ٹرمپ امن منصوبہ، امن یا حماس کے لیے سرنڈر کی شرط؟
اشاعت کی تاریخ: 9th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251009-03-6
دلشاد عالم
ایسا لمحہ جب غزہ کی مٹی خون اور ریت میں ملی ہوئی دکھائی دیتی ہے، دنیا پھر سے ایک کاغذی وعدے کے سائے تلے کھڑی ہے وہ وعدہ جسے ڈونلڈ ٹرمپ نے بن یامین نیتن یاہو کے ساتھ مل کر ۲۰ نکاتی امن منصوبہ کہا۔ یہ منصوبہ آدھے ٹکڑوں پر رکھے گئے خوابوں اور ہزاروں گھروں کی تباہی کے سامنے کیا گیا ایک ’’صلح نامہ‘‘ ہے، یا حقیقتاً حماس کے لیے ایک ایسی شرط جسے قبول کرنے پر اسے اپنی روح بیچنی پڑے؟ اس سوال کا جواب ضروری ہے۔
’’۲۰ نکاتی امن منصوبہ‘‘ جسے ٹرمپ نے اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو کے تعاون سے پیش کیا ہے، اس کا مقصد غزہ میں جنگ بندی، حماس کی عسکری قوت کو ختم کرنا، اور ایک عبوری انتظامی نظام قائم کرنا ہے۔ وہ نکات پورے طور پر ہر میڈیا میں شائع نہیں ہوئے، لیکن ویکی پیڈیا نے ان کا متن پیش کیا ہے۔ ذیل میں وہ نکات اور ان کی تشریح ہے۔
1۔ غزہ کو ’’غیر انتہا پسندی اور دہشت سے پاک‘‘ علاقہ بنایا جائے گا۔ 2۔ غزہ کی ترقی اور بحالی، عوام کی فلاح کے لیے۔ 3۔ اگر دونوں فریق اس منصوبے پر متفق ہوں، جنگ فوری طور پر بند کی جائے گی، اور اسرائیلی افواج مخصوص حدود تک واپس جائیں گی۔ 4۔ اسرائیل کی طرف سے اس معاہدے کو قبول کرنے کے ۷۲ گھنٹوں کے اندر اندر تمام یرغمالیوں کو (زندہ یا مردہ) واپس کیا جائے۔ 5۔ یرغمالیوں کے بدلے، اسرائیل ۲۵۰ عمر قید کے قیدی اور تقریباً ۱۷۰۰ غزہ کے قیدی چھوڑے گا، جن میں خواتین اور بچے شامل ہوں۔ 6۔ اگر حماس اپنے اسلحے کو ترک کر دے اور پر امن بقائے باہمی تسلیم کرے، تو اسے معافی دی جائے گی۔ وہ افراد جو غزہ چھوڑنا چاہیں گے، انہیں محفوظ راستے دیے جائیں گے۔ 7۔ اس معاہدے کے قبول ہونے پر، غزہ میں انسانی امداد فوراً داخل کی جائے گی، اور بنیادی ڈھانچے (پانی، بجلی، اسپتال وغیرہ) کی بحالی کی جائے گی۔ 8۔ امداد کی تقسیم اور انفرا اسٹرکچر بحالی کی نگرانی اقوام متحدہ اور غیر جانبدار اداروں کو ہوگی، نہ کہ فریقین کو۔ 9۔ غزہ کا انتظام ایک عبوری ’’ٹیکنوکریٹک، غیر سیاسی‘‘ کمیٹی کے ذریعے کیا جائے گی، جو بین الاقوامی ’’بورڈ آف پیس‘‘ کے تحت کام کرے گی، جس کی صدارت ٹرمپ کریں گے اور دیگر ممالک کے نمائندے شامل ہوں گے۔ 10۔ ٹرمپ ایک اقتصادی منصوبہ بنائیں گے تاکہ غزہ کو دوبارہ استحکام دیا جائے، سرمایہ کاری لائی جائے، روزگار پیدا کیا جائے۔ 11۔ ایک ’’خصوصی اقتصادی زون‘‘ قائم کیا جائے گا، جس میں تجارتی مراعات ہوں گی۔ 12۔ کسی کو غزہ سے نکالنے کا زبردستی منصوبہ نہیں ہوگا، اور جو چاہیں نکل جائیں گے اور واپس بھی آ سکیں گے۔ 13۔ حماس اور دیگر گروہ حکومت میں حصہ نہیں لیں گے، اور ان کا عسکری ڈھانچہ ختم کیا جائے گا۔ 14۔ اسلحہ بندی کو بین الاقوامی نگران اداروں کی نگرانی سے غیر فعال کیا جائے گا، اور اسلحے کو واپس لیا جائے گا یا غیر مؤثر بنایا جائے گا۔ 15۔ علاقائی شراکت دار اس امر کی ضمانت دیں گے کہ حماس کے وہ ارکان جو باقی رہیں، اپنے وعدے پورے کریں۔ 16۔ امریکا عرب اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ ایک عارضی ’’انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس (ISF)‘‘ بنائے گا، جو غزہ میں امن کی نگرانی کرے گی، مقامی پولیس کی تربیت کرے گی اور سرحدی تحفظ میں اسرائیل و مصر کے ساتھ تعاون کرے گی۔ 17۔ اسرائیل غزہ پر قبضہ یا الحاق نہیں کرے گا، اور جب حالات بہتر ہوں، افواج بتدریج واپس جائیں گی، بشرطیکہ سیکورٹی یقینی ہو۔ 18۔ اگر حماس اس معاہدے کو قبول کرنے میں دیر کرے یا اسے رد کرے، تو معاہدے کی کچھ شقیں، مثلاً امداد کا عمل، آزاد علاقوں میں نافذ ہوں گی۔ 19۔ ایک بین المذاہب مکالمے کا عمل تشکیل دیا جائے، تاکہ دونوں اطراف کے ذہن بدلے جائیں اور پر امن بقائے باہمی کی سوچ فروغ پائے۔ 20۔ جب غزہ کی ترقی اور پاکیزگی مکمل ہو جائے، اور فلسطینی اتھارٹی اصلاحات کامیاب ہو جائیں، تو ایک قابل اعتماد راستہ بنایا جائے جو فلسطینی قوم کو ریاستی خود ارادیت تک پہنچا سکے۔
یہ وہ نکات ہیں جنہیں میڈیا اور ویکی پیڈیا نے ایک ساتھ جمع کیا ہے۔ ممکن ہے اصل دستاویز میں اور نکات ہوں، یا اس میں کچھ ترمیم ہو، لیکن یہ وہ نکات ہیں جو عوامی سطح پر دستیاب ہیں۔ کیا یہ ’’سرنڈر‘‘ ہیں یا ’’عمل کرنے کی دعوت؟‘‘ یہ سوال بہت اہم ہے: کیا یہ منصوبہ اصطلاحاً حماس کے سامنے ایک ایسی ڈیل ہے کہ وہ مجبوراً ہتھیار ڈالے (یعنی سرنڈر) یا یہ ایک سیاسی؍عملی تجویز ہے جسے وہ تسلیم کرسکے؟ میری رائے اور تجزیے ناظرِ عام اور ذرائع ِ اطلاعات کی بنیاد پر یہ ہیں: یہ ایک قسم کا سرنڈر کا دباؤ ہے۔ بہت سے نکات اور ایسی شقیں ہیں جو حماس کے عسکری وجود کو کمزور یا ختم کرنے کی خواہش پر مبنی ہیں: اسلحے کی ضبطی، جنگی ڈھانچے کا خاتمہ، انہیں حکومت سے الگ کرنا، ان کے بعض کارکنوں کو معافی دینا اگر وہ ہتھیار ڈالیں۔ یہ واضح ’’شرائط ِ تسلیم ِ کمزور‘‘ ہیں۔
معاہدے کا بنیادی ڈھانچہ یہ کہتا ہے کہ اگر حماس نہ مانے تو ’’تھوڑا بہت عمل پہلے کیا جائے گا‘‘ یعنی یہ پیش رفت اس شرط پر منحصر ہوگی کہ حماس قبول کرے۔ میڈیا تجزیے یہ بتاتے ہیں کہ یہ منصوبہ اسرائیل اور امریکا دونوں کے موقف کو مضبوط کرنے کی کوشش ہے، اور ممکن ہے کہ حماس پر معاشی و عسکری دباؤ ڈالنے کا ایک حربہ ہے۔ چونکہ نکات میں بہت سی ایسی شقیں ہیں جو عملی طور پر حماس کی مکمل تحلیل کا تقاضا کرتی ہیں، یہ آسان نہیں کہ وہ ’’عمل‘‘ کی شکل میں قبول کر لے بغیر یہ ایک طرح کا سرنڈر ہو جائے۔ مگر یہ صرف ’’سخت دعوت‘‘ ہے، مکمل سرنڈر نہیں۔ اگر آپ غور کریں، بہت سی شقیں ایسی ہیں کہ وہ ’’اگر حماس قبول کرے‘‘ کی شروعاتی مرحلے میں ہیں۔ یعنی تسلیم کرنے کے بعد مرحلہ وار عمل ہوگا (مثلاً پہلے جنگ بندی، پھر تبادلہ، پھر بحالی، پھر عبوری انتظام وغیرہ)۔ اس لحاظ سے یہ ایک مکمل فوراً سرنڈر کی شق نہیں بلکہ مرحلہ وار عمل ہے۔ اس منصوبے میں حماس کو معافی دینے کی شرط دی گئی ہے بشرطیکہ وہ ہتھیار ڈال دے، اور اس کے کارکنوں کو محفوظ راستہ دیا جائے، یعنی سب کو سزا نہ دی جائے۔ یہ تھوڑی لچک کی شق ہے۔ تاہم، اس کا توازن زیادہ تر طاقتور فریق (اسرائیل و امریکا) کے حق میں ہے۔ لہٰذا، یہ کہنا درست ہوگا کہ یہ منصوبہ سرنڈر کی ایک شدید دعوت ہے یعنی ایک ایسی ڈیل جسے قبول کرنے کی صورت میں حماس کو اپنی عسکری اور سیاسی قوتوں سے دستبردار ہونا پڑے گا مگر اس میں کچھ ’’عملی مرحلے‘‘ بھی ہیں کہ تسلیم کرنے کے بعد کیا کرنا ہے، اور وہ ایک ’’سیدھی جنگ بندی سے حکومت کا عبوری کنٹرول تک‘‘ کا راستہ ہے۔ کیا یہ امن لائے گی؟ یا شکست ہے؟ یہ بہت بڑا سوال ہے، اور اس کا جواب ’’ہاں یا نہیں‘‘ نہیں ہو سکتا امکان، رکاوٹیں، خطرات، اور سیاسی حقیقتیں مل کر فیصلہ کریں گی۔ ذیل میں وہ عوامل ہیں جو فیصلہ کریں گے۔
عالمی اور عرب ممالک کی شمولیت و ضمانت: اگر عرب ریاستیں (مصر، قطر، سعودی عرب، امارات وغیرہ) اس منصوبے کی مالی، سیاسی اور حفاظتی ضمانت دیں، تو اس کا بہت وزن ہوگا۔ اگر حقیقت میں بہت بڑا بجٹ غزہ کی بحالی، انفرا اسٹرکچر کی تعمیر، روزگار بنانے پر خرچ ہو، عوام کی زندگی بہتر بنے، تو امن کا مادہ مضبوط ہوگا۔ نظام نگرانی اور قیام سلامتی فورس کا مؤثر کردار؛ اگر ’’انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس (ISF)‘‘ واقعی مؤثر طور پر کام کرے، سرحدی کنٹرول ہو، اسلحہ داخلہ روکا جائے، نظریہ جنگ پسندی محدود ہو جائے تو امن ممکن ہے۔ حماس اور دیگر گروہوں کی شمولیت یا کم از کم عدم مزاحمت؛ اگر حماس کو مکمل خارج کرنے کے بجائے اسے سیاسی عمل میں حصہ دینے کی گنجائش ملے، یا اسے مکمل شکست نہ دی جائے، تو اس کا استحکام ممکن ہوگا۔
اگر نکات کا ۱۹ واں نکتہ بین المذاہب مکالمہ واقعی عملی شکل اختیار کرے، اور دونوں فریق اپنے نظریات بدلنے کی کوشش کریں، تو امن کی جڑ مضبوط ہو سکتی ہے۔ عوامل جو ممکن ہے اسے شکست کی طرف لے جائیں۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کیا جائے گا قبول کرنے یہ منصوبہ اگر حماس جائے گی کرنے کے وہ نکات ممکن ہے کرنے کی حماس کے قبول کر اور اس ہیں کہ غزہ کی یہ ایک ہیں جو کرے گی
پڑھیں:
اترپردیش میں انتظامیہ نے 80 مکانات اور ایک مسجد پر بلڈوزر کارروائی کا منصوبہ بنایا
