Express News:
2025-10-07@00:23:40 GMT

حکومتی اخراجات گھٹیں گے تو ترقی ہوگی

اشاعت کی تاریخ: 7th, October 2025 GMT

وفاقی وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ عوام ٹیکس بھریں گے تو ترقی ہوگی اور ملک کا آیندہ سال کا بجٹ مستحکم ہوگا۔ ملک میں معاشی استحکام آگیا، ٹیکس نیٹ بڑھانے پر کام کر رہے ہیں۔ کسی بھی ملک کی ترقی میں پرائیویٹ سیکٹر کا اہم کردار ہوتا ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر کو آگے لے جانا ہے تو ٹیکسز اور دیگر معاملات کو دیکھنا ہوگا۔

حکومتی وزراء یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ ریونیو شارٹ فال پورا کرنے کے لیے اضافی ٹیکس نہیں لگا رہے جب کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ ایف بی آر میں عملہ کرپٹ اور کارکردگی ناقص بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ ایف بی آر سے فاضل عملہ فارغ نہیں کیا گیا جو اب تک نہ صرف موجود ہے بلکہ اہداف پورے کرنے میں ناکام ہے۔

ایف بی آر اگر اپنے اہداف کی وصولی میں موثر اقدامات کرے تو ملک اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکتا ہے اور ایف بی آر ملکی معیشت کی بہتری میں مزید اہم کردار ادا کر سکتا ہے مگر اسے اپنے عملے کی کارکردگی پر کڑی نظر رکھنا ہوگی۔ کراچی بندرگاہ سے جو مال باہر بھیجا جاتا ہے اس پر جو حقیقی ڈیوٹی بنتی ہے وہ وصول نہیں کی جا رہی۔ اکتوبر کے آغاز میں ڈیوٹی کم عائد کیے جانے کا ایک کیس سامنے آ چکا ہے۔

ملک کی معیشت بری طرح متاثر ہو رہی ہے مگر حکومت کچھ نہیں کر رہی جس سے ایف بی آر قانونی ٹیکس وصول نہیں کر پا رہا۔ ہر حکومت اس کا ہر وزیر خزانہ اور موجودہ وزیر خزانہ کو بھی بڑے ٹیکس چور کبھی نظر نہیں آئے اور نہ ان پر ایف بی آر کا زور چلتا ہے اس لیے ہر بجٹ میں تنخواہ دار ملازمین پر ہی شکنجہ سخت کیا جاتا ہے کیونکہ ان کی آمدنی چھپی ہوئی نہیں جب کہ صنعتکار، تاجر اور غیر سرکاری لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ لینے والے محفوظ ہیں۔ ہمیشہ عوام کو ٹیکس نہ دینے کا ذمے دار قرار دیا جاتا ہے جب کہ کون سی ایسی چیز رہ گئی ہے جس پر سرکاری ڈیوٹیز لگی ہوئی نہ ہوں۔

ہر پیک چیز خواہ وہ خوراک ہو یا دوائیں یا روز مرہ استعمال ہونے والی اشیا، سب پر سرکاری ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے۔ بجلی اور گیس پہلے ہی انتہائی مہنگی ہیں ان پر بھی سیلز ٹیکس عائد ہے۔ بجلی و گیس پر الیکٹریسٹی ڈیوٹی اور فکس چارجز لیے جا رہے ہیں۔

جولائی میں سوئی گیس فکس چارجز گھریلو استعمال پر چار سو سے بڑھا کر 600 روپے اور ایک ہزار کو بڑھا کر ڈیڑھ ہزار کر دیا گیا ہے جس سے حکومت کی آمدن اربوں روپے بڑھی ہے مگر حکومت کا رونا یہی رہ گیا ہے کہ عوام ٹیکس نہیں دیتے جب کہ عوام ہر چیز پر ٹیکس ضرورت سے بھی زیادہ دے رہے ہیں اور بڑے ٹیکس چرا اور بچا رہے ہیں جس کی ذمے دار خود حکومت ہے۔ حکومت کا سودی نظام عروج پر ہے اور سود کو حرام سمجھنے والے عوام اپنی بچت بینکوں کے غیر سودی اکاؤنٹ میں جمع کرا رہے ہیں جہاں منافع مقرر نہیں بلکہ کم ہے۔

اس غیر سودی اکاؤنٹس کو بھی حکومت نے نہیں بخشا جہاں ہر ماہ منافع کم ہو رہا ہے۔جب کہ سودی اکاؤنٹس میں نفع زیادہ ہے مگر سود سے بچنے کے لیے عوام کم منافع قبول کر رہے ہیں مگر حکومت سود نہ لینے والوں سے ہولڈنگ ٹیکس وصول کر رہی ہے۔ ایک بینک نے ایک لاکھ روپے پر ستمبر میں مضاربہ صرف 556.

