Jasarat News:
2025-11-23@10:53:18 GMT

ٹرمپ امن منصوبہ، امن یا حماس کے لیے سرنڈر کی شرط؟

اشاعت کی تاریخ: 9th, October 2025 GMT

ٹرمپ امن منصوبہ، امن یا حماس کے لیے سرنڈر کی شرط؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251009-03-6
دلشاد عالم
ایسا لمحہ جب غزہ کی مٹی خون اور ریت میں ملی ہوئی دکھائی دیتی ہے، دنیا پھر سے ایک کاغذی وعدے کے سائے تلے کھڑی ہے وہ وعدہ جسے ڈونلڈ ٹرمپ نے بن یامین نیتن یاہو کے ساتھ مل کر ۲۰ نکاتی امن منصوبہ کہا۔ یہ منصوبہ آدھے ٹکڑوں پر رکھے گئے خوابوں اور ہزاروں گھروں کی تباہی کے سامنے کیا گیا ایک ’’صلح نامہ‘‘ ہے، یا حقیقتاً حماس کے لیے ایک ایسی شرط جسے قبول کرنے پر اسے اپنی روح بیچنی پڑے؟ اس سوال کا جواب ضروری ہے۔

’’۲۰ نکاتی امن منصوبہ‘‘ جسے ٹرمپ نے اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو کے تعاون سے پیش کیا ہے، اس کا مقصد غزہ میں جنگ بندی، حماس کی عسکری قوت کو ختم کرنا، اور ایک عبوری انتظامی نظام قائم کرنا ہے۔ وہ نکات پورے طور پر ہر میڈیا میں شائع نہیں ہوئے، لیکن ویکی پیڈیا نے ان کا متن پیش کیا ہے۔ ذیل میں وہ نکات اور ان کی تشریح ہے۔

1۔ غزہ کو ’’غیر انتہا پسندی اور دہشت سے پاک‘‘ علاقہ بنایا جائے گا۔ 2۔ غزہ کی ترقی اور بحالی، عوام کی فلاح کے لیے۔ 3۔ اگر دونوں فریق اس منصوبے پر متفق ہوں، جنگ فوری طور پر بند کی جائے گی، اور اسرائیلی افواج مخصوص حدود تک واپس جائیں گی۔ 4۔ اسرائیل کی طرف سے اس معاہدے کو قبول کرنے کے ۷۲ گھنٹوں کے اندر اندر تمام یرغمالیوں کو (زندہ یا مردہ) واپس کیا جائے۔ 5۔ یرغمالیوں کے بدلے، اسرائیل ۲۵۰ عمر قید کے قیدی اور تقریباً ۱۷۰۰ غزہ کے قیدی چھوڑے گا، جن میں خواتین اور بچے شامل ہوں۔ 6۔ اگر حماس اپنے اسلحے کو ترک کر دے اور پر امن بقائے باہمی تسلیم کرے، تو اسے معافی دی جائے گی۔ وہ افراد جو غزہ چھوڑنا چاہیں گے، انہیں محفوظ راستے دیے جائیں گے۔ 7۔ اس معاہدے کے قبول ہونے پر، غزہ میں انسانی امداد فوراً داخل کی جائے گی، اور بنیادی ڈھانچے (پانی، بجلی، اسپتال وغیرہ) کی بحالی کی جائے گی۔ 8۔ امداد کی تقسیم اور انفرا اسٹرکچر بحالی کی نگرانی اقوام متحدہ اور غیر جانبدار اداروں کو ہوگی، نہ کہ فریقین کو۔ 9۔ غزہ کا انتظام ایک عبوری ’’ٹیکنوکریٹک، غیر سیاسی‘‘ کمیٹی کے ذریعے کیا جائے گی، جو بین الاقوامی ’’بورڈ آف پیس‘‘ کے تحت کام کرے گی، جس کی صدارت ٹرمپ کریں گے اور دیگر ممالک کے نمائندے شامل ہوں گے۔ 10۔ ٹرمپ ایک اقتصادی منصوبہ بنائیں گے تاکہ غزہ کو دوبارہ استحکام دیا جائے، سرمایہ کاری لائی جائے، روزگار پیدا کیا جائے۔ 11۔ ایک ’’خصوصی اقتصادی زون‘‘ قائم کیا جائے گا، جس میں تجارتی مراعات ہوں گی۔ 12۔ کسی کو غزہ سے نکالنے کا زبردستی منصوبہ نہیں ہوگا، اور جو چاہیں نکل جائیں گے اور واپس بھی آ سکیں گے۔ 13۔ حماس اور دیگر گروہ حکومت میں حصہ نہیں لیں گے، اور ان کا عسکری ڈھانچہ ختم کیا جائے گا۔ 14۔ اسلحہ بندی کو بین الاقوامی نگران اداروں کی نگرانی سے غیر فعال کیا جائے گا، اور اسلحے کو واپس لیا جائے گا یا غیر مؤثر بنایا جائے گا۔ 15۔ علاقائی شراکت دار اس امر کی ضمانت دیں گے کہ حماس کے وہ ارکان جو باقی رہیں، اپنے وعدے پورے کریں۔ 16۔ امریکا عرب اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ ایک عارضی ’’انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس (ISF)‘‘ بنائے گا، جو غزہ میں امن کی نگرانی کرے گی، مقامی پولیس کی تربیت کرے گی اور سرحدی تحفظ میں اسرائیل و مصر کے ساتھ تعاون کرے گی۔ 17۔ اسرائیل غزہ پر قبضہ یا الحاق نہیں کرے گا، اور جب حالات بہتر ہوں، افواج بتدریج واپس جائیں گی، بشرطیکہ سیکورٹی یقینی ہو۔ 18۔ اگر حماس اس معاہدے کو قبول کرنے میں دیر کرے یا اسے رد کرے، تو معاہدے کی کچھ شقیں، مثلاً امداد کا عمل، آزاد علاقوں میں نافذ ہوں گی۔ 19۔ ایک بین المذاہب مکالمے کا عمل تشکیل دیا جائے، تاکہ دونوں اطراف کے ذہن بدلے جائیں اور پر امن بقائے باہمی کی سوچ فروغ پائے۔ 20۔ جب غزہ کی ترقی اور پاکیزگی مکمل ہو جائے، اور فلسطینی اتھارٹی اصلاحات کامیاب ہو جائیں، تو ایک قابل اعتماد راستہ بنایا جائے جو فلسطینی قوم کو ریاستی خود ارادیت تک پہنچا سکے۔

