چھبیسویں آئینی ترمیم کیس: آئین میں ترمیم ہونے تک موجودہ آئین پر ہی انحصار کرنا ہو گا، جسٹس امین الدین WhatsAppFacebookTwitter 0 8 October, 2025 سب نیوز

اسلام آباد(آئی پی ایس) سپریم کورٹ کے جج جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے ہیں کہ ہم آئین پر انحصار کرتےہیں، جب تک آئین میں ترمیم نہیں ہوتی موجودہ آئین پر ہی انحصار کرنا ہوگا۔

سپریم کورٹ میں چھبیسویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر براہ راست سماعت جاری ہے، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 8 رکنی آئینی بینچ سماعت کررہا ہے، سماعت سپریم کورٹ کے یوٹیوب چینل پر براہ راست نشر کی جارہی ہے۔

بینچ میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم افغان اور جسٹس شاہد بلال بھی بینچ کا حصہ ہیں۔

حامد خان ایڈووکیٹ نے دلائل کا آغاز کیا اور مؤقف اپنایا کہ چھبیسیویں ترمیم رات کے وقت پارلیمنٹ میں لائی گئی۔

جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ پہلے بینچ کی تشکیل پر معاونت کریں، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اچھا ہوا یا برا، ان میرٹس کو ابھی رہنے دیں۔

حامد خان نے مؤقف اپنایا کہ میں میرٹس پر نہیں جارہا، صرف کچھ حقائق بتارہا ہوں، ہم اس کیس کی فل کورٹ میں ہی سماعت چاہتے ہیں، فل کورٹ وہ والی جو 26ویں ترمیم کے وقت تھی، اس حساب سے سولہ رکنی بنچ بنے گا، موجودہ بینچ کے تمام ججز بھی اس وقت موجود تھے، استدعا ہے باقی اس وقت کے آٹھ ججزکو بھی شامل کیا جائے۔

جسٹس مندوخیل نے استفسار کیا کیا آپ متفق ہیں اس وقت 26 ویں ترمیم کا حصہ ہے یا نہیں؟
حامد خان نے جواب دیا کہ اگر فل کورٹ اس ترمیم کو کالعدم قراردے تو یہ پہلے دن سے ختم تصور ہو گی۔

جسٹس امین الدین نے کہا کہ جب تک کالعدم ہو نہ جائے تب تک تو آئین کا حصہ ہے نا؟ اس وقت آپ دلائل اس ترمیم کو آئین کا حصہ مانتے ہوئے دیں گے، جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ اسی ترمیم کے تحت بنے بینچ کے سامنے آئے ہیں، جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ ابھی تک اس ترمیم کو معطل نہیں کیا گیا۔

لاہور بار اور لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی کے وکیل حامد خان روسٹرم پر آگئے، حامد خان ایڈوکیٹ نے فل کورٹ کی تشکیل پر دلائل شروع کردئیے اور مؤقف اختیار کیا کہ 26ویں آئینی ترمیم غیر ضروری جلد بازی میں منظور کی گئی، 20 اکتوبر 2024 کی شام کو ترامیم پہلے سینٹ میں پیش ہوئیں، 20 اور 21 اکتوبر 2024 کی درمیانی شب ترامیم قومی اسمبلی میں پیش ہوئیں۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ خان صاحب یہ تو بینچ کی تشکیل کے حوالے سے دلائل نہیں ہیں، آپ پہلے بینچ کی تشکیل پر دلائل دیجئے جب مرکزی کیس سنیں گے تو تب آپ اس حوالے سے دلائل دیجئے گا۔

حامد خان نے کہا کہ یہ بہت اہم معاملہ ہے، ترامیم منظور ہونے کا طریقہ کار پر بات کرہا ہوں، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ چلیں ہم ماں لیتے ہیں کہ یہ انتہائی اہمیت کا معاملہ ہے، آپ بینچ کی تشکیل پر دلائل دیجئے۔

جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ ہم آئین پر انحصار کرتےہیں، وکلاء بھی آئین پر انحصار کرتےہیں، جب تک آئین میں ترمیم نہیں ہوتی موجودہ آئین پر ہی انحصار کرنا ہوگا۔

جسٹس مسرت حلالی نے کہا کہ چھبیسویں آئینی ترمیم ٹھیک ہے یا غلط فی الحال عدالت نے معطل نہیں کی، آپ چھبیسویں آئینی ترمیم کو آئین کا حصہ سمجھتے ہیں تب ہی چیلنج کیاہے۔

جسٹس محمدعلی مظہر نے حامدخان کو ہدایت دی کہ مرکزی کیس کو نہیں فی الحال سن رہے، فی الحال فُل کورٹ کہ درخواست پر دلائل دیں،وکیل حامدخان نے مؤقف اپنایا کہ فی الحال بات نہیں کررہا کہ چھبیسویں آئینی ترمیم کے نکات کیسے آئین کے خلاف ہیں،
چھبیسویں آئینی ترمیم سے اختیارات پر پڑے اثرات سے آگاہ کرنا چاہتاہوں، چھبیسویں آئینی ترمیم کے بعد بینچز بنانے کا اختیار چیف جسٹس سے پہلی بار واپس لےلیاگیاہے، چھبیسویں آئینی ترمیم میں بینچز بنانے کے طریقے کار کے حوالے سے بتایاگیاہے۔

