بھارت کی کسی بھی جارحیت کا فوری اور فیصلہ کن جواب دیا جائے گا، کور کمانڈرز کانفرنس میں دوٹوک پیغام
اشاعت کی تاریخ: 8th, October 2025 GMT
چیف آف آرمی اسٹاف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی زیرصدارت کور کمانڈرز کانفرنس میں اس عزم کا اعادہ کیا گیا ہے کہ بھارت کی کسی بھی جارحیت کا فوری اور فیصلہ کن جواب دیا جائے گا۔ اب کی بار دشمن کی جغرافیائی برتری کے کسی بھی تصور کو نیست و نابود کردیں گے۔
آرمی چیف کی زیر صدارت 272ویں کور کمانڈرز کانفرنس میں دہشتگردی اور بھارتی اشتعال انگیزیوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا۔
اجلاس کا آغاز حالیہ دہشتگرد حملوں میں شہید ہونے والے جوانوں کے لیے فاتحہ خوانی سے ہوا، جن حملوں میں بھارتی سرپرستی میں کام کرنے والے دہشت گرد گروہوں کا ہاتھ تھا۔
آرمی چیف نے غیر ملکی پشت پناہی سے سرگرم دہشتگردوں کے خلاف جنگ اور حالیہ سیلاب کے بعد سول انتظامیہ و دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر کیے گئے ریسکیو و ریلیف آپریشنز میں پاک فوج کے جذبے، عزم اور حوصلے کو سراہا۔
فورم میں انسداد دہشتگردی آپریشنز، ابھرتے ہوئے خطرات اور آپریشنل تیاریوں کا جامع جائزہ لیا گیا۔
شرکا نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ مسلح افواج پاکستان کے دشمنوں کے تمام تر عزائم کو ہر سطح پر ناکام بنانے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔ دہشتگردی اور جرائم کا وہ گٹھ جوڑ جسے مخصوص سیاسی سرپرستی حاصل ہے اور جو ریاستی مفادات و عوامی سلامتی کے لیے شدید خطرہ بن چکا ہے، اب کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔
فورم نے بھارتی سیاسی و عسکری قیادت کی جانب سے حالیہ غیر ذمہ دارانہ، بلاجواز اور اشتعال انگیز بیانات پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔ شرکاء کا کہنا تھا کہ ایسی بیان بازی بھارت کی روایتی جنگی جنون کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرنے کی روش کا تسلسل ہے۔ اس طرح کی غیر ضروری جنگی مہم جوئی سے خطے میں کشیدگی بڑھے گی اور امن و سلامتی کو خطرہ لاحق ہو گا۔
فورم نے اس عزم کا اظہار کیا کہ بھارت کی کسی بھی جارحیت کا فوری اور فیصلہ کن جواب دیا جائے گا، تاکہ جغرافیے سے جڑی اُس کی خود ساختہ سلامتی کی خوش فہمی کو توڑا جا سکے۔ کسی بھی خیالی ’نیو نارمل‘ کو فوری اور مؤثر جواب کے نئے معمول سے جواب دیا جائے گا۔
شرکا نے اس عزم کا اظہار کیا کہ بھارتی پشت پناہی میں کام کرنے والے دہشت گرد نیٹ ورکس، جیسے فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان کے خلاف تمام شعبوں میں جامع انسداد دہشتگردی آپریشنز جاری رکھے جائیں گے۔
فورم نے پاکستان کی حالیہ اعلیٰ سطحی سفارتی سرگرمیوں کی اہمیت کو تسلیم کیا اور علاقائی و عالمی امن کے لیے اپنی وابستگی کو دہرایا۔
اجلاس میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والے تاریخی اسٹریٹجک مشترکہ دفاعی معاہدے کا خیر مقدم کیا گیا، جو اسٹریٹجک تعلقات کو مضبوط بنانے اور مختلف شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ بیرونی جارحیت کے خلاف مشترکہ ردعمل کے لیے ہے۔
یہ معاہدہ مشترکہ اقدار، باہمی احترام اور مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں امن و سلامتی کے لیے مشترکہ ویژن کی عکاسی کرتا ہے۔
فورم نے کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کے لیے پاکستان کی غیر متزلزل حمایت کو دہراتے ہوئے کہاکہ یہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق ہے۔