یہ وہ نکات ہیں جنہیں میڈیا اور ویکی پیڈیا نے ایک ساتھ جمع کیا ہے۔ ممکن ہے اصل دستاویز میں اور نکات ہوں، یا اس میں کچھ ترمیم ہو، لیکن یہ وہ نکات ہیں جو عوامی سطح پر دستیاب ہیں۔ کیا یہ ’’سرنڈر‘‘ ہیں یا ’’عمل کرنے کی دعوت؟‘‘ یہ سوال بہت اہم ہے: کیا یہ منصوبہ اصطلاحاً حماس کے سامنے ایک ایسی ڈیل ہے کہ وہ مجبوراً ہتھیار ڈالے (یعنی سرنڈر) یا یہ ایک سیاسی؍عملی تجویز ہے جسے وہ تسلیم کرسکے؟ میری رائے اور تجزیے ناظرِ عام اور ذرائع ِ اطلاعات کی بنیاد پر یہ ہیں: یہ ایک قسم کا سرنڈر کا دباؤ ہے۔ بہت سے نکات اور ایسی شقیں ہیں جو حماس کے عسکری وجود کو کمزور یا ختم کرنے کی خواہش پر مبنی ہیں: اسلحے کی ضبطی، جنگی ڈھانچے کا خاتمہ، انہیں حکومت سے الگ کرنا، ان کے بعض کارکنوں کو معافی دینا اگر وہ ہتھیار ڈالیں۔ یہ واضح ’’شرائط ِ تسلیم ِ کمزور‘‘ ہیں۔

