شام:ـ بشارالاسد کے زوال کے بعد پہلے پارلیمانی انتخابات
اشاعت کی تاریخ: 7th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251007-06-11
دمشق (انٹرنیشنل ڈیسک) شام میں عبوری پارلیمان کے ارکان کے انتخاب کا عمل مکمل ہوگیا۔ذرائع ابلاغ کے مطابق اسمبلی کی تشکیل احمد الشرع کی طاقت کو مضبوط کرنے کے لیے کی جا رہی ہے، جن کی فوج نے ایک ایسے اتحاد کی قیادت کی تھی جس نے 13 سال سے زائد طویل خانہ جنگی کے بعد دسمبر میں طویل عرصے سے حکمران رہنے والے بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹا دیا تھا۔ مقامی کمیٹیوں کے درجنوں ارکان شام کی نیشنل لائبریری کے باہر ووٹ ڈالنے کے لیے قطاروں میں کھڑے تھے۔منتظم کمیٹی کے مطابق 1500 سے زائد امیدواروں میں 14 فیصد خواتین تھیں، جب کہ تمام امیدوار اسمبلی کی 210 نشستوں کے لیے میدان میں تھے،جس کی مدتِ کار 30 ماہ ہوگی اور اسے بڑھایا جا سکے گا۔ احمد الشرع کو 210 رکنی ایوان میں سے 70 نمائندوں کو براہِ راست نامزد کرنے کا اختیار حاصل ہوگا، باقی 2 تہائی ارکان کا انتخاب مقامی کمیٹیوں کے ذریعے کیا جائے گا جنہیں الیکشن کمیشن نے مقرر کیا ہے۔ الیکشن کمیشن کو خود الشرع کی جانب سے تعینات کیا گیا ۔ تاہم جنوبی شام کا دروز اکثریتی صوبہ السویدااس عمل سے فی الحال باہر رہا، جو جولائی میں فرقہ وارانہ خونریزی کا شکار ہوا تھا۔ اسی طرح کردوں کے زیرِ کنٹرول شمال مشرقی حصہ بھی انتخابی عمل کے دائرے سے باہر ہے اور ان کے لیے مختص 32 نشستیں خالی رہیں گی۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق مارچ میں اعلان کردہ ایک عبوری آئین کے تحت آنے والی پارلیمان قانون سازی کے اختیارات استعمال کرے گی، یہاں تک کہ مستقل آئین تیار کر کے نئے انتخابات منعقد کیے جائیں۔ الشرع کا کہنا ہے کہ فی الحال براہِ راست انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں، کیونکہ خانہ جنگی کے دوران لاکھوں شامی شہری اندرونی طور پر بے گھر ہو گئے یا بیرون ملک پناہ گزین بنے، اور ان کے پاس ضروری دستاویزات نہیں ہیں۔ سرکاری ٹی وی نے اطلاع دی کہ بعض مراکز میں ووٹوں کی گنتی شروع ہو گئی ہے۔حتمی ناموں کی فہرست جلد جاری کی جائے گی۔ قواعد کے مطابق امیدوار سابق حکومت کے حامی نہیں ہونے چاہییں اور نہ ہی علیحدگی یا تقسیم کو فروغ دینے والے ہوں۔
شام: پارلیمانی انتخابات کے دوران ارکان ووٹ ڈال رہے ہیں
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
صدر ٹرمپ کی اپوزیشن ارکان کو ’غداری‘ کے الزام میں سزائے موت کی دھمکی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپوزیشن جماعت ڈیموکریٹ کے ارکانِ اسمبلی کانگریس کے خلاف بغاوت اور غداری کے مقدمات قائم کرنے کی دھمکی دی ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق صدر ٹرمپ نے اپوزیشن ارکان اسمبلی پر نہ صرف غداری اور بغاوت کے الزامات عائد کیئے بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ یہ لوگ سزائے موت کے قابل ہیں۔
یاد رہے کہ یہ اپوزیشن کے وہ ارکان اسمبلی ہیں جو حال ہی میں فوج اور انٹیلیجنس اداروں سے صدر ٹرمپ کے غیرقانونی احکامات ماننے سے انکار کرنے کی اپیل کرچکے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر ڈیموکریٹس کے خلاف سخت زبان استعمال کی اور لکھا کہ ان کی سزا موت ہے۔
امریکا کی اپوزیشن جماعت ڈیموکریٹک پارٹی نے صدر ٹرمپ کے اس بیان کو انتہائی گھٹیا اور جمہوری اقدار کے لیے خطرناک قرار دیا۔
یاد رہے کہ یہ معاملہ اس وقت شروع ہوا جب 6 ڈیموکریٹک سینیٹرز اور نمائندگان جو فوج یا انٹیلیجنس میں خدمات بھی انجام دے چکے ہیں، نے ایک ویڈیو پیغام وائرل کیا تھا۔
ویڈیو پیغام میں ان ارکان اسمبلی نے فوج کے حاضر اہلکاروں کو یاد دہانی کرائی کہ غیرقانونی احکامات پر عمل کرنا قانوناً جرم ہے۔
ان ارکان اسمبلی نے مزید کہا کہ امریکی آئین کے خلاف کوئی حکم نافذ العمل نہیں ہوتا اور فوجی اہلکاروں کا فرض ہے کہ وہ ایسے کسی بھی حکم کو مسترد کردیں۔
ویڈیو میں سینیٹر مارک کیلی، ایلیسا سلاٹکن اور دیگر نے فوجی اہلکاروں کو براہ راست کہا کہ
آپ کا فرض ہے کہ غیر قانونی احکامات کو مسترد کریں۔ ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔
اس ویڈیو کو حکمراں جماعت ریپبلکن نے سیاسی بنیادوں پر فوج کو بغاوت پر اکسانے کی کوشش قرار دیا۔
صدر ٹرمپ کے مشیر اسٹیفن ملر نے اسے ’’کھلی بغاوت‘‘ کہا تھا۔
جس پر ڈیموکریٹس نے جواب دیا کہ یہ صرف قانون کی وضاحت ہے جیسا کہ امریکی فوجی عدالتیں پہلے بھی واضح کر چکی ہیں کہ ظاہرًا غیرقانونی حکم ماننا جرم ہے۔
خیال رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں جب امریکی صدر نے سخت زبان استعمال کی ہو اس سے قبل 2016 میں ہیلری کلنٹن کے خلاف ’’Lock her up‘‘ نعرہ ان کی انتخابی مہم کا حصہ تھا۔
اسی طرح ڈونلڈ ٹرمپ نے 2020 میں بھی نے الیکشن میں روسی مداخلت کی تحقیقات کرنے والوں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا تھا۔
2024 میں بھی صدر ٹرمپ نے سابق امریکی صدر جو بائیڈن اور سابق نائب صدر کمیلہ ہیرس کے خلاف کارروائی کا کہا تھا۔
حال ہی میں صدر ٹرمپ نے اپنی ہی جماعت ریپبلکن کے رہنما لز چینی کے بارے میں بھی سخت اور متنازع جملے ادا کیے تھے۔
اسی طرح صدر ٹرمپ نے اپنے ناقدین ایڈم شیف، لیٹیشیا جیمز، جیمز کومی اور جان بولٹن کے خلاف قانونی کارروائیوں کی کھل کر حمایت کی، جن میں سے بعض پر باضابطہ مقدمات بھی قائم ہو چکے ہیں۔