امیر جماعت اسلامی کراچی کا انٹرویو
اشاعت کی تاریخ: 6th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251006-03-2
کراچی، پاکستان کا سب سے بڑا شہر، کبھی روشنیوں کا استعارہ تھا لیکن آج یہ مسائل کے انبار میں دبا ہوا ہے۔ کچرے کے ڈھیر، پانی کی کمی، ٹرانسپورٹ کا بحران، بدامنی اور کچی آبادیوں کا پھیلاؤ اس شہر کو ایک بحران زدہ بستی بنا چکے ہیں۔ حال ہی میں امیر جماعت اسلامی کراچی، منعم ظفر خان کا ایک تفصیلی انٹرویو ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ میں شائع ہوا ہے، جس میں انہوں نے کراچی کے بنیادی مسائل، سیاسی صورتِ حال اور جماعت اسلامی کے لائحہ عمل پر روشنی ڈالی۔ یہ انٹرویو نہ صرف کراچی کے عوامی مسائل کو اُجاگر کرتا ہے بلکہ ان قوتوں کے کردار کو بھی واضح کرتا ہے جو برسوں سے اس شہر کو اپنے ذاتی و جماعتی مفادات کی بھینٹ چڑھاتے رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے 17 برس تک صوبائی حکومت پر قبضہ رکھا مگر کراچی کو اس کا جائز حق نہ دیا۔ این ایف سی ایوارڈ کے بعد شہر کو 3360 ارب روپے سے محروم رکھا گیا، جبکہ ترقیاتی منصوبے صرف کاغذوں میں محدود رہے۔ دوسری طرف ایم کیو ایم نے تین دہائیوں تک بلدیاتی اداروں کو سیاسی مفادات کے لیے استعمال کیا۔ شہری ادارے جنہیں عوامی خدمت کا مرکز ہونا چاہیے تھا، سیاسی بھرتیوں اور بدانتظامی کا شکار ہو کر بیکار ہوگئے۔ تحریک انصاف کو بھی عوام نے اعتماد کا ووٹ دیا مگر وہ بھی اسلام آباد کی سیاست میں الجھ کر کراچی کو نظرانداز کر گئی۔ یوں یہ تینوں جماعتیں شہری مسائل کے حل کے بجائے ذاتی اقتدار اور مفادات کی جنگ لڑتی رہیں اور کراچی مسائل کا قبرستان بن گیا۔ اس پس منظر میں جماعت اسلامی نے حق دو تحریک کے ذریعے عوام کو ایک نئی امید دی۔ امیر جماعت اسلامی کراچی، منعم ظفر خان، کے مطابق پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کا گٹھ جوڑ ہی شہر کی تباہی کا اصل سبب ہے۔ ان کے بقول کراچی کی بدحالی کے باوجود اس کی اسٹرٹیجک اہمیت برقرار ہے۔ یہ شہر پاکستان ہی نہیں بلکہ عالم ِ اسلام کا معاشی مرکز بننے کی صلاحیت رکھتا ہے، مگر بدانتظامی اور کرپشن نے اس کی طاقت کو کمزور کردیا ہے۔ شہر کے مسائل کی جڑ بکھرا ہوا نظام بھی ہے۔ واٹر بورڈ، کے ڈی اے، ایل ڈی اے، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ، ماس ٹرانزٹ اتھارٹی جیسے ادارے ایک دوسرے سے منسلک ہونے کے بجائے الگ الگ دائرہ اختیار میں کام کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ کوئی ادارہ جواب دہ نہیں۔ جماعت اسلامی کے نزدیک اس کا حل سادہ ہے: 2001ء کا شہری حکومت کا نظام بحال کیا جائے اور کراچی کو صوبائی و وفاقی بجٹ میں اس کا جائز حصہ دیا جائے۔ کراچی کا سب سے بڑا بحران پانی کی کمی ہے۔ روزانہ کی ضرورت 1200 ملین گیلن ہے، مگر صرف 550 ملین گیلن مل رہا ہے، جس میں سے بڑا حصہ چوری یا ٹینکر مافیا کے قبضے میں چلا جاتا ہے۔ کے فور منصوبہ اس بحران کا بنیادی حل ہے مگر وفاق اور صوبہ دونوں کی بے حسی نے اسے تاخیر کا شکار کردیا۔ جماعت اسلامی اس منصوبے کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کرنے کا عزم رکھتی ہے، ساتھ ہی غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے خاتمے اور ڈی سالینیشن پلانٹس کے قیام کی تجویز دیتی ہے۔ ٹرانسپورٹ کا حال بھی مختلف نہیں۔ گرین لائن جیسے منصوبے وقتی ریلیف تو فراہم کرتے ہیں مگر ساڑھے تین کروڑ آبادی والے میٹروپولیٹن کے لیے ناکافی ہیں۔ منعم ظفر خان کے مطابق کراچی کو کم از کم 15 ہزار بسوں اور سرکلر ریلوے کی بحالی کی ضرورت ہے تاکہ شہریوں کو محفوظ، آرام دہ اور سستی سفری سہولت فراہم کی جاسکے۔ تعلیم کے شعبے میں جماعت اسلامی کی حکمت عملی یہ ہے کہ شہر کے تمام سرکاری اسکولوں کو ماڈل اسکولوں کا درجہ دیا جائے۔ ان میں معیاری نصاب، جدید سہولتیں اور بہترین اساتذہ فراہم کیے جائیں۔ جماعت اسلامی کے ٹاؤن چیئرمینوں کی موجودہ کارکردگی اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر نیک نیتی اور دیانت داری سے کام کیا جائے تو محدود وسائل میں بھی بڑے کارنامے انجام دیے جا سکتے ہیں۔ صرف دو سال میں 171 پارکس بحال کیے گئے، 86 ہزار گھروں میں پانی پہنچایا گیا، اور 42 اسکولوں کو بہتر بنا کر داخلوں میں نمایاں اضافہ کیا گیا۔ شہر کے سماجی زوال اور نوجوانوں میں جرائم و منشیات کے بڑھتے رجحان کے بارے میں جماعت اسلامی کا موقف یہ ہے کہ اس کا بنیادی سبب حکومت کی ناکامی اور مافیاز کا تسلط ہے۔ جماعت اسلامی نے اس کے خلاف عوامی سطح پر کمیٹیاں تشکیل دی ہیں جو گلی محلوں میں اخلاقی و سماجی برائیوں کے خلاف جدوجہد کر رہی ہیں۔ لیکن اس بات کو بھی تسلیم کیا گیا کہ حتمی طور پر برائیوں کا خاتمہ ریاستی قوتِ نافذہ کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اسٹریٹ کرائمز کے حوالے سے جماعت اسلامی نے مؤثر سیف سٹی پروجیکٹ اور پولیس کی پیشہ ورانہ تربیت پر زور دیا۔ نوجوانوں کے روزگار کے لیے جماعت اسلامی نے تین سال میں پچاس ہزار سے زائد افراد کو آئی ٹی کی تعلیم دے کر عملی ہنر سکھایا ہے۔ یہ کامیاب تجربہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر نیت صاف ہو تو بے روزگاری کے خاتمے کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ کراچی موسمیاتی تبدیلیوں سے بھی شدید متاثر ہے۔ ہیٹ ویوز، بارشیں اور طوفان شہر کے انفرا اسٹرکچر کو مفلوج کر دیتے ہیں۔ اس خطرے سے نمٹنے کے لیے جماعت اسلامی نے شجرکاری، رین واٹر ہارویسٹنگ اور وضو واٹر ہارویسٹنگ جیسے منصوبے شروع کیے ہیں تاکہ پانی محفوظ ہو اور ماحول کو بہتر بنایا جا سکے۔ کچی آبادیوں کا پھیلاؤ بھی شہر کی منصوبہ بندی پر سوالیہ نشان ہے۔ جماعت اسلامی کا مؤقف ہے کہ انہیں ختم کرنے کے بجائے ریگولرائز کیا جائے، بنیادی سہولتیں فراہم کی جائیں اور مرحلہ وار رہائشی اسکیموں میں ضم کیا جائے۔ نعمت اللہ خان کے دور میں اس حوالے سے کامیاب مثالیں موجود ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ کراچی کو دوبارہ روشنیوں کا شہر بنانا کسی ایک جماعت یا ادارے کا کام نہیں، بلکہ اجتماعی جدوجہد سے ممکن ہے۔ عوام کو اپنی ذمے داری کا ادراک کرنا ہوگا۔ جماعت اسلامی نے عوامی کمیٹیاں اور حق دو تحریک کے ذریعے عوام کو متحرک کیا ہے۔ یہ شعور بیداری ہی شہر کے مسائل کے حل کی اصل کنجی ہے۔ منعم ظفر کے مطابق اگر جماعت اسلامی کو آئندہ پانچ سال کے لیے مکمل اختیار ملتا ہے تو اس کی ترجیحات واضح ہیں،جن میں پانی کے بحران کا خاتمہ (K-4 منصوبے کی تکمیل)، ٹرانسپورٹ کے مسائل کا حل (10 ہزار بسیں اور سرکلر ریلوے)، اور تعلیم میں انقلاب (سرکاری اسکولوں کو ماڈل اسکولوں میں تبدیل کرنا)۔ یہ تین منصوبے کراچی کے مستقبل کو نئی جہت دے سکتے ہیں۔ ان کا کراچی کے عوام کے لیے پیغام یہی ہے کہ مایوسی کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ شہر دوبارہ ترقی، خوشحالی اور روشنیوں کا مرکز بن سکتا ہے، بشرطیکہ عوام اپنی طاقت کو پہچانیں اور دیانت دار قیادت کا ساتھ دیں۔ اقبال کے الفاظ آج بھی ہمیں امید دلاتے ہیں: اس میںکوئی دو رائے نہیں ہے کہ جماعت اسلامی نے اپنی حکمت عملی اور عملی اقدامات سے یہ واضح کر دیا ہے کہ اگر عوام ساتھ دیں تو شہر کو نہ صرف مسائل سے نکالا جا سکتا ہے بلکہ ایک بار پھر ’’روشنیوں کا شہر‘‘ بنایا جا سکتا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جماعت اسلامی نے روشنیوں کا کراچی کے کراچی کو کیا جائے شہر کے شہر کو کے لیے
پڑھیں:
راولپنڈی میں بنو قابل آئی ٹی کورسزکی تقریب
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251120-03-8
ملک محمداعظم
گزشتہ دنوں راولپنڈی میں الخدمت فائونڈیشن اور جماعت اسلامی کے زیر اہتمام بنو قابل آئی ٹی کورسز کے ٹیسٹ کی ایک پُروقار اور شاندار تقریب منعقد ہوئی۔ نوجوانوں کے مستقبل کے حوالے سے نہایت ہی اہمیت کی حامل اس تقریب کے مہمان خصوصی امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن تھے۔ حافظ نعیم الرحمن جب سے امیر جماعت اسلامی پاکستان بنے ہیں۔ بلا مبالغہ وہ تمام دینی و سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں میں سب سے زیادہ متحرک قائد کی حیثیت سے اپنی ایک پہچان پیدا کر چکے ہیں۔ وہ جہاں ملک کے سیاسی، معاشی، انتظامی اور دیگر امور کے حوالے سے اپنے خیالات اور رائے کا کُھل کر اظہار کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے وطن عزیز کے نوجوانوں کے مستقبل کو بہتر سے بہترین بنانے کے حوالے سے آئی ٹی کے شعبے میں ان کی تربیت کے پروگرام ترتیب دیے ہیں۔ بنو قابل کے عنوان سے اس پروگرام کا آغاز کراچی سے کیا گیا تھا۔ نوجوانوں کی اس پروگرام میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے پھر لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد، اسلام آباد اور دیگر بڑے شہروں کے بعد راولپنڈی میں بھی بنو قابل پروگرام کی تیاریاں شروع کر دی گئیں ۔ الحمدللہ! وطن عزیز میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے۔ صرف نوجوانوں کی رہنمائی کرنے اور سرپرستی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جماعت اسلامی سے بہتر نہ کوئی یہ کام کر سکتا ہے اور نہ ہی اس انداز سے سوچ سکتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جماعت اسلامی ملک اور قوم کے حوالے سے جس کام کو بہتر اور مفید سمجھتی ہے، اسے کرنے کی جب ٹھان لیتی ہے تو پھر ناممکن کوبھی ممکن بنا کر رہتی ہے۔
خوش قسمتی سے اس وقت جماعت اسلامی ضلع راولپنڈی کے امیر سید عارف حسین شاہ شیرازی ایک جید عالم دین ہیں۔ جو قدیم اور جدید علوم پر بھی دسترس رکھتے ہیں اور عصر حاضر کے تقاضوں کو بھی بخوبی جانتے ہیں۔ وہ ایک صاحب مطالعہ علمی شخصیت ہیں۔ تواضع اور انکساری ان کی شخصیت کا خاصہ ہے۔ وہ ارکان اور کارکنان ہی نہیں معاشرے کے دیگر لوگوں کے ساتھ بھی رابطوں میں رہتے ہیں۔ نظم بالا سے جو بھی ہدایت یا نیا پروگرام آئے۔ اس حوالے سے مستعدی کے ساتھ سرگرم عمل ہو جاتے ہیں۔ ہر اہم فیصلے پر نظم ضلع، زونل نظم اور ضلعی مجلس شوریٰ کے ساتھ مشاورت اور ان کو اعتماد میں لے کر آگے قدم بڑھاتے ہیں۔ وہ قائد ابن قائد ہیں، مگر کارکنوں کی طرح کام کرتے ہیں۔ وہ اپنے والد محترم کے صحیح معنوں میں علمی جانشین ہیں۔ ان کے والد محترم مولانا سید معروف شاہ شیرازی ؒ بھی عالم دین اور بڑے قانون دان تھے۔ مختلف دینی مدارس میں پڑھاتے رہے۔ عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ کے وکیل بھی رہے ہیں۔ انہوں نے اخوان المسلمون کے مرشد عام سید قطب شہید کی عربی زبان میں شہرہ آفاق تفسیر فی ظلال القرآن کا اردو زبان میں ترجمہ بھی کیا ہے۔ بانی جماعت اسلامی مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ جماعت اسلامی کے شعبہ دارالعروبہ میں کام کرتے رہے۔ اس شعبہ کے تحت اُسوہ کے نام سے ایک موقر رسالہ بھی شائع کرتے رہے ہیں۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی ہدایت پر کراچی میں ادارہ معارف اسلامی میں بھی خدمات سر انجام دیتے رہے ہیں۔ وہ کئی دینی، علمی اور قانونی کتابوں کے مصنف ہیں۔
راولپنڈی میں بنو قابل پروگرام کے حوالے سے امیر جماعت اسلامی ضلع راولپنڈی سید عارف شیرازی اور الخدمت فائونڈیشن ضلع راولپنڈی کے صدر ہارون رشید کی سرپرستی اور رہنمائی میں نہایت ہی منظم انداز میں کام کا آغاز کیا گیا۔ جماعت اسلامی ضلع راولپنڈی کے جنرل سیکرٹری محمد عثمان آکاش کو بنو قابل پروگرام کا سربراہ بنایا گیا۔ محمد عثمان آکاش جواں سال، متحرک اور ہردلعزیزرہنما ہیں۔ وہ ایک عالم دین، اعلیٰ پائے کے مدرس، معلم اور خطیب ہیں۔ انہوں نے اس پروگرام کی کامیابی کے لیے آئی ٹی کے شعبہ سے زیادہ سے زیادہ با صلاحیت نوجوانوں کو شامل کرنے کے لیے متعدد ذیلی کمیٹیاں بنائیں اور ان کے ذمے کام لگائے۔ پھر محمد عثمان آکاش اور ان کی مختلف کمیٹیوں کے افراد نے دن رات ایک کر دیا۔ انہوں نے آئی ٹی کے شعبے میں مہارت رکھنے والے افراد سے بڑے پیمانے پر رابطے کیے۔ یونیورسٹیوں اور کالجوں کے اساتذہ اور طالب علموں کے ساتھ ساتھ تاجر تنظیموں، چیمبر آف کامرس اور زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے نمایاں اور نمائندہ افراد سے ملاقاتیں کیں اور ان کو بنو قابل پروگرام کی تفصیلات اور اہمیت و افادیت سے آگاہ کیا۔ انتظامی کمیٹیوں کے جائزہ اجلاس ہوتے رہے۔ رابطوں، ملاقاتوں اور اجلاسوں کا یہ سلسلہ کئی ہفتوں تک چلتا رہا۔ الخدمت فائونڈیشن ضلع راولپنڈی کے صدر ہارون رشید ایک درویش صفت قائد اور اور انتھک کارکن ہیں۔ وہ کسی قسم کے پروٹوکول اور ہٹو بچوکے بغیر اپنے مخصوص داعیانہ انداز اور مسکراہٹ کے ساتھ آگے بڑھ کر خود کام کرتے اور اپنے ساتھیوں اور کارکنان کی بھی دل کھول کر حوصلہ افزائی کرتے ہوئے نظرآتے ہیں۔ راولپنڈی میں ہونے والے اس بنو قابل پروگرام کی تیاریوں اور انتظامات کے سلسلے میں جماعت اسلامی ضلع راولپنڈی اور الخدمت فائونڈیشن ضلع راولپنڈی کے ذمے داران صدر الخدمت فائونڈیشن پنجاب شمالی رضوان احمد اورصدر الخدمت فائونڈیشن پاکستان ڈاکٹر حفیظ الرحمن کے ساتھ بھی مسلسل رابطوں میں رہے۔ ان کو تمام امور اور معاملات کے بارے میں آگاہی دیتے رہے۔ صوبائی اور مرکزی ذمے داران کی رہنمائی اور سرپرستی میں ہی تمام امور خوش اسلوبی سے مکمل کیے گئے۔ پھر وہ دن آ گیا جب ٹیسٹ ہونا تھا۔ گورنمنٹ سٹلائٹ ٹائون کالج کے وسیع گرائونڈ میں انتظامات کیے گئے تھے۔ طلبہ اور طالبات وقت سے پہلے ہی آنا شروع ہو گئے تھے۔ بہت جلد گرائونڈ میں رکھی ہوئی کرسیاں پُر ہو گئیں تھیں۔ راولپنڈی شہر اور اس کے ارد گرد کے دیہات و قصبات سے طلبہ و طالبات اور دیگر نوجوان اُمڈ کر آ گئے تھے۔ کالج کا گرائونڈ اپنے وسیع دامن کے باوجود سمٹ کر رہ گیا تھا۔ بڑھتی ہو ئی حاضری کو پیش نظر رکھتے ہوئے منتظمین نے فیصلہ کیا کہ ٹیسٹ کو دو حصوںمیں کر لیا جائے۔ چنانچہ جو طلبہ و طالبات پہلے گروپ میں ٹیسٹ دینے سے رہ گئے تھے وہ دوسرے گروپ میں شامل ہو گئے تھے۔ اس طرح ہزاروں طلبہ و طالبات نے مفت آئی ٹی کورسز میں داخلہ کے لیے امتحان دیا۔ اپنی نوعیت کی اس منفرد، شاندار اور خوبصورت تقریب میں چیمبر آف کامرس اور تاجروں کے نمائندوں، وکلا، اساتذۂ کرام، دینی و سیاسی رہنمائوں اور سماجی کارکنان نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی۔
امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے جماعت اسلامی ضلع راولپنڈی اور الخدمت فائونڈیشن ضلع راولپنڈی کے عہدیداران اور ان کی پوری ٹیم کو اتنی اچھی اور خوبصورت تقریب منعقد کرنے پر مبارکباد دی اور طلبہ و طالبات کو خوش آمدید کہا۔ انہوں نے کہا کہ نوجوان ملک کی خدمت کرنا چاہتے ہیں مگر انہیں وسائل اور مواقع میسر نہیں۔ بنو قابل کے ذریعے اپنے حصے کی شمع روشن کی ہے۔ ملک کے بڑے شہروں میں لاکھوں طلبہ و طالبات نے بنو قابل مفت آئی ٹی کورسز کے لیے امتحان دیا۔ حکومت منظر نامے کو دیکھے اور نوجوانوں کو پڑھنے اور آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرے۔ حکمران بتائیں کہ اگر الخدمت فائونڈیشن لاکھوںنوجوانوں کو مفت تعلیم فراہم کر رہی ہے تو ریاست یہ آئینی ذمے داری کیوں ادا نہیں کرتی۔ اس سے قبل الخدمت فائونڈیشن پاکستان کے صدر ڈاکٹر حفیظ الرحمن، امیر جماعت اسلامی پنجاب شمالی ڈاکٹر طارق سلیم، الخدمت فائونڈیشن پنجاب شمالی کے صدر رضوان احمد، امیرجماعت اسلامی ضلع راولپنڈی سید عارف شیرازی، الخدمت فائونڈیشن ضلع راولپنڈی کے صدر ہارون رشید اور بنو قابل پروگرام کے ڈائریکٹر محمد عثمان آکاش نے بھی اظہار خیال کیا۔
سیف اللہ