معاہدے کا بنیادی ڈھانچہ یہ کہتا ہے کہ اگر حماس نہ مانے تو ’’تھوڑا بہت عمل پہلے کیا جائے گا‘‘ یعنی یہ پیش رفت اس شرط پر منحصر ہوگی کہ حماس قبول کرے۔ میڈیا تجزیے یہ بتاتے ہیں کہ یہ منصوبہ اسرائیل اور امریکا دونوں کے موقف کو مضبوط کرنے کی کوشش ہے، اور ممکن ہے کہ حماس پر معاشی و عسکری دباؤ ڈالنے کا ایک حربہ ہے۔ چونکہ نکات میں بہت سی ایسی شقیں ہیں جو عملی طور پر حماس کی مکمل تحلیل کا تقاضا کرتی ہیں، یہ آسان نہیں کہ وہ ’’عمل‘‘ کی شکل میں قبول کر لے بغیر یہ ایک طرح کا سرنڈر ہو جائے۔ مگر یہ صرف ’’سخت دعوت‘‘ ہے، مکمل سرنڈر نہیں۔ اگر آپ غور کریں، بہت سی شقیں ایسی ہیں کہ وہ ’’اگر حماس قبول کرے‘‘ کی شروعاتی مرحلے میں ہیں۔ یعنی تسلیم کرنے کے بعد مرحلہ وار عمل ہوگا (مثلاً پہلے جنگ بندی، پھر تبادلہ، پھر بحالی، پھر عبوری انتظام وغیرہ)۔ اس لحاظ سے یہ ایک مکمل فوراً سرنڈر کی شق نہیں بلکہ مرحلہ وار عمل ہے۔ اس منصوبے میں حماس کو معافی دینے کی شرط دی گئی ہے بشرطیکہ وہ ہتھیار ڈال دے، اور اس کے کارکنوں کو محفوظ راستہ دیا جائے، یعنی سب کو سزا نہ دی جائے۔ یہ تھوڑی لچک کی شق ہے۔ تاہم، اس کا توازن زیادہ تر طاقتور فریق (اسرائیل و امریکا) کے حق میں ہے۔ لہٰذا، یہ کہنا درست ہوگا کہ یہ منصوبہ سرنڈر کی ایک شدید دعوت ہے یعنی ایک ایسی ڈیل جسے قبول کرنے کی صورت میں حماس کو اپنی عسکری اور سیاسی قوتوں سے دستبردار ہونا پڑے گا مگر اس میں کچھ ’’عملی مرحلے‘‘ بھی ہیں کہ تسلیم کرنے کے بعد کیا کرنا ہے، اور وہ ایک ’’سیدھی جنگ بندی سے حکومت کا عبوری کنٹرول تک‘‘ کا راستہ ہے۔ کیا یہ امن لائے گی؟ یا شکست ہے؟ یہ بہت بڑا سوال ہے، اور اس کا جواب ’’ہاں یا نہیں‘‘ نہیں ہو سکتا امکان، رکاوٹیں، خطرات، اور سیاسی حقیقتیں مل کر فیصلہ کریں گی۔ ذیل میں وہ عوامل ہیں جو فیصلہ کریں گے۔

عالمی اور عرب ممالک کی شمولیت و ضمانت: اگر عرب ریاستیں (مصر، قطر، سعودی عرب، امارات وغیرہ) اس منصوبے کی مالی، سیاسی اور حفاظتی ضمانت دیں، تو اس کا بہت وزن ہوگا۔ اگر حقیقت میں بہت بڑا بجٹ غزہ کی بحالی، انفرا اسٹرکچر کی تعمیر، روزگار بنانے پر خرچ ہو، عوام کی زندگی بہتر بنے، تو امن کا مادہ مضبوط ہوگا۔ نظام نگرانی اور قیام سلامتی فورس کا مؤثر کردار؛ اگر ’’انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس (ISF)‘‘ واقعی مؤثر طور پر کام کرے، سرحدی کنٹرول ہو، اسلحہ داخلہ روکا جائے، نظریہ جنگ پسندی محدود ہو جائے تو امن ممکن ہے۔ حماس اور دیگر گروہوں کی شمولیت یا کم از کم عدم مزاحمت؛ اگر حماس کو مکمل خارج کرنے کے بجائے اسے سیاسی عمل میں حصہ دینے کی گنجائش ملے، یا اسے مکمل شکست نہ دی جائے، تو اس کا استحکام ممکن ہوگا۔