48 روپے دیا ہے جس پر 111.30 روپے ہولڈنگ ٹیکس کٹوانے والے اکاؤنٹس ہولڈر کو ایک لاکھ روپے پر شرعی منافع صرف 445.18 پیسے ملا ہے۔

جب کوئی شخص غیر شرعی سود نہیں لے رہا تو حکومت نے اس کو بھی نہیں بخشا اور اس سے بھی ایک سو گیارہ روپے ہولڈنگ ٹیکس وصول کر لیا تو اتنے کم منافع پر لوگ بینک میں اپنی بچت کیونکر جمع کریں گے کیونکہ حکومت کا تو پیٹ ہی بھرنے میں نہیں آ رہا اور وہ مزید ٹیکس مانگتی ہے۔ حکومت کی صرف عوام کو لوٹو یا تنخواہ داروں کو، بااثر افراد کو کچھ نہ کہو کی وجہ سے لوگوں نے اپنی بچت بینکوں میں رکھنا کم کر دیا ہے اور کاروبار اب زیادہ تر نقد کی صورت میں ہو رہا ہے۔

حکومت عوام کو ٹیکس وصولی میں دونوں ہاتھوں سے نچوڑ کر جو خزانہ بھر رہی ہے اس کا عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا جا رہا بلکہ ٹیکس کی اضافی آمدنی ارکان اسمبلی، وزیروں، ججوں اور اپنوں کو نواز رہی ہے اور حکمرانوں نے غیر ملکی دوروں کا ضرور ریکارڈ قائم کر دکھایا ہے مگر وفاقی حکومت ہو یا صوبائی کوئی اپنے اخراجات کم نہیں کر رہی اور غیر ملکی اور ملکی اداروں سے اتنی بڑی تعداد میں قرضے لیے گئے ہیں کہ عوام کی آنے والی نسلیں بھی ان قرضوں کے بوجھ تلے ڈوبی رہیں گی۔ ملک میں مہنگائی میں 0.56 فی صد سالانہ بنیاد پر اضافے سے 4.07 پر آگئی ہے اور وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ ملک میں معاشی استحکام آگیا ہے تو اس معاشی استحکام کا عوام کو کوئی فائدہ پہنچا نہ مہنگائی کم ہوئی۔ جب تک حکومت اپنے اخراجات میں کمی نہیں کرے گی تو ملک میں ترقی ہوگی نہ عوام کی مالی حالت بہتر ہوگی۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ٹیکس وصول ایف بی آر رہے ہیں ملک میں کہ عوام نہیں کر عوام کو ہے اور ہے مگر رہی ہے

پڑھیں:

ن لیگ اور پیپلزپارٹی میں کشیدگی کم نہ ہوسکی، پنجاب اور سندھ حکومت کے ترجمان آمنے سامنے

وزیرِ اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ جو افراد ہر معاملے پر ’مرسوں مرسوں‘ کے نعرے لگاتے تھے، وہ اب صوبائیت کا سہارا لے رہے ہیں، جبکہ پنجاب کو اپنے ہی حصے کے پانی کے استعمال کے لیے کسی اور صوبے سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔

ایک بیان میں عظمیٰ بخاری نے کہاکہ کسی بھی صوبے کے اندرونی معاملات میں مداخلت آئینی خلاف ورزی ہے، اور پیپلز پارٹی پنجاب کے امور میں دخل اندازی کرکے آئینی حدود سے تجاوز کر رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سیلاب اور گندم پر سیاست کرنے والوں کو جواب ملے گا، مریم اورنگزیب کا پیپلزپارٹی پر وار

ان کا کہنا تھا کہ یا تو آپ اپنے حواس کھو بیٹھے ہیں یا مریم نواز کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خائف ہیں؟ دو ہفتے پہلے تک میڈیا میں آپ کو کوئی توجہ نہیں دے رہا تھا، اور اب آپ پنجاب کے سیلاب متاثرین اور کسانوں پر تنقید کر کے سرخیوں میں آنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ سندھ میں آپ کی حکومت ہے، تو وہاں کے کسانوں سے گندم کیوں نہیں خریدی گئی؟

عظمیٰ بخاری نے مزید کہاکہ پنجاب میں رہ کر سندھ کے وڈیروں کی تابعداری کب تک جاری رہے گی؟ پنجاب کو اپنے وسائل، خصوصاً پانی، کے استعمال کے لیے کسی اور صوبے سے منظوری درکار نہیں۔

’پنجاب کے تمام وسائل پر پہلا حق پنجاب کے عوام کا ہے، اور مریم نواز اپنے صوبے کے کسانوں کو ان کے حقوق ضرور دلوائیں گی۔ اگر مریم نواز پنجاب کے عوام کی آواز بنتی ہیں تو یہ بات آپ کو کیوں ناگوار گزر رہی ہے؟‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی جسے سندھ میں حکومت کرتے ہوئے 17 برس ہو چکے ہیں، وہاں کے حالات مسائل سے بھرے ہوئے ہیں۔ پنجاب کو یہ یاد رہے گا کہ جب وہ مشکل میں تھا تو پیپلز پارٹی نے اس کے عوام کے مسائل کا مذاق بنایا۔ پنجاب کے لوگ اس رویے کو کبھی فراموش نہیں کریں گے۔

سیلاب متاثرین پر سیاست کرنے کے بجائے ان کی مدد کی جائے، ترجمان سندھ حکومت

دوسری جانب ترجمان سندھ حکومت مصطفیٰ عبداللہ بلوچ نے ردعمل میں کہا کہ پیپلز پارٹی پنجاب میں گہری جڑیں رکھتی ہے، وہاں ہمارے پرعزم کارکن اور ووٹر موجود ہیں، اور پنجاب میں عوام کی نمائندگی کرنے سے کسی کو باز نہیں رکھا جا سکتا۔

یہ بھی پڑھیں: سیاسی کشیدگی: مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کا افہام و تفہیم کے ذریعے مسائل حل کرنے پر اتفاق

مصطفیٰ عبداللہ نے کہاکہ سیلاب متاثرین کی مدد ہونی چاہیے، نہ کہ اس پر سیاست کی جائے، اور جس جماعت نے ملک کو آئین دیا، اسے آئینی حدود کا سبق نہ سکھایا جائے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews اختلافات پیپلزپارٹی ترجمان سندھ حکومت عظمیٰ بخاری مسلم لیگ ن وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • حکومت نے عوام یا پارلیمنٹ کو امریکا سے نئے تعلقات کی نوعیت نہیں بتائی، رضا ربانی
  •  بند ہوتی صنعتیں حکومت کے لیے لمحہ فکریہ
  • معاشی استحکام کے حکومتی دعوے، لاکھوں پاکستانی غربت کا شکار
  • حکومت آج ہونے والے اجلاس میں ترقی یقینی بنائے،ایمپلائز الائنس
  • عثمان بزدار کے دورِ حکومت میں 13 کروڑ روپے کی مالی بے ضابطگی کا انکشاف
  • پنجاب حکومت ہماری آڑ میں وزیراعظم کو نشانہ بنارہی ، یہ سازش کامیاب نہیں ہوگی، پیپلز پارٹی
  • احتجاج ختم، حکومت ، ایکشن کمیٹی مذاکرات کامیاب، 25 نکاتی معاہدہ: بھارتی خواہش پوری نہیں ہو گی، حکومتی وفد: کشمیریوں کے حقوق کے محافظ ہیں اور رہیں گے: شہباز شریف
  • ن لیگ اور پیپلزپارٹی میں کشیدگی کم نہ ہوسکی، پنجاب اور سندھ حکومت کے ترجمان آمنے سامنے
  • پنشن اخراجات پر قابو پانے کے لیے حکومت کی کنٹری بیوٹری اسکیم، نیا مالی ماڈل متعارف