اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم کورٹ آئینی بنچ میں26ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پرسماعت کے دوران جسٹس مسرت ہلالی نے کہاکہ 26ویں آئینی ترمیم ٹھیک تھی یا غلط فی الحال عدالت نے معطل نہیں کی،آپ 26ویں آئینی ترمیم کو آئین کا حصہ سمجھتے ہیں تب ہی چیلنج کیا ہے۔

نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے مطابق 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 8رکنی آئینی بنچ سماعت کررہا ہے،بنچ میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک شامل ہیں،جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم افغان اور جسٹس شاہد بلال بھی بنچ میں شامل ہیں ۔

میانوالی میں الیکٹرک بسیں چلنے سے چھوٹی گاڑیوں کا عملہ فاقوں پر مجبور،وزیراعلیٰ پنجاب سے مدد کی اپیل 

وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ 26ویں آئینی ترمیم سینیٹ میں غیرمعمولی طریقے سے لائی گئی تھی، 26ویں آئینی ترمیم پارلیمنٹ میں رات کے وقت پاس کی گئی،سپریم کورٹ میں 21اکتوبر کو 17ججز موجود تھے، 25اکتوبر کو چیف جسٹس ریٹائر ہو گئے، ججز کی تعداد16رہ گئی،26ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواست کی سماعت فل کورٹ کرنے کی استدعا ہے،موجودہ آئینی بنچ کے 8ججز بھی 26ویں ترمیم کے پاس ہونے کے وقت سپریم کورٹ میں موجود تھے،بقیہ 8ججز کو بھی آئینی بنچ کا حصہ ہونا چاہئے جو 26ویں آئینی ترمیم پاس ہونے کے وقت سپریم کورٹ کا حصہ تھے،سپریم کورٹ کا فل کورٹ دستیاب ہے۔

اورکزئی میں سکیورٹی فورسز کی کارروائی،19بھارتی سپانسرڈ خوارج ہلاک،فائرنگ کے تبادلے میں لیفٹیننٹ کرنل جنید عارف ، میجر طیب راحت سمیت 11جوان شہید

جسٹس امین الدین خان نے کہاکہ ہم آئین پر انحصار کرتے ہیں، وکلا بھی آئین پر انحصار کرتے ہیں،جب تک آئین میں ترمیم نہیں ہوتی موجودہ آئین پر ہی انحصار کرنا ہوگا، جسٹس مسرت ہلالی نے کہاکہ 26ویں آئینی ترمیم ٹھیک تھی یا غلط فی الحال عدالت نے معطل نہیں کی،آپ 26ویں آئینی ترمیم کو آئین کا حصہ سمجھتے ہیں تب ہی چیلنج کیا ہے۔

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

کلیدی لفظ: 26ویں ا ئینی ترمیم جسٹس مسرت ہلالی سپریم کورٹ کا حصہ

پڑھیں:

26 ویں آئینی ترمیم کیس: آئین میں ترمیم ہونے تک موجودہ آئین پر ہی انحصار کرنا ہو گا، جسٹس امین الدین

سپریم کورٹ کے جج جسٹس امین الدین  نے ریمارکس دیے ہیں کہ ہم آئین پر انحصار کرتےہیں، جب تک آئین میں ترمیم نہیں ہوتی موجودہ آئین پر ہی انحصار کرنا ہوگا۔

سپریم کورٹ میں چھبیسویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر براہ راست سماعت  جاری ہے، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 8 رکنی آئینی بینچ سماعت کررہا ہے، سماعت سپریم کورٹ کے یوٹیوب چینل پر براہ راست نشر کی جارہی ہے۔

بینچ میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم افغان اور جسٹس شاہد بلال بھی بینچ کا حصہ ہیں۔

حامد خان ایڈووکیٹ نے دلائل کا آغاز کیا اور مؤقف اپنایا کہ چھبیسیویں ترمیم رات کے وقت پارلیمنٹ میں لائی گئی۔

جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ پہلے بینچ کی تشکیل پر معاونت کریں، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اچھا ہوا یا برا، ان میرٹس کو ابھی رہنے دیں۔