اسی طرح فلسطینی کاز کے لیے پاکستان کی غیر مشروط حمایت کا اعادہ بھی کیا گیا اور امید ظاہر کی گئی کہ غزہ میں جلد از جلد جنگ بندی ہو اور انسانی امداد کی فراہمی ممکن ہو۔
فورم نے مسئلہ فلسطین پر پاکستان کے اصولی مؤقف کی توثیق کرتے ہوئے دو ریاستی حل کی حمایت کا اعادہ کیا، جس میں 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مشتمل ایک خودمختار فلسطینی ریاست قائم کی جائے، جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔
اجلاس کے اختتامی کلمات میں آرمی چیف نے تمام کمانڈرز کو آپریشنل تیاری، نظم و ضبط، جسمانی فٹنس، جدت اور مؤثر ردعمل میں اعلیٰ ترین معیار برقرار رکھنے کی ہدایت کی۔
فیلڈ مارشل عاصم منیر نے اس امر پر مکمل اعتماد ظاہر کیا کہ پاک فوج مکمل طور پر تیار ہے اور روایتی، غیر روایتی، ہائبرڈ اور غیر متوازن خطرات سمیت ہر قسم کے خطرے سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews بھارت جارحیت فیلڈ مارشل عاصم منیر کور کمانڈرز کانفرنس وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بھارت جارحیت فیلڈ مارشل عاصم منیر کور کمانڈرز کانفرنس وی نیوز کور کمانڈرز کانفرنس جواب دیا جائے گا کا اظہار کیا اس عزم کا فوری اور بھارت کی کا اعادہ فورم نے کیا گیا کسی بھی کے لیے کیا کہ
پڑھیں:
آئی ایم ایف کا ریاستی اداروں میں کرپشن کے خطرات پر اصلاحاتی ایجنڈا فوری شروع کرنے کا مطالبہ
عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے اپنی طویل انتظار کی جانے والی گورننس اور کرپشن ڈائگناسٹک اسیسمنٹ (جی سی ڈی اے) میں پاکستان میں بدعنوانی کے مستقل چیلنجز کو اجاگر کیا ہے، جو ریاستی اداروں میں موجود نظام کی کمزوریوں سے پیدا ہوتے ہیں، شفافیت، انصاف اور دیانتداری میں بہتری کے لیے 15 نکاتی اصلاحاتی ایجنڈا فوراً شروع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
نجی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق اس رپورٹ کی اشاعت اگلے ماہ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ سے 1.2 ارب ڈالر کی قسط کی منظوری کے لیے شرط قرار دی گئی ہے، جس کے مطابق پاکستان آئندہ 3 سے 6 ماہ کے اندر گورننس اصلاحات کا پیکج نافذ کرے تو 5 سال میں معاشی ترقی کی شرح میں تقریباً 5 سے 6.5 فیصد اضافہ ہوسکتا ہے۔
جی سی ڈی اے میں چند بااثر سرکاری اداروں کو سرکاری ٹھیکوں میں دی جانے والی خصوصی رعایتیں ختم کرنے، اور خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی ) کے معاملات اور فیصلہ سازی میں شفافیت یقینی بنانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
مزید برآں، رپورٹ میں حکومت کے مالیاتی اختیارات پر سخت حدود کا تقاضا کیا گیا ہے، جن کے لیے زیادہ پارلیمانی نگرانی ضروری ہے اور اینٹی کرپشن اداروں کی تنظیمِ نو کی سفارش بھی کی گئی ہے، حکومت نے یہ رپورٹ اگست سے روک رکھی تھی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک متحدہ موضوع یہ ہے کہ پالیسی سازی، اس پر عمل درآمد اور نگرانی میں شفافیت اور احتساب میں اضافہ کیا جائے، اس میں معلومات تک بہتر رسائی اور ریاستی و غیر ریاستی اسٹیک ہولڈرز کی صلاحیت بڑھانا شامل ہے تاکہ وہ گورننس اور معاشی فیصلہ سازی میں مؤثر کردار ادا کر سکیں۔
رپورٹ کے مطابق اگر پاکستان، جی سی ڈی اے کی سفارشات کے مطابق گورننس، احتساب اور دیانتداری میں بہتری لاتا ہے تو اسے نمایاں معاشی فوائد حاصل ہوسکتے ہیں، پاکستان 5 سال کے دوران گورننس اصلاحات کا پیکج نافذ کر کے جی ڈی پی میں 5 سے 6.5 فیصد اضافہ کر سکتا ہے۔
