تجزیہ کار شاہ زیب خانزادہ نے علی امین گنڈا پور کو وزارت اعلیٰ کے عہدے سے ہٹائے جانے کی وجہ بتادی
اشاعت کی تاریخ: 8th, October 2025 GMT
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)معروف تجزیہ کار شاہ زیب خانزادہ نے علی امین گنڈاپور کو وزارت اعلیٰ کے عہدے سے ہٹائے جانے کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ علیمہ خان اور علی امین گنڈاپور کے اختلافات کافی عرصے سے تھے، علی امین گنڈاپور خطرے میں تھے ان کے خلاف کافی مواد جمع ہوگیا تھا، جب انہوں نے علیمہ خان کے خلاف شکایت کی تو جوابی طور پر علیمہ نے ان کی شکایت کی جس پر انہیں عہدے سے ہٹانا پڑا۔
شاہ ز یب خانزادہ کا کہنا ہے کہ علی امین گنڈاپور نے بانی پی ٹی آئی کے سامنے ان کی بہن پر الزامات لگائے، سوشل میڈیا پر علیمہ خان کے خلاف مہم چلائی گئی جبکہ دوسری طرف علی امین گنڈاپور کے خلاف بھی مہم چلائی گئی۔
بانی پی ٹی آئی لوگوں کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرتے ہیں، یہی تاریخ علی امین گنڈاپور کے ساتھ بھی دہرائی جا رہی ہے، طارق فضل چوہدری
انہوں نے کہا کہ علی امین گنڈاپور ٹھیک طرح سے صوبہ نہیں چلا پا رہے تھے، بانی پی ٹی آئی بھی اچھی گورننس نہیں کرسکے، گورننس پر بالکل بھی توجہ نہیں دی گئی۔شاہ زیب خانزادہ نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف اس وقت مشکلات میں گھری ہوئی ہے، بانی پی ٹی آئی جیل میں ہیں جبکہ باہر موجود رہنما ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں، ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کے جیل میں ہونے سے پارٹی تتر بتر نظر آرہی ہے، ان کے خاندان پر بھی الزامات لگائے جارہے ہیں۔
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: علی امین گنڈاپور بانی پی ٹی ا ئی کے خلاف کہا کہ
پڑھیں:
الیکشن کمشن: سہیل آفریدی نے وکیل بھیج دیا، پھر طلب، رانا ثنا، طلال سمیت کئی کو بلاوا
اسلام آباد‘ پشاور (وقائع نگار+ بیورو رپورٹ+ نوائے وقت رپورٹ) الیکشن کمشن کی جانب سے ذاتی حیثیت میں طلب کیے جانے پر وزیراعلیٰ خیبر پی کے سہیل آفریدی نے وکیل کو بھیج دیا۔ وزیراعلیٰ کے پی کے سہیل آفریدی کی جانب سے مبینہ طور پر سرکاری ملازمین کو دھمکیوں اور ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے معاملے پر وکیل علی بخاری الیکشن کمشن میں پیش ہوئے۔ چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں 4 رکنی بینچ کے روبرو ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے بھی پیش ہوئے۔ وکیل علی بخاری نے بینچ کو آگاہ کیا کہ ایک ہی وقت میں ڈی آر او نے نوٹس کر رکھا ہے۔ ایک ہی وقت میں 2 جگہ سے نوٹسز ہوئے ہیں۔ الیکشن کمیشن بینچ کے ممبر کے پی کے نے ریمارکس دیے کہ جو یہاں پیش نہیں ہوئے وہ وہاں کون سا پیش ہوئے ہوں گے؟۔ علی بخاری نے کہا کہ یہ بات کرنا زیادتی ہے۔ قانون کے مطابق میں وزیر اعلیٰ کی نمائندگی کررہا ہوں۔ چیف صاحب اپنے ممبر کو بتائیں کہ کیسے ریمارکس دینے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب جب آپ نے یہ کہہ دیا ہے تو کیا مجھے انصاف ملے گا؟۔ چیف الیکشن کمشن نے کہا کہ ہم نے وزیر اعلیٰ کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا ہے، جس پر وکیل نے بتایا کہ وزیراعلیٰ کی حاضری سے استثنا کی درخواست دی ہے، وہ ایک اجلاس میں ہیں۔ اس موقع پر سیکرٹری الیکشن کمیشن نے سہیل آفریدی کے خلاف کارروائی کی تفصیل بتائی کہ ضابطہ اخلاق کے تحت انتخابی مہم میں کوئی پبلک آفس ہولڈر شرکت نہیں کر سکتا۔ تشدد پر اکسانے یا دھمکانے کی بھی ممانعت ہے۔ حلقے سے امیدوار شہرناز عمر ایوب بھی برابر قصور وار ہیں۔ بعدازاں الیکشن کمیشن نے وزیر اعلیٰ خیبرپی کے کو آج کی عدم حاضری پر استثنا دے دیا۔ بعدازاں الیکشن کمیشن نے سماعت غیرمعینہ مدت تک ملتوی کردی۔ دوسری طرف وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی نے الیکشن کمیشن کی جانب سے خود کو طلب کرنے پر پشاور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کر دی۔ وزیراعلیٰ نے درخواست میں موقف اپنایا ہے کہ الیکشن کمیشن کا وزیر اعلیٰ کو طلب کرنا غیر قانونی ہے جبکہ یہ اقدام آرٹیکل 9، 10 اے، 17 اور 25 کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے درخواست میں واضح کیا کہ وزیر اعلیٰ نے نہ کسی کے لیے مہم چلائی اور نہ ہی الیکشن کمیشن کی کوئی خلاف ورزی کی ہے۔ درخواست میں استدعا کی گئی کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے طلبی کا نوٹس غیر قانونی قرار دیا جائے اور وزیر اعلیٰ کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی سے روکا جائے۔ الیکشن کمشن نے وفاقی وزیر اویس لغاری اور معاون خاص برائے وزیر اعظم حذیفہ رحمن کو نوٹس جاری کردیئے۔ مزید براں الیکشن کمشن نے انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر رانا ثناء اﷲ اور طلال چودھری کو 50, 50 ہزار روپے جرمانہ کر دیا ہے۔ ڈی ار آو کی جانب سے رانا ثناء اﷲ کو نوٹس جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ رانا ثناء نے پی پی 116 میں رانا شہریار کی ریلی میں شرکت کی اور خطاب کیا۔ نوٹس میں حکم دیا گیا کہ رانا ثناء اﷲ آج ڈی آر او کے سامنے پیش ہوں۔ مراسلہ میں کہا گیا کہ 2 نوٹسز کے باوجود طلال چودھری نے ضابطہ اخلاق کی پاسداری نہیں کی۔ الیکشن کمشن نے وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چودھری کو بھی 24 نومبر کو ذاتی حیثیت میں کیا ہے۔