حامد خان نے مؤقف اپنایا کہ میں میرٹس پر نہیں جارہا، صرف کچھ حقائق بتارہا ہوں، ہم اس کیس کی فل کورٹ میں ہی سماعت چاہتے ہیں، فل کورٹ وہ والی جو 26ویں ترمیم کے وقت تھی، اس حساب سے سولہ رکنی بنچ بنے گا، موجودہ بینچ کے تمام ججز بھی اس وقت موجود تھے، استدعا ہے باقی اس وقت کے آٹھ ججزکو بھی شامل کیا جائے۔

جسٹس مندوخیل نے استفسار کیا کیا آپ متفق ہیں اس وقت 26 ویں ترمیم کا حصہ ہے یا نہیں؟
حامد خان نے جواب دیا کہ اگر فل کورٹ اس ترمیم کو کالعدم قراردے تو یہ پہلے دن سے ختم تصور ہو گی۔

جسٹس امین الدین نے کہا کہ جب تک کالعدم ہو نہ جائے تب تک تو آئین کا حصہ ہے نا؟ اس وقت آپ دلائل اس ترمیم کو آئین کا حصہ مانتے ہوئے دیں گے، جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ اسی ترمیم کے تحت بنے بینچ کے سامنے آئے ہیں، جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ ابھی تک اس ترمیم کو معطل نہیں کیا گیا۔

لاہور بار اور لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی کے وکیل حامد خان روسٹرم پر آگئے،  حامد خان ایڈوکیٹ نے فل کورٹ کی تشکیل پر دلائل شروع کردئیے اور مؤقف اختیار کیا کہ  26ویں آئینی ترمیم غیر ضروری جلد بازی میں منظور کی گئی،  20 اکتوبر 2024 کی شام کو ترامیم پہلے سینٹ میں پیش ہوئیں،  20 اور 21 اکتوبر 2024 کی درمیانی شب ترامیم قومی اسمبلی میں پیش ہوئیں۔

جسٹس امین الدین خان  نے کہا کہ خان صاحب یہ تو بینچ کی تشکیل کے حوالے سے دلائل نہیں ہیں، آپ پہلے بینچ کی تشکیل پر دلائل دیجئے جب مرکزی کیس سنیں گے تو تب آپ اس حوالے سے دلائل دیجئے گا۔

حامد خان  نے کہا کہ یہ بہت اہم معاملہ ہے، ترامیم منظور ہونے کا طریقہ کار پر بات کرہا ہوں،  جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ  چلیں ہم ماں لیتے ہیں کہ یہ انتہائی اہمیت کا معاملہ ہے، آپ بینچ کی تشکیل پر دلائل دیجئے۔

جسٹس امین الدین  نے ریمارکس دیے کہ ہم آئین پر انحصار کرتےہیں، وکلاء بھی آئین پر انحصار کرتےہیں، جب تک آئین میں ترمیم نہیں ہوتی موجودہ آئین پر ہی انحصار کرنا ہوگا۔

جسٹس مسرت حلالی نے کہا کہ چھبیسویں آئینی ترمیم ٹھیک ہے یا غلط فی الحال عدالت نے معطل نہیں کی، آپ چھبیسویں آئینی ترمیم کو آئین کا حصہ سمجھتے ہیں تب ہی چیلنج کیاہے۔

جسٹس محمدعلی مظہر نے حامدخان کو ہدایت دی کہ مرکزی کیس کو نہیں فی الحال سن رہے، فی الحال فُل کورٹ کہ درخواست پر دلائل دیں،وکیل حامدخان نے مؤقف اپنایا کہ  فی الحال بات نہیں کررہا کہ چھبیسویں آئینی ترمیم کے نکات کیسے آئین کے خلاف ہیں،
چھبیسویں آئینی ترمیم سے اختیارات پر پڑے اثرات سے آگاہ کرنا چاہتاہوں، چھبیسویں آئینی ترمیم کے بعد بینچز بنانے کا اختیار چیف جسٹس سے پہلی بار واپس لےلیاگیاہے، چھبیسویں آئینی ترمیم میں بینچز بنانے کے طریقے کار کے حوالے سے بتایاگیاہے۔