تحصیلدار نے واضح کیا کہ اگر مسجد قانونی اور منظور شدہ دستاویزات پیش کرنے میں ناکام رہتی ہے تو تالاب کی زمین پر کوئی بھی ڈھانچہ چاہے وہ مسجد ہو یا کوئی اور قانونی طریقہ کار کے مطابق گرا دیا جائیگا۔ اسلام ٹائمز۔ اترپردیش کے سنبھل کے صدر تحصیل کے محلہ حاتم سرائے علاقہ میں انتظامیہ تقریباً 80 مکانات اور ایک مسجد کو بلڈوز سے گرانے کی تیاری کر رہی ہے۔ انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ لینڈ مافیا نے غیر مجاز پلاٹنگ میں مصروف عمل ہے۔ سب کو نوٹس جاری کر دئے گئے ہیں، کچھ گھروں کے لئے 26 ستمبر کو اور مسجد سمیت کئی دیگر تعمیرات کے لئے 30 ستمبر کو نوٹسز شائع کئے گئے تھے۔ انتظامیہ نے تمام سے 15 دن میں جواب طلب کر لیا ہے۔ تحصیلدار دھریندر پرتاپ سنگھ نے بتایا کہ اگر مسجد یا دیگر لوگوں سے تسلی بخش جواب نہیں ملتا ہے تو بلڈوزر کا استعمال کیا جائے گا۔
تحصیلدار دھریندر پرتاپ سنگھ کے مطابق سرکاری تالاب 8 بیگھوں پر محیط ہے۔ اس زمین پر تقریباً 12-13 سال پہلے ایک بڑی مسجد بنائی گئی تھی۔ تاہم جب اکاؤنٹنٹ معائنہ کے لئے پہنچے تو کسی نے مسجد کی تعمیر کی ذمہ داری قبول نہیں کی اور نہ ہی اس کے ٹرسٹی ہونے کا دعویٰ کیا، چنانچہ مسجد پر نوٹس لگا دیا گیا۔ تحصیلدار نے واضح کیا کہ اگر مسجد قانونی اور منظور شدہ دستاویزات پیش کرنے میں ناکام رہتی ہے تو تالاب کی زمین پر کوئی بھی ڈھانچہ چاہے وہ مسجد ہو یا کوئی اور قانونی طریقہ کار کے مطابق گرا دیا جائے گا۔
سنبھل انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ یہ زمین پہلے تالاب کے طور پر رجسٹرڈ تھی، لیکن اسے لینڈ مافیا نے غیر قانونی طور پر پلاٹ کر کے معصوم لوگوں کو بیچ دیا تھا۔ یہ دلالوں اور لینڈ مافیا کی ملی بھگت تھی۔ بہت سے خاندانوں نے بھروسہ کرتے ہوئے رقم ادا کی۔ تحصیلدار نے کہا کہ ناجائز قابضین کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا اور جن لوگوں کو زمین فروخت کی گئی ان کی بھی تصدیق کی جائے گی۔ انتظامیہ نے اکاؤنٹنٹ کی ٹیم کو تحقیقات میں تیزی لانے کی ہدایت کی ہے۔ تحصیلدار نے عوام سے اپیل کی ہے کہ جو بھی اس طرح کی اراضی کی خریداری میں ملوث ہے وہ فوری طور پر اپنے کاغذات اور شکایات تحصیل میں جمع کرائیں۔ تحصیلدار دھریندر پرتاپ سنگھ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ قواعد کے خلاف غیر مجاز تجاوزات کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
انتظامیہ کے مطابق سرکاری تالاب کی زمین پر بنائے گئے 80 گھروں کو 15 دن کا نوٹس جاری کر دیا گیا ہے۔ کچھ گھر باقی ہیں، ابھی نوٹسز کے ساتھ پیش کیا جانا ہے۔ ان کو بھی جلد دائرہ کار میں لایا جائے گا۔ یہاں بنی مسجد کے متولی کے نام ایک نوٹس چسپاں کیا گیا ہے۔ تحصیلدار نے واضح طور پر کہا کہ اگر 15 دن کے اندر جواب نہ آیا تو بلڈوزر کارروائی کی جائے گی، چاہے اس علاقے میں مکانات ہوں یا مذہبی مقامات۔ دوسری جانب تحصیل انتظامیہ کے نوٹس پر کہرام مچ گیا ہے۔ واضح رہے کہ حاتم سرائے علاقہ ایس پی ایم پی ضیاء الرحمن برق اور ایس پی ایم ایل اے اقبال محمود کا گڑھ سمجھا جاتا ہے، کیونکہ یہ علاقہ ایس پی ایم پی اور ایس پی ایم ایل اے کی رہائش گاہوں کے درمیان واقع ہے۔