وکیل حامدخان نے کہا کہ چھبیسویں آئینی ترمیم سے قبل بھی جوڈیشل کمیشن موجود تھا،
چھبیسویں آئینی ترمیم سے جوڈیشل کمیشن کی فارمیشن پر اثر پڑا، چھبیسویں آئینی ترمیم میں جوڈیشل کمیشن میں ججز اقلیت میں آگئے۔

وکیل حامد خان نے جوڈیشل کمیشن کے اراکین کےحوالے سے عدالت کو آگاہ کیا، جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ مسئلہ یہ ہے ابھی تک یہی فیصلہ نہیں ہوا کس بنچ نے کیس سننا ہے، ہم کس اختیار سے فل کورٹ تشکیل دیں؟

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ جوڈیشل آرڈر سے فل کورٹ کی تشکیل پر کوئی قدغن نہیں، 26ویں ترمیم میں کہاں لکھا ہے جوڈیشل آرڈر نہیں ہوسکتا؟ عام مقدمات میں ایسا کیا جا رہا ہے تو اس کیس میں کیوں نہیں؟

جسٹس نعیم افغان نے کہا کہ حامد خان صاحب مگر آپ نے اپنی استدعا میں یہ مانگا ہی نہیں،
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آپ ہمیں آئین کے متن سے بتائیں ہم فل کورٹ کا آرڈر کیسے کریں؟ کیا ہم یہ آرڈر آرٹیکل 187 استعمال کر کے دیں؟

حامد خان نے استدلال کیا کہ جی بالکل آرٹیکل 187 کے تحت عدالت اختیار استعمال کر سکتی ہے،جسٹس مندوخیل نے پوچھا کہ فرض کریں ہم آپ کی بات مانتے ہوئے تمام سپریم کورٹ ججز کو آئینی بنچ مان لیں تو آپ مطمئن ہوں گے؟ حامد خان نے جواب دیا کہ آئینی بنچ کا تصور آپ نے 26ویں ترمیم سے دیا ہے۔

جسٹس مندوخیل نے کہا کہ ہم نے نہیں دیا پارلیمان نے دیا ہم پر نہ ڈالیں، حامد خان نے کہا کہ آپ تھوڑی دیر کیلئے آرٹیکل 191اے کو بھول جائیں، جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ بھول جائیں تو پھرآئینی بینچ ہی ختم پھرہم یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟

جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ اگر ہم اسے بھول جائیں تو پھر آج سپریم کورٹ کا وجود ہی نہیں رہتا، اگر اس آئینی بنچ کا وجود ختم ہوجائے تو پھر ہم آرڈر کیسے کر سکتے ہیں؟

گزشتہ روز آئینی بینچ نے فریقین کو سننے کے بعد کیس کی سماعت لائیو سٹریمنگ کا حکم دیا تھا، چھبیسویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر پہلی سماعت 27 جنوری 2025 کو ہوئی تھی۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرگھر سے بھاگ کر کورٹ یا لو میرج کرنے کا نکاح نامہ رجسٹرڈ نہ کرنے کا حکم سکیورٹی فورسز کا اورکزئی میں آپریشن، مقابلے میں لیفٹیننٹ کرنل سمیت 11 جوان شہید جعفر ایکسپریس حادثہ پر بھارت کا گھناؤنا پروپیگنڈا بے نقاب غزہ میں جنگ بندی کا حقیقی امکان موجود ہے، صدر ٹرمپ کا دعویٰ امریکی کمپنی کا پاکستان کو فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائل فروخت کرنے کا فیصلہ چین کا مقابلہ، امریکی محکمہ دفاع نے نیکسٹ جنریشن جنگی طیارے کی منظوری دے دی وزیراعظم کا دورہ ملائیشیا، دفتر خارجہ نے21 نکاتی مشترکہ اعلامیہ جاری کردیا TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ موجودہ ا ئین پر ہی انحصار کرنا ہو چھبیسویں ا ئینی ترمیم نے ریمارکس دیے کہ ا جسٹس مندوخیل نے بینچ کی تشکیل جوڈیشل کمیشن خان نے کہا کہ کی تشکیل پر سپریم کورٹ وکیل حامد ترمیم کے پر دلائل ترمیم کو فی الحال فل کورٹ کا حصہ

پڑھیں:

