پسنی پورٹ سے متعلق وائٹ ہاؤس یا کسی امریکی ادارے سے گفتگو نہیں ہوئی، سیکیورٹی ذرائع
اشاعت کی تاریخ: 5th, October 2025 GMT
اسلام آباد:
سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے پسنی پورٹ کی کوئی پیشکش نہیں کی گئی، نہ ہی اس نوعیت کی کوئی تجویز کسی سرکاری یا حکمتِ عملی سطح پر زیرِ غور آئی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وائٹ ہاؤس یا کسی امریکی ادارے کے ساتھ پسنی پورٹ سے متعلق کسی بھی قسم کی گفتگو نہیں ہوئی۔
نجی شعبے میں ہونے والی بات چیت، بشمول غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ رابطے، محض ابتدائی نوعیت کی کاروباری گفت و شنید ہیں۔ یہ سرکاری اقدامات نہیں اور نہ ہی یہ پاکستان کی ریاستی پالیسی کی نمائندگی کرتے ہیں۔
متعلقہ خبر میں ایک نجی اور غیر مصدقہ خیال کو ریاستی تجویز کے طور پر پیش کیا گیا، جو کہ درست نہیں۔ میڈیا پر لازم ہے کہ اس عنوان کی درستگی کے لیے آئی ایس پی آر سے تصدیق کرے۔
ذرائع کے مطابق خبر میں نجی سطح کے رابطوں اور سرکاری پالیسی کے درمیان فرق مٹایا گیا ہے، جس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ ادارہ جاتی سطح پر اس خیال کی تائید موجود ہے، جو گمراہ کن ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ منصوبہ ’’سرکاری پالیسی نہیں‘‘، مگر ساتھ ہی اسے آرمی چیف کے ایجنڈے کے قریب ظاہر کیا گیا۔ یہ تضاد ہے۔
رپورٹ نے ایک ہی وقت میں ’’غیر سرکاری اور نجی‘‘ اور ’’سرکاری ذرائع‘‘ کا حوالہ دے کر دو مختلف نوعیت کی باتوں کو ملایا ہے، جس سے غلط فہمی پیدا ہوئی۔
رپورٹ میں خود تسلیم کیا گیا کہ پسنی کا تصور ’’نجی‘‘ اور ’’غیر سرکاری‘‘ ہے، اس کے باوجود ایک سینئر امریکی عہدیدار سے تصدیق مانگی گئی اور پھر اس جواب کو خبر میں شامل کر کے ایسے ظاہر کیا گیا جیسے کوئی سرکاری تجویز زیرِ بحث ہو۔ یہ طرزِ رپورٹنگ خود متضاد ہے اور نجی گفتگو کو ریاستی پالیسی سے غلط طور پر جوڑتی ہے۔
ایک نجی اور غیر حتمی تجارتی خیال کو خارجی خدشات سے جوڑنا حد سے زیادہ مبالغہ آرائی ہے۔ پاکستان، دیگر خودمختار ممالک کی طرح، اپنے تعلقات میں توازن رکھتا ہے۔ بھارت چین سے بڑے پیمانے پر تجارت کرتا ہے، روس سے تعلقات رکھتا ہے، امریکا سے تعاون کرتا ہے اور ایران و اسرائیل کے ساتھ روابط برقرار رکھتا ہے، اسے اسٹریٹجک خودمختاری کہا جاتا ہے۔
پاکستان کے لیے بھی یہی اصول لاگو ہونا چاہیے۔ پاکستان کے موجودہ منصوبے، بشمول سی پیک اپنی جگہ برقرار ہیں۔ کسی بھی نئے منصوبے کی تجویز اگر کبھی سامنے آئی تو وہ شفاف اور ادارہ جاتی عمل سے گزرے گی۔
معاشی یا تزویراتی نوعیت کے منصوبے وزارتوں، ریگولیٹری اداروں اور کابینہ سطح کے عمل کے ذریعے شروع ہوتے ہیں، نجی گفتگو سے نہیں۔ اگر کوئی نجی تجویز قومی مفاد یا تجارتی لحاظ سے قابلِ غور ہو، تو اسے باقاعدہ اندراج، سیکیورٹی و اقتصادی جانچ اور قانونی عمل کے ذریعے آگے بڑھایا جاتا ہے۔