وکیل حامدخان نے کہا کہ چھبیسویں آئینی ترمیم سے قبل بھی جوڈیشل کمیشن موجود تھا،
چھبیسویں آئینی ترمیم سے جوڈیشل کمیشن کی فارمیشن پر اثر پڑا، چھبیسویں آئینی ترمیم میں جوڈیشل کمیشن میں ججز اقلیت میں آگئے۔

وکیل حامد خان نے جوڈیشل کمیشن کے اراکین کےحوالے سے عدالت کو آگاہ کیا، جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ  مسئلہ یہ ہے ابھی تک یہی فیصلہ نہیں ہوا کس بنچ نے کیس سننا ہے،  ہم کس اختیار سے فل کورٹ تشکیل دیں؟

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ  جوڈیشل آرڈر سے فل کورٹ کی تشکیل پر کوئی قدغن نہیں،  26ویں ترمیم میں کہاں لکھا ہے جوڈیشل آرڈر نہیں ہوسکتا؟ عام مقدمات میں ایسا کیا جا رہا ہے تو اس کیس میں کیوں نہیں؟ 

جسٹس نعیم افغان نے کہا کہ حامد خان صاحب مگر آپ نے اپنی استدعا میں یہ مانگا ہی نہیں،
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آپ ہمیں آئین کے متن سے بتائیں ہم فل کورٹ کا آرڈر کیسے کریں؟ کیا ہم یہ آرڈر آرٹیکل 187 استعمال کر کے دیں؟ 

حامد خان نے استدلال کیا کہ جی بالکل آرٹیکل 187 کے تحت عدالت اختیار استعمال کر سکتی ہے،جسٹس مندوخیل نے پوچھا کہ  فرض کریں ہم آپ کی بات مانتے ہوئے تمام سپریم کورٹ ججز کو آئینی بنچ مان لیں تو آپ مطمئن ہوں گے؟ حامد خان نے جواب دیا کہ آئینی بنچ کا تصور آپ نے 26ویں ترمیم سے دیا ہے۔

جسٹس مندوخیل نے کہا کہ ہم نے نہیں دیا پارلیمان نے دیا ہم پر نہ ڈالیں،  حامد خان نے کہا کہ آپ تھوڑی دیر کیلئے آرٹیکل 191اے کو بھول جائیں، جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ  بھول جائیں تو پھرآئینی بینچ ہی ختم پھرہم یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟

جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ اگر ہم اسے بھول جائیں تو پھر آج سپریم کورٹ کا وجود ہی نہیں رہتا،  اگر اس آئینی بنچ کا وجود ختم ہوجائے تو پھر ہم آرڈر کیسے کر سکتے ہیں؟

گزشتہ روز آئینی بینچ نے فریقین کو سننے کے بعد کیس کی سماعت لائیو سٹریمنگ کا حکم دیا تھا، چھبیسویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر پہلی سماعت 27 جنوری 2025 کو ہوئی تھی۔

 

متعلقہ مضامین

  • 26ویں آئینی ترمیم کیس ؛کیا آپ خوش نہیں ہوں گے ماضی کا فیصلہ برقرار رہے اور اب چھوٹا بنچ ہی سماعت کرے؟جسٹس جمال مندوخیل کا استفسار
  • 26 ویں آئینی ترمیم کیس: آئین میں ترمیم ہونے تک موجودہ آئین پر ہی انحصار کرنا ہو گا، جسٹس امین الدین
  • سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے 26ویں ترمیم کے خلاف درخواستوں پر دوبارہ سماعت شروع کر دی
  • عدالت کو بتا دیں کیوں 16رکنی بنچ بنا دیں؟جسٹس امین الدین کا وکیل حامد خان سے استفسار
  • اہم آئینی مقدمہ: سپریم کورٹ میں 26ویں ترمیم کے قانونی جواز پر بحث شروع
  • سپریم کورٹ، 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر سماعت براہ راست نشر کرنے کی اجازت
  • سپریم کورٹ کا فیصلہ، 26ویں ترمیم کیس کی سماعت براہِ راست دکھائی جائے گی
  • سپریم کورٹ نے 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر سماعت براہ راست نشر کرنے کی اجازت دے دی
  • سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت شروع