Jasarat News:
2025-10-05@23:49:11 GMT

امیر جماعت اسلامی کراچی کا انٹرویو

اشاعت کی تاریخ: 6th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251006-03-2

 

کراچی، پاکستان کا سب سے بڑا شہر، کبھی روشنیوں کا استعارہ تھا لیکن آج یہ مسائل کے انبار میں دبا ہوا ہے۔ کچرے کے ڈھیر، پانی کی کمی، ٹرانسپورٹ کا بحران، بدامنی اور کچی آبادیوں کا پھیلاؤ اس شہر کو ایک بحران زدہ بستی بنا چکے ہیں۔ حال ہی میں امیر جماعت اسلامی کراچی، منعم ظفر خان کا ایک تفصیلی انٹرویو ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ میں شائع ہوا ہے، جس میں انہوں نے کراچی کے بنیادی مسائل، سیاسی صورتِ حال اور جماعت اسلامی کے لائحہ عمل پر روشنی ڈالی۔ یہ انٹرویو نہ صرف کراچی کے عوامی مسائل کو اُجاگر کرتا ہے بلکہ ان قوتوں کے کردار کو بھی واضح کرتا ہے جو برسوں سے اس شہر کو اپنے ذاتی و جماعتی مفادات کی بھینٹ چڑھاتے رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے 17 برس تک صوبائی حکومت پر قبضہ رکھا مگر کراچی کو اس کا جائز حق نہ دیا۔ این ایف سی ایوارڈ کے بعد شہر کو 3360 ارب روپے سے محروم رکھا گیا، جبکہ ترقیاتی منصوبے صرف کاغذوں میں محدود رہے۔ دوسری طرف ایم کیو ایم نے تین دہائیوں تک بلدیاتی اداروں کو سیاسی مفادات کے لیے استعمال کیا۔ شہری ادارے جنہیں عوامی خدمت کا مرکز ہونا چاہیے تھا، سیاسی بھرتیوں اور بدانتظامی کا شکار ہو کر بیکار ہوگئے۔ تحریک انصاف کو بھی عوام نے اعتماد کا ووٹ دیا مگر وہ بھی اسلام آباد کی سیاست میں الجھ کر کراچی کو نظرانداز کر گئی۔ یوں یہ تینوں جماعتیں شہری مسائل کے حل کے بجائے ذاتی اقتدار اور مفادات کی جنگ لڑتی رہیں اور کراچی مسائل کا قبرستان بن گیا۔ اس پس منظر میں جماعت اسلامی نے حق دو تحریک کے ذریعے عوام کو ایک نئی امید دی۔ امیر جماعت اسلامی کراچی، منعم ظفر خان، کے مطابق پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کا گٹھ جوڑ ہی شہر کی تباہی کا اصل سبب ہے۔ ان کے بقول کراچی کی بدحالی کے باوجود اس کی اسٹرٹیجک اہمیت برقرار ہے۔ یہ شہر پاکستان ہی نہیں بلکہ عالم ِ اسلام کا معاشی مرکز بننے کی صلاحیت رکھتا ہے، مگر بدانتظامی اور کرپشن نے اس کی طاقت کو کمزور کردیا ہے۔ شہر کے مسائل کی جڑ بکھرا ہوا نظام بھی ہے۔ واٹر بورڈ، کے ڈی اے، ایل ڈی اے، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ، ماس ٹرانزٹ اتھارٹی جیسے ادارے ایک دوسرے سے منسلک ہونے کے بجائے الگ الگ دائرہ اختیار میں کام کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ کوئی ادارہ جواب دہ نہیں۔ جماعت اسلامی کے نزدیک اس کا حل سادہ ہے: 2001ء کا شہری حکومت کا نظام بحال کیا جائے اور کراچی کو صوبائی و وفاقی بجٹ میں اس کا جائز حصہ دیا جائے۔ کراچی کا سب سے بڑا بحران پانی کی کمی ہے۔ روزانہ کی ضرورت 1200 ملین گیلن ہے، مگر صرف 550 ملین گیلن مل رہا ہے، جس میں سے بڑا حصہ چوری یا ٹینکر مافیا کے قبضے میں چلا جاتا ہے۔ کے فور منصوبہ اس بحران کا بنیادی حل ہے مگر وفاق اور صوبہ دونوں کی بے حسی نے اسے تاخیر کا شکار کردیا۔ جماعت اسلامی اس منصوبے کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کرنے کا عزم رکھتی ہے، ساتھ ہی غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے خاتمے اور ڈی سالینیشن پلانٹس کے قیام کی تجویز دیتی ہے۔ ٹرانسپورٹ کا حال بھی مختلف نہیں۔ گرین لائن جیسے منصوبے وقتی ریلیف تو فراہم کرتے ہیں مگر ساڑھے تین کروڑ آبادی والے میٹروپولیٹن کے لیے ناکافی ہیں۔ منعم ظفر خان کے مطابق کراچی کو کم از کم 15 ہزار بسوں اور سرکلر ریلوے کی بحالی کی ضرورت ہے تاکہ شہریوں کو محفوظ، آرام دہ اور سستی سفری سہولت فراہم کی جاسکے۔ تعلیم کے شعبے میں جماعت اسلامی کی حکمت عملی یہ ہے کہ شہر کے تمام سرکاری اسکولوں کو ماڈل اسکولوں کا درجہ دیا جائے۔ ان میں معیاری نصاب، جدید سہولتیں اور بہترین اساتذہ فراہم کیے جائیں۔ جماعت اسلامی کے ٹاؤن چیئرمینوں کی موجودہ کارکردگی اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر نیک نیتی اور دیانت داری سے کام کیا جائے تو محدود وسائل میں بھی بڑے کارنامے انجام دیے جا سکتے ہیں۔ صرف دو سال میں 171 پارکس بحال کیے گئے، 86 ہزار گھروں میں پانی پہنچایا گیا، اور 42 اسکولوں کو بہتر بنا کر داخلوں میں نمایاں اضافہ کیا گیا۔ شہر کے سماجی زوال اور نوجوانوں میں جرائم و منشیات کے بڑھتے رجحان کے بارے میں جماعت اسلامی کا موقف یہ ہے کہ اس کا بنیادی سبب حکومت کی ناکامی اور مافیاز کا تسلط ہے۔ جماعت اسلامی نے اس کے خلاف عوامی سطح پر کمیٹیاں تشکیل دی ہیں جو گلی محلوں میں اخلاقی و سماجی برائیوں کے خلاف جدوجہد کر رہی ہیں۔ لیکن اس بات کو بھی تسلیم کیا گیا کہ حتمی طور پر برائیوں کا خاتمہ ریاستی قوتِ نافذہ کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اسٹریٹ کرائمز کے حوالے سے جماعت اسلامی نے مؤثر سیف سٹی پروجیکٹ اور پولیس کی پیشہ ورانہ تربیت پر زور دیا۔ نوجوانوں کے روزگار کے لیے جماعت اسلامی نے تین سال میں پچاس ہزار سے زائد افراد کو آئی ٹی کی تعلیم دے کر عملی ہنر سکھایا ہے۔ یہ کامیاب تجربہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر نیت صاف ہو تو بے روزگاری کے خاتمے کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ کراچی موسمیاتی تبدیلیوں سے بھی شدید متاثر ہے۔ ہیٹ ویوز، بارشیں اور طوفان شہر کے انفرا اسٹرکچر کو مفلوج کر دیتے ہیں۔ اس خطرے سے نمٹنے کے لیے جماعت اسلامی نے شجرکاری، رین واٹر ہارویسٹنگ اور وضو واٹر ہارویسٹنگ جیسے منصوبے شروع کیے ہیں تاکہ پانی محفوظ ہو اور ماحول کو بہتر بنایا جا سکے۔ کچی آبادیوں کا پھیلاؤ بھی شہر کی منصوبہ بندی پر سوالیہ نشان ہے۔ جماعت اسلامی کا مؤقف ہے کہ انہیں ختم کرنے کے بجائے ریگولرائز کیا جائے، بنیادی سہولتیں فراہم کی جائیں اور مرحلہ وار رہائشی اسکیموں میں ضم کیا جائے۔ نعمت اللہ خان کے دور میں اس حوالے سے کامیاب مثالیں موجود ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ کراچی کو دوبارہ روشنیوں کا شہر بنانا کسی ایک جماعت یا ادارے کا کام نہیں، بلکہ اجتماعی جدوجہد سے ممکن ہے۔ عوام کو اپنی ذمے داری کا ادراک کرنا ہوگا۔ جماعت اسلامی نے عوامی کمیٹیاں اور حق دو تحریک کے ذریعے عوام کو متحرک کیا ہے۔ یہ شعور بیداری ہی شہر کے مسائل کے حل کی اصل کنجی ہے۔ منعم ظفر کے مطابق اگر جماعت اسلامی کو آئندہ پانچ سال کے لیے مکمل اختیار ملتا ہے تو اس کی ترجیحات واضح ہیں،جن میں پانی کے بحران کا خاتمہ (K-4 منصوبے کی تکمیل)، ٹرانسپورٹ کے مسائل کا حل (10 ہزار بسیں اور سرکلر ریلوے)، اور تعلیم میں انقلاب (سرکاری اسکولوں کو ماڈل اسکولوں میں تبدیل کرنا)۔ یہ تین منصوبے کراچی کے مستقبل کو نئی جہت دے سکتے ہیں۔ ان کا کراچی کے عوام کے لیے پیغام یہی ہے کہ مایوسی کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ شہر دوبارہ ترقی، خوشحالی اور روشنیوں کا مرکز بن سکتا ہے، بشرطیکہ عوام اپنی طاقت کو پہچانیں اور دیانت دار قیادت کا ساتھ دیں۔ اقبال کے الفاظ آج بھی ہمیں امید دلاتے ہیں: اس میںکوئی دو رائے نہیں ہے کہ جماعت اسلامی نے اپنی حکمت عملی اور عملی اقدامات سے یہ واضح کر دیا ہے کہ اگر عوام ساتھ دیں تو شہر کو نہ صرف مسائل سے نکالا جا سکتا ہے بلکہ ایک بار پھر ’’روشنیوں کا شہر‘‘ بنایا جا سکتا ہے۔

اداریہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: جماعت اسلامی نے روشنیوں کا کراچی کے کراچی کو کیا جائے شہر کے شہر کو کے لیے

پڑھیں:

امیر جماعت اسلامی ضلع کیماڑی فضل احد ودیگر اتحاد ٹاؤن میں جے آئی یوتھ کے تحت اہل غزہ سے یکجہتی کی تقریب سے خطاب کر رہے ہیں

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251005-01-12

سیف اللہ

متعلقہ مضامین