پسنی پورٹ کے حوالے سے پاکستان نے کوئی پیشکش نہیں کی۔ یہ محض نجی کاروباری سطح پر زیرِ بحث ایک تصور ہے، جو ابھی تک کسی سرکاری یا پالیسی سطح پر غور کے مرحلے میں نہیں آیا۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
بھارت کی طبیعت دوبارہ ٹھیک کرنی پڑے گی،پاک فوج
آپریشن سندور جیسا کام کرنے کی کوشش کی تو سارے شکوے دور کر دیں گے، ہم جانتے ہیں بھارت کو کس طرح ہینڈل کرنا ہے
ہمیں کوئی تشویش نہیں،بھارت کی دھمکیاں گیدڑ بھبکیوں کے سوا کچھ نہیں، مسلح افواج ملک کے دفاع کے لیے پوری طرح تیار ہیں
سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ معرکہ حق کے بعد بھارت نے اپنے دفاعی اخراجات بڑھا دیے ہیں، بھارت کی طبیعت دوبارہ ٹھیک کرنی پڑی تو کر دیں گے، اب آپریشن سندور جیسا کام کرنے کی کوشش کی تو سارے شکوے دور کر دیں گے، ہم جانتے ہیں کہ بھارت کو کس طرح ہینڈل کرنا ہے، پہلے سے زیادہ بہتر علاج کیا جائے گا۔سیکیورٹی ذرائع نے کہا ہے کہ بھارت کی دھمکیاں گیدڑ بھبکیوں کے سوا کچھ نہیں، مسلح افواج اپنے ملک کے دفاع کے لیے پوری طرح تیار ہیں، پاکستان خطے میں امن کے لیے اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ راج ناتھ سنگھ کریڈیبل نہیں، اس کی کسی بات پر یقین نہیں کیا جانا چاہیے، بھارت کونسا اسلحہ خرید رہا ہے اس کے بارے میں پاکستان کو اطلاع ہے، ہمیں کوئی فکر، کوئی تشویش نہیں، ہم ہر وقت جواب دینے کے لیے تیار رہتے ہیں۔سیکیورٹی ذرائع نے کہا ہے کہ فوج کا کسی سیاسی جماعت سے رابطہ تھا، نہ ہے، فوج کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ رابطہ نہیں کرنا چاہتی، مذاکرات سیاسی جماعتوں کے درمیان ہوتے ہیں اور وہیں ہونے چاہئیں۔سیکیورٹی ذرائع کے مطابق 9 مئی کے کیسز کا فیصلہ عدالتوں کو کرنا ہے، کسی بھی دہشت گرد کے ساتھ اسٹیٹ مذاکرات نہیں کرے گی، دہشت گروں کا قلع قمع کیا جا رہا ہے۔سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ افغانستان کی سر زمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے، افغان حکومت کو متعدد بار دہشت گردوں کی نشان دہی کر چکے ہیں، فلسطین اور کشمیر پر پاکستان کا موقف بڑا واضح اور اٹل ہے، اسرائیل سے متعلق پاکستان کا موقف تبدیل نہیں ہو سکتا، غزہ میں ظلم و بربریت اور نسل کشی فوری طور پر روکی جائے۔سیکیورٹی ذرائع نے کہا ہے کہ جنرل فیض حمید کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی جاری ہے، کورٹ مارشل کے دوران تمام قانونی تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھا جا رہا ہے، لمبا پراسیس ہوتا ہے، کیس میں ڈیفنڈنٹ کو تمام لیگل رائٹس دیے جاتے ہیں۔