اگر نکات کا ۱۹ واں نکتہ بین المذاہب مکالمہ واقعی عملی شکل اختیار کرے، اور دونوں فریق اپنے نظریات بدلنے کی کوشش کریں، تو امن کی جڑ مضبوط ہو سکتی ہے۔ عوامل جو ممکن ہے اسے شکست کی طرف لے جائیں۔
(جاری ہے)

سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کیا جائے گا قبول کرنے یہ منصوبہ اگر حماس جائے گی کرنے کے وہ نکات ممکن ہے کرنے کی حماس کے قبول کر اور اس ہیں کہ غزہ کی یہ ایک ہیں جو کرے گی

پڑھیں:

سکھر میں تجاوزات کے خاتمے کیلیے جامع منصوبہ تیار

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

سکھر(نمائندہ جسارت) غیر قانونی پارکنگ اور تجاوزات کے خاتمے کے لیے جامع منصوبہ تیار، شہریوں اور تاجروں سے تعاون کی اپیل، اسسٹنٹ کمشنر سکھر سٹی سارہ فراز نے کہا ہے کہ شہر کو انکروچمنٹ اور غیر قانونی پارکنگ جیسے دیرینہ مسائل سے مکمل طور پر نجات دلانا ان کی اولین ترجیح ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سکھر کے مرکزی بازاروں، تجارتی مقامات اور مصروف شاہراہوں پر برسوں سے قائم تجاوزات اور غیر قانونی پارکنگ اسٹینڈ ٹریفک کی روانی میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ اسسٹنٹ کمشنر نے کہا کہ ماضی میں متعدد آپریشنز کے باوجود مستقل حل نہ ہونے کی وجہ سے یہ مسائل بار بار سر اٹھا لیتے ہیں۔ سارہ فراز نے واضح کیا کہ سکھر شہر میں سب سے بڑی مشکل باقاعدہ اور مخصوص پارکنگ ایریاز کا نہ ہونا ہے، جس کی وجہ سے شہری مجبوری کے تحت سڑک کنارے گاڑیاں پارک کرتے ہیں اور ٹریفک جام کی صورتحال پیدا ہوتی ہے۔ضلعی انتظامیہ نے اس مسئلے کے مستقل حل کے لیے تاجر برادری کے تعاون سے ایک جامع پلان تیار کیا ہے۔ اس منصوبے کے مطابق شہر کے تمام دکانداروں کو اپنی دکان کے باہر صرف دو فٹ جگہ استعمال کرنے کی اجازت ہوگی، جہاں وہ اپنا کاروباری سامان رکھ سکیں گے، جبکہ اس کے علاوہ سڑک یا فٹ پاتھ پر کوئی تجاوزات برداشت نہیں کی جائیں گی۔

نمائندہ جسارت گلزار

متعلقہ مضامین

  • غزہ لبنان نہیں ہے‘‘ حماس نے جنگ بندی معاہدہ ختم کرنے کی دھمکی دے دی
  • غزہ: اسرائیلی حملوں میں بچوں سمیت 24 فلسطینی شہید، حماس کی ثالثوں سے مداخلت کی اپیل
  • غزہ میں اسرائیلی فوج کے مسلسل حملے جاری، حماس نے ثالثوں سے فوری مداخلت کی اپیل کردی
  • اسرائیل نے مزید 24 فلسطینی قتل کر دیئے، حماس کی امریکہ سے مداخلت کی اپیل
  • اسرائیل کی غزہ میں جارحیت کم نہ ہوئی‘حملے میں مزید 21فلسطینی شہید
  • سوڈان میں جنگ بندی کے لیے عالمی منصوبہ تیار ہے‘ امریکا
  • حماس نے اسرائیل کو خبردار کر دیا، جنگ بندی کی خلاف ورزی جاری رہی تو غزہ میں کارروائیاں بڑھائی جائیں گی
  • اسرائیلی حملے میں رہنما کی شہادت؛ حماس نے غزہ جنگ بندی ختم کرنے کا عندیہ دیدیا
  • امن منصوبہ قبول کرنے کے لئےامریکا کی یوکرین کو دھمکیاں
  • سکھر میں تجاوزات کے خاتمے کیلیے جامع منصوبہ تیار