تحریک اس وقت پرتشدد رُخ اختیار کر گئی جب انتظامیہ اور عوام کے درمیان فاصلے بڑھ گئے اور طاقت کے استعمال نے صورت حال کو مزید بگاڑ دیا۔
پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں نہ صرف زخمیوں کی تعداد بڑھتی رہی بلکہ کچھ علاقوں میں ہلاکتوں کی بھی اطلاعات سامنے آئیں۔ اس صورتحال نے مقامی آبادی میں شدید بے چینی پیدا کر دی۔ عوام کا یہ کہنا ہے کہ ان کی آواز برسوں سے نظر انداز کی گئی، اور جب وہ احتجاج پر مجبور ہوئے تو ان پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کیا گیا۔ انٹرنیٹ اور موبائل سروسز کی بندش نے اس بحران کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔ اس طرح کے اقدامات وقتی طور پر حالات کو قابو میں رکھنے کے لیے کیے جاتے ہیں مگر درحقیقت یہ عوامی بداعتمادی اور خوف میں اضافہ کر دیتے ہیں۔ موجودہ دور میں معلومات کی بندش محض ایک تکنیکی مسئلہ نہیں بلکہ انسانی حقوق اور آزادیٔ اظہار کا معاملہ بھی ہے۔ وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے صورت حال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ایک اعلیٰ سطحی مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی، جس میں رانا ثناء اللہ، احسن اقبال، طارق فضل چودھری، راجا پرویز اشرف اور قمر زمان کائرہ جیسے سینئر رہنما شامل ہیں۔ یہ کمیٹی مظفرآباد پہنچی اور عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں سے مذاکرات کا آغاز کیا۔ ابتدائی مذاکرات کے بعد حکومتی نمائندوں نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ماحول مثبت رہا ہے اور امید ہے کہ باہمی افہام و تفہیم سے مسائل حل ہو جائیں گے۔ تاہم عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں نے مزید مشاورت کے لیے وقت مانگا۔ یہ بات واضح ہے کہ حکومت مذاکرات کے ذریعے مسئلے کو حل کرنے کی خواہش رکھتی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عوام اس عمل پر اعتماد کریں گے یا نہیں۔ کیونکہ ماضی میں اکثر وعدے اور اعلانات محض کاغذی رہے ہیں۔
آزاد کشمیر کی موجودہ کشیدگی کو صرف مقامی تناظر میں نہیں دیکھا جا سکتا۔ یہ خطہ ایک حساس جغرافیائی اور سیاسی حیثیت رکھتا ہے، جہاں کی بدامنی فوری طور پر پاکستان اور بھارت کے تعلقات پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ بھارت کی کوشش ہوگی کہ اس صورتحال کو عالمی سطح پر اجاگر کرے اور یہ تاثر دے کہ پاکستان اپنے زیر انتظام علاقوں کو مستحکم رکھنے میں ناکام ہے۔ مزید برآں، عالمی سطح پر بھی ایسے حالات کو انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ اگر عوام کے مطالبات کو نظر انداز کیا گیا اور طاقت کے استعمال کو ترجیح دی گئی تو یہ بات عالمی برادری کے سامنے پاکستان کے وقار کو متاثر کر سکتی ہے۔ اسی لیے ضروری ہے کہ حکومت فوری طور پر شفاف تحقیقات اور عملی اقدامات کرے تاکہ دنیا کو یہ پیغام دیا جا سکے کہ پاکستان اپنے عوام کے حقوق کا احترام کرتا ہے۔
پاکستان کی داخلی سیاست پہلے ہی غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔ معاشی بحران، مہنگائی، بیروزگاری اور سیاسی عدم استحکام نے عوامی اعتماد کو متزلزل کر رکھا ہے۔ ایسے میں آزاد کشمیر میں پیدا ہونے والی کشیدگی اس بحران کو مزید بڑھا سکتی ہے۔ وفاقی حکومت کے لیے یہ ایک بڑا امتحان ہے کہ وہ کس طرح اس صورتحال کو سنبھالتی ہے، کیونکہ اگر یہ تحریک مزید طول پکڑ گئی تو اس کے اثرات پورے ملک میں محسوس کیے جائیں گے۔ اس صورتحال کا ایک اور اہم پہلو معاشی پہیہ ہے۔ ٹرانسپورٹ، بازار اور کاروبار کی بندش نے نہ صرف مقامی معیشت کو مفلوج کر دیا ہے بلکہ یہ اثرات پاکستان کی مجموعی اقتصادی صورتحال پر بھی پڑ سکتے ہیں۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جب ملک پہلے ہی معاشی اصلاحات اور آئی ایم ایف کے دباؤ سے گزر رہا ہے، کسی بھی نئی بدامنی کی گنجائش موجود نہیں۔ آزاد کشمیر ہمیشہ سے ایک ایسا خطہ رہا ہے جہاں کی سیاسی حرکیات پاکستان کی قومی سیاست سے جڑی رہی ہیں۔ تاریخی طور پر یہاں کے عوام نے ہمیشہ وفاق پاکستان کے ساتھ تعلق کو مضبوط رکھنے کی کوشش کی، مگر ساتھ ہی اپنے حقوق اور خودمختاری کے مطالبات کو بھی دہراتے رہے۔ اس تناظر میں موجودہ احتجاجی تحریک دراصل اس تاریخی تسلسل کا ایک حصہ ہے، جو بار بار ہمیں یہ یاد دلاتی ہے کہ مقامی عوام کے جائز مطالبات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اگر حکومت نے عوام کے مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات نہ کیے تو یہ تحریک مزید شدت اختیار کر سکتی ہے، جو نہ صرف مقامی سطح پر انتشار کا باعث بنے گی بلکہ قومی سلامتی کے لیے بھی خطرہ ثابت ہو سکتی ہے۔ دوسری طرف، اگر مذاکرات کامیاب ہو جاتے ہیں اور عوام کو ریلیف فراہم کیا جاتا ہے تو یہ ایک مثبت مثال بن سکتی ہے کہ مسائل کو مکالمے اور شفافیت کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔
اس بحران سے نکلنے کے لیے چند بنیادی اقدامات ناگزیر ہیں: 1۔ فوری طور پر مواصلاتی نظام بحال کیا جائے تاکہ عوام میں اعتماد قائم ہو۔ 2۔ زخمیوں اور متاثرین کے لیے ہنگامی طبی امداد فراہم کی جائے۔ 3۔ شفاف اور غیر جانبدار تحقیقات کے ذریعے ذمے داروں کو کٹہرے میں لایا جائے۔ 4۔ عوامی نمائندوں کو فیصلہ سازی میں شامل کیا جائے اور مقامی سطح پر گورننس بہتر بنائی جائے۔ 5۔ معاشی ریلیف پیکیج کا اعلان کیا جائے تاکہ عوام کو فوری سہولت مل سکے۔ یہ وہ اقدامات ہیں جو اگر بروقت کیے گئے تو نہ صرف آزاد کشمیر بلکہ پورے پاکستان کے لیے ایک مثبت پیغام ہوں گے۔ بصورت دیگر، یہ بحران ایک بڑے طوفان کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ یہ لمحہ پاکستان کے لیے ایک امتحان ہے۔ اگر حکومت دانشمندی، شفافیت اور ہمدردی کے ساتھ آگے بڑھی تو یہ بحران ایک موقع میں بدل سکتا ہے، جہاں عوام کا اعتماد بحال ہو اور ریاست کی ساکھ مضبوط ہو۔ لیکن اگر طاقت اور وعدوں پر انحصار کیا گیا تو نتائج نہ صرف آزاد کشمیر بلکہ پورے خطے کے لیے نقصان دہ ہوں گے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اس صورتحال پاکستان کے کی بندش عوام کے سکتی ہے کیا جا کے لیے
پڑھیں:
پاکستان اور سعودی عرب: تاریخ کے سائے، مستقبل کی روشنی
پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات محض دو ممالک کے درمیان ایک سفارتی رشتہ نہیں بلکہ خطے کی سیاست، سلامتی اور امتِ مسلمہ کی اجتماعی قوت کا مظہر ہیں۔ 7 دہائیوں سے زائد پر محیط یہ رشتہ وقت کے ہر امتحان میں مزید مضبوط ہوا ہے۔
حال ہی میں سعودی صحافی عبد اللہ المدیفر نے اپنے معروف پروگرام (فی الصوره) میں سعودی عرب کے سینیئر رہنما شاہ فیصل کے بیٹے شہزادہ ترکی الفیصل کا انٹرویو کیا، جو اس تعلق کی گہرائی اور مستقبل کے امکانات کو سمجھنے کے لیے نہایت اہمیت رکھتا ہے۔
عبد اللہ المدیفر سعودی عرب کے نمایاں صحافی ہیں، جو اپنے بے لاگ سوالات اور گہرے تجزیاتی انداز کے باعث سعودی میڈیا میں ایک معتبر حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کا پروگرام (فی الصوره) محض ایک انٹرویو شو نہیں بلکہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جسے سعودی عرب میں ریاستی مکالمے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اسی پروگرام میں شہزادہ ترکی الفیصل جیسے رہنما کی گفتگو براہِ راست خطے کی سیاست پر اثر انداز ہوتی ہے۔