اہم شعبوں میں گورننس اور انسداد بدعنوانی، کاروباری ضابطہ کاری اور بیرونی تجارت کی ریگولیشن میں بہتری شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف اور حکومت دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ کرپشن کے خطرات سے نمٹنا پائیدار اصلاحات کے لیے ضروری ہے اور انسدادِ بدعنوانی کی کوششیں تب ہی مؤثر ہوتی ہیں جب گورننس کو مضبوط بنانے اور براہِ راست کرپشن سے نمٹنے کے اقدامات کو یکجا کیا جائے۔
اشاریوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وقت کے ساتھ کرپشن پر کنٹرول کمزور ہوا ہے، جس سے عوامی اخراجات کی کارکردگی، محصولات کے حصول اور عدالتی نظام پر اعتماد بری طرح متاثر ہوا ہے۔
جی سی ڈی اے نے ریاستی افعال میں نظام کی کمزوریوں کو بے نقاب کیا اور بتایا کہ پاکستان بجٹ سازی اور مالیاتی معلومات کی رپورٹنگ، سرکاری مالی و غیر مالی وسائل کے انتظام، خصوصاً ترقیاتی اخراجات، سرکاری خریداری اور ریاستی ملکیتی اداروں (ایس او ایز) کی نگرانی میں موجود خامیوں کی وجہ سے کرپشن کے خطرات سے دوچار ہے۔
اس میں یہ بھی نشاندہی کی گئی کہ پاکستان کا ٹیکس نظام حد سے زیادہ پیچیدہ اور غیر شفاف ہے، جسے ایسے ٹیکس اور کسٹم ادارے چلاتے ہیں جن کی صلاحیت، انتظام اور نگرانی ناکافی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ عدالتی شعبہ تنظیمی طور پر پیچیدہ ہے، معاہدوں پر عملدرآمد یا جائیداد کے حقوق کا تحفظ مؤثر طریقے سے نہیں کر سکتا، جس کی وجہ اس کی کارکردگی کے مسائل، فرسودہ قوانین اور ججوں اور عدالتی عملے کی دیانت داری سے متعلق خدشات ہیں۔
آئی ایم ایف نے مطالبہ کیا کہ تمام سرکاری خریداریوں میں ریاستی اداروں (ایس او ایز) کو دی جانے والی ترجیحات، بشمول براہِ راست ٹھیکے دینے کی خصوصی دفعات ختم کی جائیں، 12 ماہ کے اندر تمام سرکاری لین دین کے لیے ای-گورننس پروکیورمنٹ کا استعمال لازمی بنایا جائے۔
رپورٹ میں ایس آئی ایف سی کی پہلی سالانہ رپورٹ فوراً تیار کرنے اور عوام کے سامنے پیش کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے، جس میں اس کے ذریعے کرائی گئی تمام سرمایہ کاریوں، دی گئی مراعات (ٹیکس، پالیسی، ضابطہ جاتی یا قانونی)، تفصیلی جواز اور نتائج شامل ہوں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ایس آئی ایف سی کے وسیع اور متنوع اختیارات کے پیش نظر ضروری ہے کہ وہ اپنے کاموں کے لیے واضح طریقۂ کار تیار کرے اور شفافیت بڑھائی جائے تاکہ مؤثر نگرانی اور احتساب ممکن ہو سکے۔
رپورٹ نے ایس آئی ایف سی کے قیام اور اس کے عملے کو فیصلوں میں حاصل استثنیٰ پر بھی سوالات اٹھائے، بتایا گیا کہ کونسل سرمایہ کاری اور نجکاری کی رفتار بڑھانے کے لیے سرمایہ کاری بورڈ (بی او آئی) کے قانون میں ترمیم کے ذریعے قائم کی گئی، لیکن بی او آئی اب بھی موجود ہے۔
رپورٹ کے مطابق بدعنوانی کے خطرات کا مالیاتی کارکردگی پر بھی گہرا اثر پڑتا ہے، دیگر عوامل کے باوجود پاکستان کا ٹیکس-جی ڈی پی تناسب کم اور گرتا ہوا ہے، جس کی اہم وجوہات ٹیکس نظام کی پیچیدگی، قواعد میں بار بار تبدیلی اور حکومت پر کم عوامی اعتماد ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومت کے پاس عوامی وسائل کے استعمال میں وسیع صوابدیدی اختیارات موجود ہیں، کیونکہ بجٹ میں منظور شدہ رقوم اور اصل اخراجات میں بڑا فرق ہے، جب کہ بجٹ امور میں عوامی شفافیت اور پارلیمانی شمولیت محدود ہے۔
صوابدیدی رقوم زیادہ تر ان اضلاع کو دی جاتی ہیں، جن کی نمائندگی حکومت یا اعلیٰ بیوروکریسی کرتی ہے، جس سے سیاسی اثر و رسوخ کا امکان بڑھ جاتا ہے، اس کا نتیجہ عوامی سرمایہ کاری پر کم منافع کی صورت میں نکلتا ہے۔