ججز ٹرانسفر کیس: آئینی عدالت میں فکس کرنے کا اقدام چیلنج

اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججز نے ججز ٹرانسفر کیس میں وفاقی آئینی عدالت میں انٹرا کورٹ اپیل کو منتقل کیے جانے کے اقدام کو چیلنج کر دیا ہے۔ ان ججز نے وفاقی آئینی عدالت میں ایک متفرق درخواست دائر کی، جس میں انٹرا کورٹ اپیل کو سپریم کورٹ سے آئینی عدالت منتقل کرنے کے فیصلے کو چیلنج کیا۔
یہ درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان، جسٹس سمن رفت امتیاز اور جسٹس طارق محمود جہانگیری کی جانب سے دائر کی گئی ہے، جو دیگر ہائی کورٹ کے ججوں کے وفاقی دارالحکومت میں تبادلے کے معاملے پر مبنی ہے۔
جون میں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے اس تبادلے کو غیر آئینی قرار دینے سے انکار کیا تھا، جس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے ان ججوں نے اس فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے انٹرا کورٹ اپیل دائر کی تھی۔ اب یہ اپیل وفاقی آئینی عدالت میں سماعت کے لیے مقرر کی گئی ہے، جو 27ویں آئینی ترمیم کے تحت قائم کی گئی تھی، اور اس کی سماعت 24 نومبر کو ہوگی۔
درخواست میں ججز نے وفاقی آئینی عدالت سے یہ اپیل کی ہے کہ ان کی اپیل کو سپریم Court واپس بھیجا جائے، کیونکہ ان کے مطابق یہ معاملہ آئینی طور پر سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم خود آئین کی بنیادی ساخت سے متصادم ہے، کیونکہ آئین نے ریاست کے تین بنیادی ستون، مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کے اختیارات اور حدود کو واضح طور پر متعین کیا ہے۔
ججز کا کہنا تھا کہ اگرچہ پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم کا اختیار حاصل ہے، لیکن یہ اختیار عدلیہ کے خاتمے یا کمزوری کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ عدلیہ آئینی ڈھانچے کا بنیادی حصہ ہے۔
انہوں نے اپنے موقف میں یہ بھی واضح کیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں نے ہمیشہ عدلیہ کی آزادی اور اختیارات کی علیحدگی کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ ان ججز کا خیال ہے کہ اس نوعیت کے معاملات میں اپیل کا دائرہ اختیار صرف سپریم کورٹ کے پاس ہونا چاہیے، جب تک کہ کوئی ترمیم واضح طور پر اس کے دائرہ اختیار کو تبدیل نہ کرے۔
متفرق درخواست دائر کیے جانے کے بعد، اب آئینی عدالت یہ فیصلہ کرے گی کہ آیا وہ اپیل کی سماعت جاری رکھے یا معاملہ سپریم کورٹ کو واپس بھیج دے۔ اس سے قبل سپریم کورٹ نے ججز کے اس فیصلے پر ایک حکم دیا تھا جس میں ان پر 27ویں ترمیم کو چیلنج کرنے کی کوشش پر روکا گیا تھا اور انہیں وفاقی آئینی عدالت جانے کی ہدایت کی تھی۔
اس کے علاوہ، ججز نے آئین کے آرٹیکل 200 میں کی گئی ترمیم کو بھی چیلنج کیا تھا، جس کے مطابق ہائی کورٹ کے ججز کا ان کی مرضی کے بغیر تبادلہ ممکن ہو گیا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ اس قسم کی تبدیلیاں ججوں کو دباؤ، انتقامی کارروائیوں اور عدالتوں کی تشکیل میں مداخلت کے خطرات سے دوچار کر سکتی ہیں۔
اب آئینی عدالت کے سامنے یہ سوال ہوگا کہ آیا وہ اس اپیل کو سپریم کورٹ کو بھیجنے کا فیصلہ کرے یا اسے اپنی سماعت میں رکھے۔

 

متعلقہ مضامین

  • ججز ٹرانسفر کیس: آئینی عدالت میں فکس کرنے کا اقدام چیلنج
  • بنیادی حقوق کا تحفظ ترجیح، آئین کی تشریح شفافیت، آزادی، دیانت سے کی جائے گی: چیف جسٹس امین الدین
  • چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کی عدم دستیابی کے باعث سنگل اور ڈویژن بنچ کی کاز لسٹ منسوخ
  • آئین کی تشریح شفافیت، آزادی اور دیانت کے ساتھ کی جائے گی‘ جسٹس امین الدین خان
  • وفاقی آئینی عدالت کا قیام: چیف جسٹس امین الدین خان کا پہلا باضابطہ پیغام جاری
  • ہائیکورٹ ججز کی 27ویں ترمیم کیخلاف درخواست پر اعتراض عائد
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کے 4ججز نے 27 ویںترمیم سپریم کورٹ میں چیلنج کردی
  • ’کیا پتا27 کو میں یہاں ہونگا کہ نہیں‘،جسٹس محسن اختر کیانی کے آئینی عدالت سے متعلق اہم ریمارکس
  • وفاقی آئینی عدالت کا سپریم کورٹ رولز 2025ء کو اختیار کرنے کا فیصلہ
  • کارکنان کیخلاف مقدمہ درج کرنا آمرانہ اقدام ہے،عمرہ سموں