شہزادہ ترکی الفیصل سعودی عرب کی قومی سلامتی کے ایک اہم ستون رہے ہیں۔ وہ برسوں تک مملکت کی انٹیلیجنس ایجنسی کے سربراہ رہے اور عالمی سطح پر ان کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جن کی بات کو سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ ان کا پس منظر انہیں صرف ایک سابق عہدے دار نہیں بلکہ ایک دانشور اور عالمی تجزیہ کار بھی بناتا ہے، جن کی بصیرت خطے کے مستقبل پر روشنی ڈالتی ہے۔
انٹرویو میں جب پاکستان کا ذکر آیا تو شہزادہ ترکی الفیصل نے دونوں ملکوں کے تعلقات کو محض رسمی نہیں بلکہ قدرتی قرار دیا۔ انہوں نے یاد دلایا کہ مرحوم شہزادہ سلطان بن عبدالعزیز نے پاکستان کے جوہری پروگرام کی اہم تنصیبات کا دورہ کیا تھا، اور اس موقع پر ڈاکٹر عبد القدیر خان بھی موجود تھے۔ سعودی عرب نے اس دور میں پاکستان کی مالی اور عسکری مدد کی، مگر کبھی اس پر کوئی شرط عائد نہ کی۔ ہو سکتا ہے پاکستان نے اس تعاون کو اپنی تحقیق اور دفاعی صلاحیت کو جلا بخشنے میں استعمال کیا ہو۔ یہ پہلو دونوں ملکوں کے درمیان بے لوث اعتماد کی عکاسی کرتا ہے۔
شہزادہ ترکی الفیصل نے ماضی کی ان یادوں کے ساتھ ساتھ عسکری تعاون کی تفصیلات بھی بتائیں کہ کس طرح پاکستانی فوجی دستے سعودی عرب کے مختلف علاقوں، بالخصوص تبوک اور خمیس مشیط میں تعینات ہوئے، جب کہ سعودی عرب نے پاکستان کو مادی وسائل فراہم کیے۔ یہ تعاون صرف فوجی سطح پر نہ تھا بلکہ بھائی چارے اور یکجہتی کی بنیاد پر پروان چڑھا۔
پاکستان کے کردار کو شہزادہ ترکی الفیصل نے ایک قدرتی حلیف کے طور پر اجاگر کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان آزادی کے فوراً بعد سے سعودی عرب کے قریب رہا ہے، اور خطے کے توازنِ قوت میں اس کا کردار فیصلہ کن ہے۔ پاکستان دنیا کی سب سے بڑی مسلم فوجی طاقت ہے اور واحد اسلامی جوہری ملک بھی، اس لیے اس کا اتحادی بننا محض ایک انتخاب نہیں بلکہ ایک فطری امر ہے۔
انٹرویو میں اسلامی اتحاد کا حوالہ بھی آیا، جو سعودی عرب نے دہشتگردی کے خلاف تشکیل دیا تھا۔ شہزادہ ترکی الفیصل نے اس امکان کا اظہار کیا کہ مستقبل میں یہ اتحاد صرف دہشتگردی تک محدود نہیں رہے گا بلکہ دیگر خطروں کے مقابلے میں بھی ایک اجتماعی قوت بنے گا۔ یہ سوچ ایک وسیع تر اسلامی نیٹو کی جھلک دیتی ہے۔
انٹرویو کا اہم ترین حصہ پاک سعودی دفاعی معاہدہ تھا، جس میں نیٹو معاہدے کی پانچویں شق جیسے اصول کو شامل کیا گیا ہے۔ یعنی اگر کسی ایک ملک پر حملہ ہوتا ہے تو اسے دونوں پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے تعلقات کو محض دوستانہ سطح سے بڑھا کر باقاعدہ دفاعی ڈھانچے میں ڈھالتا ہے۔
شہزادہ ترکی الفیصل نے اسرائیل کے جارحانہ رویے کو بھی خطے کے لیے بڑا چیلنج قرار دیا اور کہا کہ اسرائیل اپنے آپ کو خطے کی سب سے بڑی طاقت ثابت کرنا چاہتا ہے۔ اس کے مقابلے کے لیے اجتماعی قوت اختیار کرنا ناگزیر ہے، اور پاکستان و سعودی عرب کا حالیہ معاہدہ اسی اجتماعی حکمتِ عملی کی ایک بڑی کڑی ہے۔
یوں عبد اللہ المدیفر کے پروگرام میں ہونے والی یہ گفتگو نہ صرف ماضی کے سنہرے ابواب یاد دلاتی ہے بلکہ مستقبل کی سمت بھی واضح کرتی ہے۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کا رشتہ اب سفارت کاری کی رسمی حدوں سے نکل کر خطے کی سلامتی، امت کی اجتماعی طاقت اور توازنِ قوت کا ضامن بن چکا ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں