پسنی میں امریکا کو بندرگاہ دینے کی فائنانشل ٹائمز کی رپورٹ، سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس کا حکومت سے وضاحت کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 6th, October 2025 GMT
اپنے بیان میں چیئرمین ایم ڈبلیو ایم نے کہا کہ اگر ایسا کوئی منصوبہ واقعی زیرِ غور ہے تو یہ اقدام نہ صرف علاقائی امن و استحکام کو خطرے میں ڈالے گا بلکہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے بنیادی اصولوں سے بھی انحراف ہوگا، یہ معاملہ مزید سنگین اس لیے بھی ہے کہ یہ رپورٹ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے افغانستان میں بگرام ایئربیس دوبارہ حاصل کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ چیئرمین مجلس وحدت مسلمین پاکستان سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ بطورِ رکنِ سینیٹ، میں حکومتِ پاکستان سے فوری اور دو ٹوک وضاحت کا مطالبہ کرتا ہوں کہ فائنانشل ٹائمز کی اس رپورٹ میں کتنی صداقت ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان نے امریکہ کو پسنی بندرگاہ ایک ارب بیس کروڑ ڈالر کے ترقیاتی منصوبے کے لیے پیشکش کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ خبر نہ صرف پاکستان کے ایران اور چین جیسے قریبی اور اسٹریٹجک شراکت داروں کے ساتھ تعلقات پر منفی اثر ڈال سکتی ہے بلکہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک)، جس کا مرکز گوادر ہے، کے لیے بھی شدید نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے، اگر ایسا کوئی منصوبہ واقعی زیرِ غور ہے تو یہ اقدام نہ صرف علاقائی امن و استحکام کو خطرے میں ڈالے گا بلکہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے بنیادی اصولوں سے بھی انحراف ہوگا، یہ معاملہ مزید سنگین اس لیے بھی ہے کہ یہ رپورٹ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے افغانستان میں بگرام ایئربیس دوبارہ حاصل کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔
.ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
حکومت کے تجارتی ڈیٹا میں 11 ارب ڈالر کے فرق کا انکشاف
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 05 اکتوبر2025ء ) حکومت کے تجارتی ڈیٹا میں 11 ارب ڈالر کے فرق کا انکشاف ہوا ہے جس پر عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے مطالبہ کیا ہے کہ گزشتہ دو مالی سالوں کے دوران سرکاری اداروں کے رپورٹ کردہ تجارتی اعداد و شمار میں 11 ارب ڈالر کے فرق کو عوامی طور پر ظاہر کیا جائے جس سے ملک کے بیرونی شعبے کے اعشاریوں پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ صحافی شہباز رانا کی رپورٹ کے مطابق حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان ریونیو آٹومیشن لمیٹڈ (PRAL) کی رپورٹ کردہ درآمدات پاکستان سنگل ونڈو (پی ایس ڈبلیو) کے اعداد و شمار کے مقابلے میں مالی سال 2023/24ء کے دوران 5.1 ارب ڈالر کم تھیں، اگلے مالی سال میں یہ فرق بڑھ کر 5.7 ارب ڈالر ہو گیا، پی ایس ڈبلیو کے اعداد و شمار کو زیادہ جامع سمجھا جاتا ہے اور ان میں تمام درآمدی اندراجات شامل ہوتے ہیں۔(جاری ہے)
ذرائع سے پتا چلا ہے کہ پاکستانی حکام نے آئی ایم ایف کو بتایا کہ پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس (پی بی ایس) کی جانب سے جنیوا میں قائم انٹرنیشنل ٹریڈ سینٹر (ITC) کو جمع کرائے گئے تجارتی اعداد و شمار جامع نہیں تھے اور اس کی رپورٹنگ میں کچھ درآمدی اعداد و شمار غائب تھے، تاہم یہ کمی کسی غلط ارادے کی بجائے تجارتی اعداد و شمار کے ماخذ کے پاکستان ریونیو آٹومیشن لمیٹڈ سے پاکستان سنگل ونڈو میں منتقل ہونے کے عمل کی وجہ سے ہوئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ کمی اس وقت سامنے آئی جب پاکستانی درآمد کنندگان اور چینی برآمد کنندگان کے اعداد و شمار میں بڑے فرق کی وجوہات کی جانچ پڑتال کی جا رہی تھی، ایک مشترکہ ٹیم کے تجزیے سے معلوم ہوا کہ پی بی ایس کے تجارتی اعداد و شمار ایک پرانے پروگرامڈ کوئری کے ذریعے حاصل کیے جا رہے تھے جو 2017ء کے بعد اپ ڈیٹ نہیں ہوا تھا، جس کی وجہ سے درآمدات کی مسلسل کمی رپورٹ ہو رہی تھی۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ پی ایس ڈبلیو کا ڈیٹا بیس 15 قسم کے گڈز ڈیکلیریشنز پر مبنی تھا جو پاکستان ریونیو آٹومیشن لمیٹڈ کے صرف سات اقسام کے ڈیٹا کے مقابلے میں زیادہ جامع تھا، اس فرق کے نتیجے میں مالی سال 2023/24ء میں 5.1 ارب ڈالر اور پچھلے مالی سال میں 5.7 ارب ڈالر کی درآمدات کم رپورٹ ہوئیں، سب سے زیادہ فرق ٹیکسٹائل کے شعبے میں دیکھنے میں آیا جہاں تقریباً 3 ارب ڈالر کی درآمدات کم رپورٹ ہوئیں، دھاتی گروپ کی درآمدات بھی مالی سال 2023/24ء میں تقریباً 1 ارب ڈالر کم دکھائی گئیں۔ ذرئع کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ آئی ایم ایف نے شفافیت کی ہدایت کی اور پاکستانی حکام سے کہا ہے کہ ماضی کے تجارتی اعداد و شمار کو درست اور اپ ڈیٹ کریں اور انہیں آئی ایم ایف اور تمام مقامی سٹیک ہولڈرز کے ساتھ شیئر کریں، تاہم ذرائع بتاتے ہیں کہ پی بی ایس گزشتہ سالوں کے اعداد و شمار میں ترمیم کو عوامی طور پر ظاہر کرنے سے ہچکچا رہا ہے، وزارت خزانہ کے حکام کو خدشہ ہے ترمیم شدہ اعداد و شمار کے عوامی ہونے سے برآمدات کے خالص حساب کتاب پر اثر پڑ سکتا ہے جو بدلے میں معاشی ترقی کے تخمینوں کو متاثر کر سکتا ہے۔ رپورٹ میں بتایا جارہا ہے کہ یہ واقعہ پاکستان کے اعداد و شمار کے جمع کرانے کے نظام میں بنیادی خامیوں کو ظاہر کرتا ہے اور ملک کے معاشی اعشاریوں کی شفافیت کے حوالے سے سنجیدہ سوالات کھڑے کرتا ہے، خاص طور پر اس وقت جب پاکستان آئی ایم ایف کے پروگرام کے تحت ہے اور معاشی اصلاحات کے ایک نازک دور سے گزر رہا ہے۔