اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے چیف جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر کے نام ایک تنقیدی خط لکھا ہے جس کی کاپی عدالت کے تمام ججز کو بھی بھجوائی گئی ہے۔ خط میں انہوں نے فل کورٹ میٹنگ اور عدلیہ میں مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) کے ممکنہ استعمال سے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ خط کے متن کے مطابق، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے لکھا کہ مصنوعی ذہانت programmable ہوتی ہے، لہٰذا اگر روبوٹس کو کرسیِ انصاف پر بٹھایا گیا، تو ان کے فیصلے ہمیشہ ان پروگرامز کے تابع ہوں گے جو ان میں وقتاً فوقتاً فیڈ کیے جائیں گے۔ انہوں نے لکھا کہ اس دلیل کے مطابق کمپیوٹر یا روبوٹ حق یا انصاف کے معاملے میں آزادانہ رائے قائم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے اعتراف کیا کہ ماضی میں وہ اس مؤقف سے متفق نہیں تھے، تاہم فل کورٹ میٹنگ کے بعد ان کا نقطہ نظر بدل گیا ہے، اور اب وہ عدلیہ میں مصنوعی ذہانت کے بطور فیصلہ کنندگان استعمال کے ناقدین سے متفق ہیں۔ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے اپنے خط میں مزید کہا کہ وہ جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز کی فل کورٹ میٹنگ میں پیش کی گئی اختلافی آراء سے اتفاق کرتے ہیں۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: مصنوعی ذہانت

پڑھیں:

ججز ٹرانسفر کیس: ہائیکورٹ ججز نے وفاقی آئینی عدالت میں سماعت چیلنج کردی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد: ججز ٹرانسفر کیس نے ایک بار پھر اہم موڑ اختیار کرلیا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے سینئر ججز نے انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت کو وفاقی آئینی عدالت میں منتقل کیے جانے کے فیصلے کو باضابطہ طور پر چیلنج کردیا ہے۔

نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق پانچ ہائیکورٹ ججز کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ انٹرا کورٹ اپیل کو سپریم کورٹ واپس بھیجا جانا چاہیے، کیونکہ اسے 27 ویں آئینی ترمیم کے تحت وفاقی آئینی عدالت میں منتقل کیا گیا ہے، جو آئین کے بنیادی ڈھانچے اور اصولوں کے منافی ہے۔

درخواست گزار ججز نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ پاکستان کا آئین 1973 ملک کے تین بنیادی ستون  مقننہ، ایگزیکٹو اور عدلیہ  کی واضح حدود، دائرہ اختیار اور اختیارات کا تعین کرتا ہے۔ کسی بھی آئینی ترمیم کا استعمال عدلیہ کے اختیارات کو تبدیل کرنے یا اس کے ڈھانچے کو کمزور کرنے کے لیے نہیں کیا جا سکتا۔

ججز نے موقف اپنایا کہ سپریم کورٹ کے مختلف فیصلے اختیارات کی تقسيم اور ادارہ جاتی توازن پر واضح اور تاریخی رہنمائی فراہم کرتے ہیں، اس لیے انٹرا کورٹ اپیل کو وفاقی آئینی عدالت میں منتقل کرنا آئین کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔

درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ 27 ویں آئینی ترمیم نہ صرف اختیارات کی تقسیم کے بنیادی اصولوں سے ٹکراتی ہے بلکہ عدلیہ کی خود مختاری کو بھی متاثر کرتی ہے، جس کی بنیاد پر انٹرا کورٹ اپیل کو دوبارہ سپریم کورٹ کے اختیار میں لایا جانا ضروری ہے۔ پانچوں ججز اس بات کے خواہاں ہیں کہ اپیل وہیں سنی جائے، جہاں اسے آئین کے تحت سنا جانا چاہیے تھا۔

دوسری جانب وفاقی آئینی عدالت نے اسی انٹرا کورٹ اپیل کو سماعت کے لیے مقرر کرتے ہوئے باضابطہ کازلسٹ بھی جاری کردی ہے۔

کازلسٹ کے مطابق جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں چھ رکنی لارجر بینچ 24 نومبر کو ساڑھے 11 بجے سماعت کرے گا۔ بینچ میں جسٹس حسن رضوی، جسٹس باقر نجفی، جسٹس کے کے آغا، جسٹس روزی خان اور جسٹس ارشد حسین شاہ شامل ہیں، جو اس معاملے پر اہم قانونی نکات کا جائزہ لیں گے۔

یاد رہے کہ اس سے قبل سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے اسلام آباد میں ججز کے تبادلے کو آئینی اور درست قرار دیا تھا۔ اسی فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز نے انٹرا کورٹ اپیل دائر کی تھی، جسے اب 27 ویں ترمیم کے تحت وفاقی آئینی عدالت منتقل کر دیا گیا تھا۔

متعلقہ مضامین

  • ججز ٹرانسفر کیس: ہائیکورٹ ججز نے وفاقی آئینی عدالت میں سماعت چیلنج کردی
  • افغان سرزمین دہشتگردی کیلئے مسلسل استعمال ہو رہی ہے، طالبان روکیں: دفتر خارجہ
  • چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کی عدم دستیابی کے باعث سنگل اور ڈویژن بنچ کی کاز لسٹ منسوخ
  • چین کا ایک اور کارنامہ: مصنوعی جزیرے کی تیاری زور و شور سے جاری
  • سپریم کورٹ میں جج تعیناتی، دو ہائی کورٹس میں چیف جسٹسز کی تقرری کیلئے اجلاس طلب
  • چیف جسٹس آف پاکستان نے جوڈیشل کمیشن کے تین الگ، الگ اجلاس طلب کرلئے
  • ڈرامہ ’کیس نمبر 9‘: عدلیہ سے متعلق ڈائیلاگ وائرل، یوٹیوب سے حذف ہونے پر صارفین نے سوالات اٹھا دیے
  • چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن کے 3 اجلاس 2 دسمبر کو ہوں گے
  • جسٹس محسن اختر کیانی کے آئینی عدالت سے متعلق اہم ریمارکس
  • چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن کے اجلاس 2 دسمبر کو سپریم کورٹ میں ہوں گے